چلتے ہیں گلشن فردوس میں گھر لیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
چلتے ہیں گلشن فردوس میں گھر لیتے ہیں
by آغا حجو شرف

چلتے ہیں گلشن فردوس میں گھر لیتے ہیں
طے یہ منزل جو خدا چاہے تو کر لیتے ہیں

عشق کس واسطے کرتے ہیں پری زادوں سے
کس لیے جان پر آفت یہ بشر لیتے ہیں

دیکھنے بھی جو وہ جاتے ہیں کسی گھائل کو
اک نمکداں میں نمک پیس کے بھر لیتے ہیں

خاک اڑ جاتی ہے ستھراو ادھر ہوتا ہے
نیمچا کھینچ کے وہ باگ جدھر لیتے ہیں

میں وہ بیمار ہوں اللہ سے جا کے عیسیٰ
مرے نسخوں کے لیے حکم اثر لیتے ہیں

یار نے لوٹ لیا مجھ وطن آوارہ کو
لوگ غربت میں مسافر کی خبر لیتے ہیں

اس طرف ہیں کہ جھروکے میں ادھر بیٹھے ہیں
جائزہ کشتوں کا اپنے وہ کدھر لیتے ہیں

ٹھیک اس رشک چمن کو وہ قبا ہوتی ہے
ناپ کر جس کی رگ گل سے کمر لیتے ہیں

کچھ ٹھکانا ہے پری زادوں کی بے رحمی کا
عشق بازوں سے قصاص آٹھ پہر لیتے ہیں

یہ نیا ظلم ہے غصہ جو انہیں آتا ہے
بے گناہوں کو بھی ماخوذ وہ کر لیتے ہیں

شہرت اس صید وفادار کی اڑ جاتی ہے
تیر میں جس کے لگانے کو وہ پر لیتے ہیں

کہتے ہیں حوروں کے دل میں ترے کشتوں کے بناؤ
اس لئے خوں میں نہا کر وہ نکھر لیتے ہیں

کس قدر نامہ و پیغام کو ترسایا ہے
بھیجتے ہیں خبر اپنی نہ خبر لیتے ہیں

دم نکلتے ہیں کلیجوں سے لہو جاری ہے
سانس الٹی ترے تفتیدہ جگر لیتے ہیں

چل کھڑے ہوں گے تو ہستی میں نہ پھر ٹھہریں گے
جان جاں چند نفس دم یہ بشر لیتے ہیں

ہے اشارہ یہی مو ہائے مژہ کا ان کی
ہم وہ نشتر ہیں کہ جو خون جگر لیتے ہیں

سامنا کرتے ہیں جس وقت گدا کا تیرے
بادشہ تخت رواں پر سے اتر لیتے ہیں

سکۂ داغ جنوں پاس ہیں رہنا ہشیار
لوگ رستے میں شرفؔ جیب کتر لیتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse