عالم میں ہرے ہوں گے اشجار جو میں رویا
عالم میں ہرے ہوں گے اشجار جو میں رویا
گلچیں نہیں سینچیں گے گل زار جو میں رویا
برسے گا جو ابر آ کر کھل جائے گا دم بھر میں
آنسو نہیں تھمنے کے اے یار جو میں رویا
روؤگے جھروکے میں تم ہچکیاں لے لے کر
اے یار کبھی زیر دیوار جو میں رویا
زخمی ہوں تو ہونے دو کیوں یار بسوروں میں
کیا بات رہی کھا کر تلوار جو میں رویا
ہوں مستعد رقت فرہاد مجھے بہلا
لے ڈوبیں گے تجھ کو بھی کہسار جو میں رویا
مجنوں نے کہا جاؤ وحشت انہیں دکھلاؤ
بیٹھا ہوا صحرا میں بیکار جو میں رویا
رحم آ ہی گیا ان کو کٹوا دے مری بیڑی
زندان میں چلا کر اک بار جو میں رویا
کی غصے کے مارے پھر اس نے نہ نگہ سیدھی
ان انکھڑیوں کا ہو کر بیمار جو میں رویا
بیتابی و زاری پر میری انہیں رحم آیا
دکھلا ہی دیا مجھ کو دیدار جو میں رویا
آرام وہ کرتے ہیں رلوا نہ مجھے اے دل
ٹھہریں گے نہ وہ ہو کر بیدار جو میں رویا
آئے تھے بمشکل وہ لائے تھے شرفؔ ان کو
پھر اٹھ گئے وہ ہو کر بیدار جو میں رویا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |