تری گلی میں جو دھونی رمائے بیٹھے ہیں
تری گلی میں جو دھونی رمائے بیٹھے ہیں
اجل رسیدہ ہیں مرنے کو آئے بیٹھے ہیں
کرو ہماری بھی خاطر نکل کے پردے سے
کہ میہماں ہیں تمہارے بلائے بیٹھے ہیں
ہماری بغلوں میں بوئے مراد آتی ہے
تمہارے پہلو میں ہم جب سے آئے بیٹھے ہیں
دیا جو عطر انہیں عاشقوں کو مٹی کا
کہا کہ ہم نہ ملیں گے نہائے بیٹھے ہیں
اٹھا کے بزم سے خلوت میں تم کو لے جاتے
یہ سوچتے ہیں کہ اپنے پرائے بیٹھے ہیں
وہ شب کو بزم میں ہنس ہنس کے پوچھتے تھے ہمیں
یہ کون ہیں کہ جو آنسو بہائے بیٹھے ہیں
ازل سے ہے یہ دو عالم میں روشنی جس کی
اسی چراغ سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں
بہار و نکہت گل ہوتی ہیں نثار ان پر
چمن میں رنگ وہ اپنا جمائے بیٹھے ہیں
یہاں بھی چین سے سونے نہ پائیں گے افسوس
مزار میں بھی نکیرین آئے بیٹھے ہیں
اٹھاؤ گے ہمیں اب کیا تم اپنی محفل سے
ہم آرزو و ہوس کے بٹھائے بیٹھے ہیں
بہار میں نئی سوجھی ہے ان کو گستاخی
عروس باغ کا گھونگٹ اٹھائے بیٹھے ہیں
فریفتہ تری اس ترچھی ترچھی چتون کے
چھری کلیجوں میں اپنے لگائے بیٹھے ہیں
ہمارے دفن و کفن کی بس اب کرو تدبیر
خبر بھی ہے تمہیں ہم زہر کھائے بیٹھے ہیں
یہ کچھ نہ سمجھیں گے سودائیوں پہ رحم کرو
حواس و ہوش جنوں میں اڑائے بیٹھے ہیں
فرشتے دیکھیے کرتے ہیں ہم سے کیا پرسش
مرے پڑے تھے لحد میں جلائے بیٹھے ہیں
فقیر کیوں یہ ہوئے ہیں شرفؔ سے پوچھو تو
بھبھوت مل کے جو دھونی رمائے بیٹھے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |