تری گلی میں جو دھونی رمائے بیٹھے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری گلی میں جو دھونی رمائے بیٹھے ہیں
by آغا حجو شرف

تری گلی میں جو دھونی رمائے بیٹھے ہیں
اجل رسیدہ ہیں مرنے کو آئے بیٹھے ہیں

کرو ہماری بھی خاطر نکل کے پردے سے
کہ میہماں ہیں تمہارے بلائے بیٹھے ہیں

ہماری بغلوں میں بوئے مراد آتی ہے
تمہارے پہلو میں ہم جب سے آئے بیٹھے ہیں

دیا جو عطر انہیں عاشقوں کو مٹی کا
کہا کہ ہم نہ ملیں گے نہائے بیٹھے ہیں

اٹھا کے بزم سے خلوت میں تم کو لے جاتے
یہ سوچتے ہیں کہ اپنے پرائے بیٹھے ہیں

وہ شب کو بزم میں ہنس ہنس کے پوچھتے تھے ہمیں
یہ کون ہیں کہ جو آنسو بہائے بیٹھے ہیں

ازل سے ہے یہ دو عالم میں روشنی جس کی
اسی چراغ سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں

بہار و نکہت گل ہوتی ہیں نثار ان پر
چمن میں رنگ وہ اپنا جمائے بیٹھے ہیں

یہاں بھی چین سے سونے نہ پائیں گے افسوس
مزار میں بھی نکیرین آئے بیٹھے ہیں

اٹھاؤ گے ہمیں اب کیا تم اپنی محفل سے
ہم آرزو و ہوس کے بٹھائے بیٹھے ہیں

بہار میں نئی سوجھی ہے ان کو گستاخی
عروس باغ کا گھونگٹ اٹھائے بیٹھے ہیں

فریفتہ تری اس ترچھی ترچھی چتون کے
چھری کلیجوں میں اپنے لگائے بیٹھے ہیں

ہمارے دفن و کفن کی بس اب کرو تدبیر
خبر بھی ہے تمہیں ہم زہر کھائے بیٹھے ہیں

یہ کچھ نہ سمجھیں گے سودائیوں پہ رحم کرو
حواس و ہوش جنوں میں اڑائے بیٹھے ہیں

فرشتے دیکھیے کرتے ہیں ہم سے کیا پرسش
مرے پڑے تھے لحد میں جلائے بیٹھے ہیں

فقیر کیوں یہ ہوئے ہیں شرفؔ سے پوچھو تو
بھبھوت مل کے جو دھونی رمائے بیٹھے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse