تری ہوس میں جو دل سے پوچھا نکل کے گھر سے کدھر کو چلیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تری ہوس میں جو دل سے پوچھا نکل کے گھر سے کدھر کو چلیے
by آغا حجو شرف

تری ہوس میں جو دل سے پوچھا نکل کے گھر سے کدھر کو چلیے
تڑپ کے بولا جدھر وہ نکلے شتاب اسی رہ گزر کو چلیے

نہ چاہئے کچھ عدم کو لے کر نکلیے ہستی سے جان دے کر
سفر جو لیجے رہ خدا میں لٹا کے زاد سفر کو چلیے

ازل سے اس کا ہی آسرا ہے جو دینے والا مرادوں کا ہے
برائے فی الفور امید دل کو جو چومنے اس کے در کو چلیے

ادھر تو تقدیر سو رہی ہے ادھر وہ نابود ہو رہی ہے
وصال کی شب کو رو جو چکیے تو رونے شمع سحر کو چلیے

جو ہاتھ اک پھول کو لگائیں یقیں ہے کانٹوں میں کھینچے جائیں
ہمارے حق میں وہ ہووے حنظل جو نوش کرنے ثمر کو چلیے

عجیب مشکل ہے آہ اے دل کٹھن ہے بیم و رجا کی منزل
قدم قدم پر یہ سوچتے ہیں کدھر نہ چلیے کدھر کو چلیے

تری جدائی میں جان عالم کیا ہے دونوں کو غم نے بے دم
بنائیے جا کے دل کی تربت کہ دفن کرنے جگر کو چلیے

ہوا ہے وہ شوق دید بازی کہ سمجھیں اس کو بھی سرفرازی
بلائیں آنکھیں وہ پھوڑنے کو تو نذر کرنے نظر کو چلیے

وصال کی شب گزر گئی ہے جو آرزو تھی وہ مر گئی ہے
ہمیں تو ہچکی لگی ہوئی ہے وہ فکر میں ہیں کہ گھر کو چلیے

یہ قاف سے قاف تک ہے شہرت کریں گے وہ امتحان وحشت
جنوں کا عالم یہ کہہ رہا ہے یہیں سے ٹکراتے سر کو چلیے

جو صبح پیری ہوئی ہویدا صدا عدم سے ہوئی یہ پیدا
نماز پڑھ کے نہ اب ٹھہریے سویرے کسیے کمر کو چلیے

لٹا ہے گلشن میں آشیانہ کہیں ہمارا نہیں ٹھکانا
قفس سے چھٹ کر بھڑک رہے ہیں کہ تنکے چننے کدھر کو چلیے

کمی نہ درد جگر میں ہوگی یہ ہم سے ایسی نے گفتگو کی
دوا کو پھر ڈھونڈئیے گا پہلے تلاش کرنے اثر کو چلیے

ہمیشہ ہر سانس نے ہماری شب جدائی میں آرزو کی
کسی طرح سے ترے چمن میں نسیم ہو کر سحر کو چلیے

چراغ بزم خدا ہوا ہے خدا نے محبوب اسے کہا ہے
یہ شام سے لو لگی ہے دل کو کہ دیکھنے اس بشر کو چلیے

ہمارا آنسو وہ بے بہا ہے نگاہ حسرت میں جچ رہا ہے
منگا کے اب اس پہ چورہے میں نثار کرنے گہر کو چلیے

سوئے فلک کیجے روئے تاباں کہ چودھویں شب پہ ہے یہ نازاں
دکھا کے حسن شباب اپنا چکور کرنے قمر کو چلیے

کسی طرح سے نہ ہونے پائے ہمارے نالوں کا فاش پردہ
اگرچہ شور فغاں کا اپنے شریک کرنے گجر کو چلیے

شرفؔ جو ہم ان پہ جان دیں گے خبر ہماری لحد میں لیں گے
ہلا کے شانہ جلا کے ہم کو کہیں گے اٹھیے بھی گھر کو چلیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse