پری پیکر جو مجھ وحشی کا پیراہن بناتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
پری پیکر جو مجھ وحشی کا پیراہن بناتے ہیں
by آغا حجو شرف

پری پیکر جو مجھ وحشی کا پیراہن بناتے ہیں
گریباں چاک کر دیتے ہیں بے دامن بناتے ہیں

جنوں میں جا بجا ہم جو لہو روتے ہیں صحرا میں
گلوں کے شوق میں ویرانے کو گلشن بناتے ہیں

جنہیں عشق دلی ہے وہ تمہارا نام جپنے کو
طہارت سے ہماری خاک کی مسرن بناتے ہیں

مرقع کھینچتے ہیں جو ترے گنج شہیداں کا
تہہ شمشیر ہر تصویر کی گردن بناتے ہیں

دیا کرتے ہو تم جس طرح سے بل زلف پیچاں کو
مسافر کے لیے یوں پھانسیاں رہزن بناتے ہیں

حسینان چمن پر خاتمہ ہے جامہ زیبی کا
پھٹا پڑتا ہے جوبن جو یہ پیراہن بناتے ہیں

ہمیشہ شیفتہ رکھتی ہے اپنی حسن قدرت کا
خود اس کی روح ہو جاتے ہیں جس کا تن بناتے ہیں

ارادہ ہے جو شمشیر دو دم کے منہ پہ چڑھنے کا
ترے جاں باز چار آئینہ و جوشن بناتے ہیں

رہا کرتے ہیں وہ دل میں پھرا کرتے ہیں نظروں میں
عطا کرتے ہیں نور آنکھوں کو دل روشن بناتے ہیں

صلاح عشق دے دے کر کیے دیتے ہیں خود رفتہ
ترے شیدائی دل سے دوست کو دشمن بناتے ہیں

کوئی چاک جگر بلبل کا گل چینوں سے پاتا ہے
نکھرنے کو گل اپنے اپنے پیراہن بنانے ہیں

گلوں کے ڈھیر لا لا کے چمن سے اس میں پھونکیں گے
قریب بوستاں بیداد گر گلخن بناتے ہیں

مدد تیار ہے نقشہ ارم کا کھنچ کے آیا ہے
شہید ناز پر رحم آ گیا مدفن بناتے ہیں

مرقع کھینچتے ہیں باغ کا جو حسن قدرت سے
گل شاداب کا کیا رنگ کیا روغن بناتے ہیں

تعلق زیب و زینت سے نہیں کچھ خاکساروں کو
شرفؔ مٹی میں رنگتے ہیں جو پیراہن بناتے ہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.