جوانی آئی مراد پر جب امنگ جاتی رہی بشر کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
جوانی آئی مراد پر جب امنگ جاتی رہی بشر کی
by آغا حجو شرف

جوانی آئی مراد پر جب امنگ جاتی رہی بشر کی
نصیب ہوتے ہی چودھویں شب شکوہ رخصت ہوئی قمر کی

وہ شوخ چتون تھی کس ستم کی کہ جس نے چشمک کہیں نہ کم کی
کسی طرف کو جو برق چمکی تو سمجھے گردش اسے نظر کی

ترا ہی دنیا میں ہے فسانہ ترا ہی شیدائی ہے زمانہ
ترے ہی غم میں ہوئیں روانہ نکل کے روحیں خدائی بھر کی

نہ آسماں ہے نہ وہ زمیں ہے مکاں نہیں وہ جہاں مکیں ہے
پیمبروں کا گزر نہیں ہے رسائی ہے میرے نامہ بر کی

کھنچا جو طول شب جدائی اندھیری مدفن کی یاد آئی
نگاہ و دل پر وہ یاس چھائی امید جاتی رہی سحر کی

جو عشق بازوں کو آزمایا لگا کے چھریاں یہ قہر ڈھایا
یہاں یہاں تک لہو بہایا کہ نوبت آئی کمر کمر کی

گرے جو کچھ سرخ گل زمیں پر کہا یہ بلبل نے خاک اڑا کر
ہوا ہے وعدہ مرا برابر یہ صورتیں ہیں مرے جگر کی

مقام عبرت ہے آہ اے دل خدا ہی کی ہے پناہ اے دل
نہیں ہے کچھ زاد راہ اے دل عدم سے تاکید ہے سفر کی

یہ ہم نے کیسا سفر کیا ہے مسافروں کو رلا دیا ہے
اجل نے آغوش میں لیا ہے خبر بھی ہم کو نہیں سفر کی

وہ جلد یارب انہیں کو تاکے لگا دے دو تیر ان پر آ کے
یہ دونوں رہ جائیں پھڑپھڑا کے میں دیکھوں لاشیں دل و جگر کی

کسی کا معشوق چھوٹتا ہے سحر کا وقت اس کو لوٹتا ہے
کوئی یہ سینے کو کوٹتا ہے نہیں ہے آواز یہ گجر کی

کھچا ہے زرتار شامیانہ گلوں سے آتی ہے بو شہانہ
دکھا کے قدرت کا کارخانہ لحد نے حسرت بھلا دی گھر کی

غشی کا عالم وہ زور پر ہے مزاج صحت سے بے خبر ہے
دوا کا غفلت زدہ اثر ہے خبر دوا کو نہیں اثر کی

شباب نے خود نما بنایا یہ ناز خوش روئی نے جتایا
حیا میں جس وقت فرق آیا تو ان کے مکھڑے سے زلف سرکی

ہوا ہوں چورنگ تیغ حسرت کہ دفن کی ہے مری یہ صورت
کسی طرف کو ہے دل کی تربت کہیں ہے تربت مرے جگر کی

جو اس نے ضد کی تو آفت آئی دہائی دینے لگی خدائی
قیامت اس بے وفا نے ڈھائی ادھر کی دنیا شرفؔ ادھر کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.