لٹاتے ہیں وہ باغ عشق جائے جس کا جی چاہے
لٹاتے ہیں وہ باغ عشق جائے جس کا جی چاہے
گل داغ تمنا لوٹ لائے جس کا جی چاہے
چراغ یاس و حسرت ہم ہیں محفل میں حسینوں کی
جلائے جس کا جی چاہے بجھائے جس کا جی چاہے
کسی معشوق کی کوئی خطا میں نے نہیں کی ہے
ستانے کو زبردستی ستائے جس کا جی چاہے
بحل شوق شہادت میں کیا ہے ہم نے خون اپنا
ہمارے شوق سے پرزے اڑائے جس کا جی چاہے
دو عالم میں نہیں اے یار مجھ سا شیفتہ تیرا
محبت یوں جتانے کو جتائے جس کا جی چاہے
خوشی و ناخوشی موقوف ہے اپنی حسینوں پر
ہنسائے جس کا جی چاہے رلائے جس کا جی چاہے
صدائیں سرخ روئی دیتی ہے گنج شہیداں میں
لہو کا مینہ برستا ہے نہائے جس کا جی چاہے
جو ہو جائے گا پروانہ چراغ حسن کا اس کے
کرے گا نام روشن لو لگائے جس کا جی چاہے
عجائب لطف ہیں کوئے توکل کی فقیری میں
خدائی ہے یہاں دھونی رمائے جس کا جی چاہے
کوئی غنچہ نہ پہنچے گا ترے حسن تبسم کو
سر میداں چمن میں مسکرائے جس کا جی چاہے
جگہ اس شمع رو نے دی ہے پروانوں کے لشکر کو
سر میداں چمن میں مسکرائے جس کا جی چاہے
پشیماں غنچہ و گل ہوں گے میرے زخم خنداں سے
ہنسے جی چاہے جس کا مسکرائے جس کا جی چاہے
عطا کی نہر گلشن اس نے اپنے عشق بازوں کو
اجازت دی یہاں نکھرے نہائے جس کا جی چاہے
خوشی ہو ہو کے خود صیاد کہتا ہے عنادل سے
بہار آئی ہوئی ہے چہچہائے جس کا جی چاہے
نہ دیکھیں گے کسی بیتاب کو وہ آنکھ اٹھا کے بھی
کلیجے کو مسوسے تلملائے جس کا جی چاہے
مریں گے اس پہ کلمہ پڑھ کے اس کا جان ہم دیں گے
خدائی بھر میں ہم کو آزمائے جس کا جی چاہے
عجب خوشبو ہے گلدستے میں شوق و ذوق کے اس کی
کرے گا وجد پیراہن بسائے جس کا جی چاہے
دعائے مغفرت تم دو اتارے قبر میں کوئی
پڑھو تلقین تم شانہ ہلائے جس کا جی چاہے
شرفؔ دم توڑتے ہیں اک پری رو کی جدائی میں
عجب عالم ہے ان کا دیکھ آئے جس کا جی چاہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |