تیر نظر سے چھد کے دل افگار ہی رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
تیر نظر سے چھد کے دل افگار ہی رہا
by آغا حجو شرف

تیر نظر سے چھد کے دل افگار ہی رہا
ناسور اس میں صورت سوفار ہی رہا

دنیا سے ہے نرالی عدالت حسینوں کی
فریاد جس نے کی وہ گنہ گار ہی رہا

سودائیوں کی بھیڑ کوئی دم نہ کم ہوئی
ہر وقت گھر میں یار کے بازار ہی رہا

نرگس جو اس مسیح کی نظروں سے گر گئی
اچھے نہ پھر ہوئے اسے آزار ہی رہا

گل زار میں ہمیشہ کیے ہم نے چہچہے
صیاد و باغباں کو صدا خار ہی رہا

آئی نہ دیکھنے میں بھی تصویر یار کی
آئینہ درمیان میں دیوار ہی رہا

سرمے سے طور کے بھی نہ کچھ فائدہ ہوا
آنکھوں کو انتظار کا آزار ہی رہا

مجنوں نے میرا داغ جگر سر پہ رکھ لیا
یہ گل وہ ہے جو طرۂ دستار ہی رہا

کچھ بھی نہ مفسدوں کی دراندازیاں چلیں
اک انس مجھ سے ان سے جو تھا پیار ہی رہا

بولے وہ میری قبر جھروکے سے جھانک کر
یہ شخص مر کے بھی پس دیوار ہی رہا

ممکن نہ پھر ہوئی قفس گور سے نجات
جو اس میں پھنس گیا وہ گرفتار ہی رہا

عالم میں حسن و عشق کا افسانہ رہ گیا
یوسف ہی رہ گئے نہ خریدار ہی رہا

صیاد کو کبھی نہ مصیبت نے دی نجات
بلبل کے صبر میں یہ گرفتار ہی رہا

کیا جانے اس غریب کو کس کی نظر ہوئی
ان انکھڑیوں کا شیفتہ بیمار ہی رہا

تو رہ گیا فقط ترے سودائی رہ گئے
یوسف رہے نہ مصر کا بازار ہی رہا

راحت کسی حسیں سے بھی پائی نہ اے شرفؔ
چاہا جسے وہ درپئے آزار ہی رہا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.