رنگ جن کے مٹ گئے ہیں ان میں یار آنے کو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رنگ جن کے مٹ گئے ہیں ان میں یار آنے کو ہے
by آغا حجو شرف

رنگ جن کے مٹ گئے ہیں ان میں یار آنے کو ہے
دھوم ہے پژمردہ پھولوں میں بہار آنے کو ہے

یار کوچے میں ترے دھونی رمانے کے لیے
غمزدہ حسرت زدہ اک خاکسار آنے کو ہے

رحم کرنا اب کی میری آنکھ کھلنے کی نہیں
آخری غش مجھ کو اے پروردگار آنے کو ہے

کوئی دم میں حشر ہوگا کچھ خبر بھی ہے تمہیں
بے قراری لاتی ہے اک بے قرار آنے کو ہے

بھاگے جاتے ہیں بگولے کانپتا ہے نجد قیس
خاک اڑی کس کی یہاں کس کا غبار آنے کو ہے

ہوش اڑے جاتے ہیں یارو روح ہے سہمی ہوئی
صید گاہ عشق سے کس کا شکار آنے کو ہے

جان جاں تو کیجو جاں بخشی کہ تجھ کو دیکھنے
ایک بے کس بے خود و بے اختیار آنے کو ہے

درد تنہائی سے چھڑاتا ہے عالم نزع کا
بے قراری کوچ کرتی ہے قرار آنے کو ہے

گل رخوں کی بزم میں جانے کو ہے میرا غبار
پیشوائی کے لئے ابر بہار آنے کو ہے

اب مری آنکھوں کو ہوگا ولولہ دیدار کا
حسرت ان میں آ چکی ہے انتظار آنے کو ہے

ہوگی اب آراستہ تربت شہید ناز کی
چادر گل بچھتی ہے شمع مزار آنے کو ہے

بے وفا تم با وفا میں دیکھیے ہوتا ہے کیا
غیظ میں آنے کو تم ہو مجھ کو پیار آنے کو ہے

غنچہ و گل کر رہی ہیں کیوں گریباں چاک چاک
کون سے رشک چمن کا دل فگار آنے کو ہے

ہجر میں دم گھٹنے کو ہے کوچ ہے تفریح کا
سانس رکنے کو ہے ہچکی چند بار آنے کو ہے

بیٹھی ہے لیلیٰ گریباں پھاڑنے کے واسطے
کس کے مجنوں کا لباس تار تار آنے کو ہے

غش سے چونکو آنکھ کھولو دم نہ توڑو اے شرفؔ
شکر کا سجدہ کرو اٹھ بیٹھو یار آنے کو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse