رہا کرتے ہیں یوں عشاق تیری یاد و حسرت میں
رہا کرتے ہیں یوں عشاق تیری یاد و حسرت میں
بسے رہتے ہیں جیسے پھول اپنی اپنی نکہت میں
کھچا حسن وفا ہو کر جو یہ تصویر وحدت میں
خدا کا نور شامل ہو گیا انساں کی صورت میں
نہیں ہے لذت دنیا و ما فیہا جو قسمت میں
خدا معلوم حصہ ہے مرا کس خوان نعمت میں
صفائی رخ بڑھی ایسی ہوا آئینہ حیرت میں
جوانی میں نظر آنے لگا منہ اس کی صورت میں
پھلوں پھولوں گا میں دنیا سے جا کر باغ جنت میں
ازل سے پرورش ہوتا ہوں میں گل زار رحمت میں
محل عشق میں جو خون مشتاقوں کا بہتا ہے
ہوا کرتی ہیں رنگ آمیزیاں اس کی عمارت میں
کرو ایسی ادائیں ہم سے ہم تصویر ہو جائیں
رہیں ہم اور تم اک جاں دو قالب ہو کے خلوت میں
ملی ہے میری قسمت سے مجھے نعمت توکل کی
جو مرغوب خدا ہیں وہ مزے ہیں اس کی لذت میں
خدائی وجد کرتی ہے جہاں میں چہچہاتا ہوں
ہزاروں میں ہوں اک بلبل ترے گل زار قدرت میں
نماز پنجگانہ میں بھی ہر جا ذکر اسی کا ہے
تشہد میں اذاں میں سجدے میں نیت میں رکعت میں
مچل جانے پر اس نافہم کے رحم اس کو آیا ہے
لیا ہے میرے طفل اشک کو دامان رحمت میں
دل آزاری کا ہم صورت سے اپنے مشورہ لیں گے
الٰہی خیر آئینہ طلب ہوتا ہے خلوت میں
مرے پر بھی شرفؔ کی دونوں آنکھیں ڈبڈباتی ہیں
خدا جانے کہ دم نکلا ہے ان کا کس کی حسرت میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |