Author:بیان میرٹھی
Appearance
بیان میرٹھی (1840 - 1900) |
اردو شاعر |
تصانیف
[edit]غزل
[edit]- آئیں گے گر انہیں غیرت ہوگی
- چراغ حسن ہے روشن کسی کا
- فلک نے ابر مرے سینہ کا بخار کیا
- وہ دریا بار اشکوں کی جھڑی ہے
- کھلا ہے جلوۂ پنہاں سے از بس چاک وحشت کا
- مثل حباب بحر نہ اتنا اچھل کے چل
- خوں بہانے کے ہیں ہزار طریق
- غمزۂ معشوق مشتاقوں کو دکھلاتی ہے تیغ
- یہ میں کہوں گا فلک پہ جا کر زمیں سے آیا ہوں تنگ آ کر
- بدلنے رنگ سکھلائے جہاں کو
- اے جنوں ہاتھ کے چلتے ہی مچل جاؤں گا
- لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے
- خاک کرتی ہے برنگ چرخ نیلی فام رقص
- صبح قیامت آئے گی کوئی نہ کہہ سکا کہ یوں
- سر شوریدہ پائے دشت پیما شام ہجراں تھا
رباعی
[edit]- اسرار جہاں لطیفۂ غیبی ہیں
- ہاں جہل تمہیں سے رنگ لایا پھر کیوں
- بیدار نہیں کوئی جہاں خواب میں ہے
- پیری کی سپیدی ہے کہ مرتا ہوں میں
- سچ ہے کہ جہاں میں سیر کیا کیا دیکھی
- کب کوئی فضول ہاتھ ملتا ہے بھلا
- افلاس میں کیوں ٹیکس لگا رکھا ہے
- گرمی امسال کس قیامت کی پڑی
- جو مکتب ایجاد میں داخل ہوگا
- آوارۂ حرص در بہ در پھرتا ہے
Works by this author published before January 1, 1929 are in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. Translations or editions published later may be copyrighted. Posthumous works may be copyrighted based on how long they have been published in certain countries and areas. |