بدلنے رنگ سکھلائے جہاں کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بدلنے رنگ سکھلائے جہاں کو
by بیان میرٹھی

بدلنے رنگ سکھلائے جہاں کو
کہوں کیا سرمہ کو وسمہ کو پاں کو

دیا ہے دین و دل تاب و تواں کو
نگہ کو زلف کو تل کو دہاں کو

کیا پھیکا مرے رشک چمن نے
سمن کو یاسمن کو ارغواں کو

مرے خوں کے نشاں ہیں دھو چکے شرم
جبیں کو آستیں کو آسماں کو

خرام مہوشاں چکر میں لائے
زمانہ کو زمیں کو آسماں کو

طلسم صنعت بیچوں ہے دیکھو
کفل کو ساق کو موئے میاں کو

لب نوشیں نے سکھلائی حلاوت
شکر کو شہد کو قند کلاں کو

کیا روپوش شرم روئے بت نے
جناں کو چشمۂ حیواں کو جاں کو

کہاں ہیں اہل فن لاؤں کہاں سے
نظیریؔ کو ظہوریؔ کو بیاںؔ کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse