غمزۂ معشوق مشتاقوں کو دکھلاتی ہے تیغ
غمزۂ معشوق مشتاقوں کو دکھلاتی ہے تیغ
صورت ابرو ہمارے سر چڑھی جاتی ہے تیغ
ہوتے ہیں قرباں شہادت میں گلے مل کر شہید
دوش قاتل پر ہلال عید بن جاتی ہے تیغ
پست خم کھائے ہوئے لب خشک دم ڈوبا ہوا
چلتے چلتے اب تو او ظالم تھکی جاتی ہے تیغ
بے گناہی کا برا ہو زخم بے لذت ہوئے
دست قاتل میں برنگ بید تھراتی ہے تیغ
اس کی گردن پر مرا خوں اس کا احساں میرے سر
اس سے جھک جاتا ہوں میں اور مجھ سے جھک جاتی ہے تیغ
پار دریائے شہادت سے اتر جاتے ہیں سر
کشتیٔ عشاق کی ملاح بن جاتی ہے تیغ
خون گرماتا ہے جب پانی میں لہراتا ہوا
مثل ماہی خوف کے مارے اچھل جاتی ہے تیغ
ابروئے خوں خار قاتل کا کوئی پرساں نہیں
اب نکلتی ہے کہیں تو قرق ہو جاتی ہے تیغ
کب بجھے اس طرح ہے شوق شہادت کی یہ پیاس
زخم کے منہ میں زباں بن کر نکل آتی ہے تیغ
مرحبا جذب شہادت اس کا مغرب ہے گلو
آپ منزل پر ہلال آسا پہنچ جاتی ہے تیغ
تشنہ کامو گھاٹ سے اترے تو بیڑا پار ہے
چشمۂ کوثر چھلکتا ہے کہ لہراتی ہے تیغ
لڑتی ہے چھینٹے لب جو رنگ کیسا لال ہے
مار کر پانی میں غوطہ خوں میں نہلاتی ہے تیغ
زخم کاری نے کہیں منہ کھول کر کچھ کہہ دیا
کیا ہوا قبضہ سے باہر کیوں ہوئی جاتی ہے تیغ
جان سے عشاق جاتے ہیں گزر کٹتے ہیں غیر
پل صراط امتحان عشق کہلاتی ہے تیغ
آفتاب داغ سودا کی حرارت دیکھ کر
چھاؤں میں دل تفتگان غم کو بٹھلاتی ہے تیغ
مدعی در پردہ کٹ کٹ جاتے ہیں شکل نیام
اے بیاںؔ میری زبان تیز کہلاتی ہے تیغ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |