غمزۂ معشوق مشتاقوں کو دکھلاتی ہے تیغ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
غمزۂ معشوق مشتاقوں کو دکھلاتی ہے تیغ
by بیان میرٹھی

غمزۂ معشوق مشتاقوں کو دکھلاتی ہے تیغ
صورت ابرو ہمارے سر چڑھی جاتی ہے تیغ

ہوتے ہیں قرباں شہادت میں گلے مل کر شہید
دوش قاتل پر ہلال عید بن جاتی ہے تیغ

پست خم کھائے ہوئے لب خشک دم ڈوبا ہوا
چلتے چلتے اب تو او ظالم تھکی جاتی ہے تیغ

بے گناہی کا برا ہو زخم بے لذت ہوئے
دست قاتل میں برنگ بید تھراتی ہے تیغ

اس کی گردن پر مرا خوں اس کا احساں میرے سر
اس سے جھک جاتا ہوں میں اور مجھ سے جھک جاتی ہے تیغ

پار دریائے شہادت سے اتر جاتے ہیں سر
کشتیٔ عشاق کی ملاح بن جاتی ہے تیغ

خون گرماتا ہے جب پانی میں لہراتا ہوا
مثل ماہی خوف کے مارے اچھل جاتی ہے تیغ

ابروئے خوں خار قاتل کا کوئی پرساں نہیں
اب نکلتی ہے کہیں تو قرق ہو جاتی ہے تیغ

کب بجھے اس طرح ہے شوق شہادت کی یہ پیاس
زخم کے منہ میں زباں بن کر نکل آتی ہے تیغ

مرحبا جذب شہادت اس کا مغرب ہے گلو
آپ منزل پر ہلال آسا پہنچ جاتی ہے تیغ

تشنہ کامو گھاٹ سے اترے تو بیڑا پار ہے
چشمۂ کوثر چھلکتا ہے کہ لہراتی ہے تیغ

لڑتی ہے چھینٹے لب جو رنگ کیسا لال ہے
مار کر پانی میں غوطہ خوں میں نہلاتی ہے تیغ

زخم کاری نے کہیں منہ کھول کر کچھ کہہ دیا
کیا ہوا قبضہ سے باہر کیوں ہوئی جاتی ہے تیغ

جان سے عشاق جاتے ہیں گزر کٹتے ہیں غیر
پل صراط امتحان عشق کہلاتی ہے تیغ

آفتاب داغ سودا کی حرارت دیکھ کر
چھاؤں میں دل تفتگان غم کو بٹھلاتی ہے تیغ

مدعی در پردہ کٹ کٹ جاتے ہیں شکل نیام
اے بیاںؔ میری زبان تیز کہلاتی ہے تیغ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse