خاک کرتی ہے برنگ چرخ نیلی فام رقص

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خاک کرتی ہے برنگ چرخ نیلی فام رقص
by بیان میرٹھی

خاک کرتی ہے برنگ چرخ نیلی فام رقص
ہر دو عالم کو ترا رکھتا ہے بے آرام رقص

دیکھیے پیری کا حال اور دیکھیے ریش سفید
شیخ صاحب نا مناسب ہے یہ بے ہنگام رقص

ابلق چشم بتاں کی شوخیاں چکرا گئیں
آسماں پر مہر و مہ کرتے ہیں صبح و شام رقص

ہو حقیقی یا مجازی عشق کی حالت نہ پوچھ
خانقہ میں مے ہے اور مے خانہ میں بدنام رقص

صومعہ میں وجہ صد تحسیں ہوا صوفی کا حال
مے کدہ میں آن کر کیوں ہو گیا بدنام رقص

نرگس مخمور جاناں ڈال دیتی گر نگاہ
مردم چشم بتاں کی طرح کرتا جام رقص

عاشقاں ابروئے بت کی ہے طاعت اضطراب
تھی نماز اہل حرم جب تک نہ تھا اسلام رقص

گرد پھرتا ہوں جو اس بر کے تو واعظ کیا ہوا
طوف میں کرتا ہے تو بھی باندھ کر احرام رقص

بحر میں گرداب ہے اور دشت میں ہے گرد باد
خشک و تر میں ہے تری شوخی سے اے گلفام رقص

شوخ نے برہم نظام محفل امکاں کیا
خاک نے چھیڑا ہے گردوں نے لیا ہے تھام رقص

پائمال غم پسے جاتے ہیں سرمے کی طرح
لے اڑی کس کے قدم سے گردش ایام رقص

تیری شوخی سے تری رفتار سے اے رشک باغ
چوکڑی بھولا ہرن طاؤس گل اندام رقص

عیش جاوید ان کو حاصل ہے جو ہیں تیری طرف
طائر قبلہ نما کرتا ہے صبح و شام رقص

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse