فلک نے ابر مرے سینہ کا بخار کیا
فلک نے ابر مرے سینہ کا بخار کیا
مجھے مجھی پہ ستم گر نے اشک بار کیا
ہر ایک ذرہ نے ایجاد صد بہار کیا
یہ میری خاک کو کس گل نے رہ گزار کیا
بلا ہے شوق شہادت نہ اس نے وار کیا
جگر کو آپ ہی بڑھ کر سناں کے پار کیا
میں خوش ہوں وعدۂ فردا پہ کون شخص ہوں میں
وہ شوخ اور یہ عمر اس پہ اعتبار کیا
کچھ ایسی چیز نہ تھے دو جہان کیا ہوتے
دکھا کے آئنہ تم پر تمہیں نثار کیا
زمیں میں زلزلہ ہے آسماں میں تہلکہ ہے
کسی نے آج کسی دل کو بے قرار کیا
یہ آبلے نہیں نکلی ہے آنکھ ہر مو پر
ترا تو میرے سراپے نے انتظار کیا
مذاق عشق تو دیکھو کہ دل ہی دل نکلے
جو چاک سینہ مرا صورت انار کیا
ہنوز سنگ میں آئینہ ہے خوشا فرہاد
کہ بعد مرگ بھی شیریں کا انتظار کیا
طریق عشق میں کی بے خودی سے طے منزل
یہ تھی وہ رہ کہ نہ اپنا بھی اعتبار کیا
کہ کیوں ہو عاشق و معشوق کا جہاں دشمن
کہ حسن و عشق نے اچھوں کو بے قرار کیا
ادھر وہ جلوہ کہ موسیٰ کو بے حواس رکھا
ادھر یہ جذبہ کہ یوسف کو بے دیار کیا
سروں پہ داور محشر نے فرش کیں آنکھیں
تمہارے آنے کا کیا کیا نہ انتظار کیا
بیاںؔ مرا دل خونیں وہ قطرہ ہے جس کو
محیط اعظم غم ہائے روزگار کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |