یہ میں کہوں گا فلک پہ جا کر زمیں سے آیا ہوں تنگ آ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ میں کہوں گا فلک پہ جا کر زمیں سے آیا ہوں تنگ آ کر
by بیان میرٹھی

یہ میں کہوں گا فلک پہ جا کر زمیں سے آیا ہوں تنگ آ کر
جو اے مسیحا تو ہے مسیحا تو کچھ مرے درد کی دوا کر

تمہارے جلوے غضب کے دیکھے تمہارے چھینٹے بلا کے پائے
لگا لگا دی بجھا بجھا کر بجھا بجھا دی لگا لگا کر

ضدیں محبت سے ایسی آئیں خیال رکھا نہ اپنے گھر کا
بتوں نے کعبہ کو مفت ڈھایا کسی کے دل کو دکھا دکھا کر

وہ شوخ بے اعتبار کافر رہا نہ تنہا گیا نہ تنہا
جو درد اٹھا اٹھا اٹھا کر تو دل کو بیٹھا بٹھا بٹھا کر

یہ زور حرمان و یاس کا ہے اثر کہاں کا مری فغاں کو
پٹک پٹک خاک پر دیا ہے فلک سے اونچا اٹھا اٹھا کر

گداز کرتے ہیں میرے دل کو وہ یوں بٹھاتے ہیں اپنا سکہ
جلی کٹی ہو رہی ہے کیا کیا عدو سے مجھ کو سنا سنا کر

سنی کسی نے صدائے طوطی نہ حالت عندلیب دیکھی
جو کور تھی اس چمن میں نرگس تو گل بھی اے ہم صفیر تھا کر

کہیں نہ زلفوں سے کھل پڑا ہو مجھے ہے اندیشہ اپنے دل کا
کہ پرزے پرزے اڑا رہا تھا عدو کوئی شے دکھا دکھا کر

وہ بت کہ دیں اس کو تو نہ گر دے تو لاکھ طوفاں اٹھا کے دھر دے
زبان پھر صاف قطع کر دے جو منہ سے نکلے خدا خدا کر

الٰہی ہنگام آمد آمد یہ کس قیامت خرام کا ہے
کھسک چلے صحن بوستاں سے تدرو و طاؤس دم دبا کر

فلک ہوا مہرباں پھرے دن شب وصال آ گئی تو اس نے
بہار‌ لطف‌ و کرم دکھا کر نقاب شرم و حیا اٹھا کر

کبھی ہنسایا کبھی رلایا کبھی رلایا کبھی ہنسایا
جھجک جھجک کر سمٹ سمٹ کر لپٹ لپٹ کر دبا دبا کر

بیاںؔ ہے وہ بادشاہ اسریٰ کہ جس کی درگاہ‌ خسروی میں
دیا زمین‌ ادب کو بوسہ فلک نے گردن جھکا جھکا کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse