مثل حباب بحر نہ اتنا اچھل کے چل

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
مثل حباب بحر نہ اتنا اچھل کے چل
by بیان میرٹھی

مثل حباب بحر نہ اتنا اچھل کے چل
ہیں ساتھ ساتھ موج حوادث سنبھل کے چل

برگ خزاں رسیدہ سے آتی تھی یہ صدا
اس باغ سبز پر کف افسوس مل کے چل

درپئے نہنگ مرگ ہے درپیش چاہ گور
مستی نہ کر حواس میں آ مت مچل کے چل

سوتے ہیں لوگ تار ہیں کوچے گزر ہے تنگ
تاریک شب ہے ساتھ چراغ عمل کے چل

اے تن پرست جامۂ صورت کثیف ہے
بزم حضور دوست میں کپڑے بدل کے چل

آتی ہے زیر خاک سے آواز ہر قدم
افتادگان راہ کے سر مت کچل کے چل

کب تک کثافتوں میں رہے گا برنگ سرد
آب رواں کی طرح نکل اور نکل کے چل

جوں شمع تجھ کو آتش غم سے گریز کیوں
سر پر دھری ہے آگ قدم تک پگھل کے چل

جوں نخل شمع برق تجلی گرے کہیں
داغوں سے آبلوں سے بیاںؔ پھول پھل کے چل

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse