لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے
by بیان میرٹھی

لہو ٹپکا کسی کی آرزو سے
ہماری آرزو ٹپکی لہو سے

یہ ہے کس کا سویم پوچھا عدو سے
کہ دم ہے ناک میں پھولوں کی بو سے

وہ بچہ پرورش کرتی ہے الفت
جو پیکاں پوروے کی طرح چوسے

یہ ٹوٹے گی ہوائے گل سے واعظ
مری توبہ کو کیا نسبت وضو سے

اسے کہتے ہیں قمری طوق الفت
چھری لپٹی ہوئی ہے یاں گلو سے

یہ تاثیر محبت ہے کہ ٹپکا
ہمارا خوں تمہاری گفتگو سے

وہ ہیں کیوں حسن کے پردہ پہ نازاں
یہ سیکھا ہے ہماری گفتگو سے

کیا ہے دامن محشر کو افشاں
اڑے چھینٹے یہ کس کس کے لہو سے

سنا ہے جام تھا جمشید کے پاس
ارے ساقی فقیروں کے کدو سے

وہ شرمیلی نگاہیں کہہ رہی ہیں
ہٹا دو عکس کو بھی روبرو سے

لب گل رنگ پر ہے خال مشکیں
مگس اور پھول کی پتی کو چوسے

بیاںؔ خوف گنہ سے مر چکے تھے
مگر جاں آ گئی لا تقنطو سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse