فسانہء مبتلا/45

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

خاتون: مدتیں ہوئیں مرکھپ گئی۔ ستر پچھتر برس کی تو وہ میری سوکن کے وقت میں تھی۔

غیرت بیگم: پھر خاتون کوئی ویسی ہی تدبیر یہاں نہیں کرتیں۔

خاتون: بیوی تمہاری یہاں افتاد دوسرے طور کی ہے ہم تو غریب آدمی ہیں۔ اب بھی ہیں اور تب بھی تھے۔ میاں سات روپے مہینے پر ایک عطار کی دکان پر بیٹھتا تھا سامنے تھا اس بیسوا کا کوٹھا۔ آدمی تھا وہ بھی طرح دار، یہ نامراد اس کے سر ہوئی میں تو بارہ آنے مہینے کرائے پر دینا بیگ خاں کے کٹڑے میں رہتی تھی۔

ذرا سا مکان میرے اکیلے دم کا اس میں گزر ہوتا تھا۔ سوکن صاحب جو آئیں بس میری گود میں بیٹھیں، مرد واکم بخت اس طرح کا ظالم کہ گالی دے بیٹھا۔ اس کے آگے ایک ایک بات اور بات بات میں مکا اور لات اگر وہ کبھی مجھ کو اور سوکن کو آپس میں لڑتے دیکھ پائے تو دونوں کے ڈنڈے لگائے سو بیوی اپنی عزت اپنے ہاتھ۔

میں نے تو چوں نہیں کی اور ظاہر میں سوکن سے ایسی گھلی ملی رہی جیسے سگی بہن پر دل سے تو میری جان کی دشمن تھی اور میں اس کی۔

ایک جگہ کے رہنے سہنے اور ظاہر کے میل ملاپ سے ایک یہ فائدہ تو تھا کہ میں جو چاہتی سو کر گزرتی تھی اس کو یا مردوے کو شبہ نہیں ہونے پاتا تھا۔ تمہارے یہاں بیوی اول دن سے کھلم کھلا بگاڑ پڑے ہوئے ہیں۔ ایسی جگہ کوئی تدبیر چلنی ذرا مشکل ہے۔ نہیں تو کیا بڑی بات ہے چنیا نہیں، چنیا کی بہنیں اور بہتیری اور دائی کا بھی اس میں کیا کام۔ ایک سے ایک دوا مجھ کو ایسی معلوم ہے کہ چٹکی بچاتے میں کھڑا کھٹکا نہ کھائے۔

غیرت بیگم: اے ہے اچھی میری خاتون ایسی کوئی دوا ہے تو ضرور مجھ کو بتاؤ۔

خاتون: دوائیں تو بہت پرکاڑھے ہیں پینے کے، کچھ لیپ ہیں لگانے کے۔ آج کو یہاں دوا بنتی چھنتی ہوئی تو کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ دوا تو بناتے ہیں اپنے ہاتھوں سے۔ میاں کوئی کرے تو کیا کرے۔

غیرت بیگم: پھر تم ہی کچھ تدبیر نکالو گی تو نکلے گی ورنہ میں تو اپنی جان پر کھیلے بیٹھی ہوں اور یہی بات اس وقت میں سوچ بھی رہی تھی خدا مجھے تو اس دن کے واسطے نہ رکھے ہائے کن آنکھوں سے دیکھوں گی کہ اس کے بچے کھیلتے پھریں اور کن کانوں سے سنوں گی کہ اماں پکاری جائے۔

تم سے کچھ ہو سکتا ہے تو کرو نہیں تو تم اکیلی کیا، دنیا دیکھ لے گی کہ جلا ہوا دل بہت برا ہوتا ہے اور کسی پر زور نہیں چلتا مگر اپنی جان تو بس کی ہے، جان جائے بھی تو مجھ جیسی کی بلا سے، غیرت میرا نام ہے، نام کے پیچھے جان دوں تو سہی۔

خاتون: بیوی خدا کے واسطے تم ایسی ایسی باتیں میرے سامنے تو کرو مت سن سن کر میرے تو ہوش اڑے جاتے ہیں۔ جان سی چیز کہاں پائیے تم اپنے ننھے منے بچوں کا منہ کرو، خدا تمہاری سلامتی میں ان کو پروان چڑھائے۔

الٰہی تم کو ان کی بہاریں دیکھنی نصیب اور قربان کی وہ نامراد سوکن۔ خدا چاہے گا تو وہی نہ رہے گی۔ ہراساں ہو تمہاری بلا اور غم کرے تمہاری پاپوش۔ جب خدا نہ کرے کہ تمہاری ہی جان پر آبنے گی تو ہم پندرہ بیس بندے جو تمہاری جوتیوں سے لگے ہیں تو کیا منہ دیکھنے کے واسطے ہیں۔ پہلے ہم سب تم پر سے تصدیق ہو لیں گے تب جو بات سو بات۔ پر بیوی جو بات تم چاہتی ہو جان جوکھوں کا کام ہے۔

پہلے اپنی جان سے ہاتھ دھو لو تو اس کا بیڑا اٹھائے۔ پھر اس کو چاہیے دل کا پکا پیٹ کا گہرا بھروسہ کا پورا کہ خدانخواستہ کل کلاں کو کچھ ایسی ویسی ہو تو اپنے اوپر جھیل لی جائے اور مالک کو بال بال بچائے۔ سو تمہارے گھر میں تو میں اس ڈھب کا کسی کو نہیں پاتی۔ چھوکریاں ہیں چھچھوری کہ آدھی بات سن پائیں تو ایک ایک کی چار چار دل سے بنائیں اور سارے محلے میں دھوم مچائیں۔

رہ گئیں مامائیں، نوکریں تو ہر کسی سے کہتے جی لرزتا ہے اور مجھ اکیلی سے سارا سرانجام ہو نہیں سکتا۔ ایک میرا بھانجا ہے جو میرے میاں کی جگہ عطار کی دکان پر نوکر ہے۔ اگر وہ گنٹھ جائے تو سارے کام آسان ہیں۔ میں اس سے ذکر کروں گی پر بیوی تم اپنی جگہ پر سمجھ لو۔ میری تو اگر جان بھی تمہارے کام آجائے تو دریغ نہیں۔ میں نے تمہارا نمک کھایا ہے اور میں اب دنیا میں جی کر بھی کیا کروں گی بہتیرا جی چکی پر میرا بھانجا بال بچے دار آدمی ہے۔

عمر بھی اس کی کچھ ایسی بہت نہیں۔ اس کو تو کچھ ایسا ہی بھاری لالچ دیا جائے گا تو شاید وہ اس کام میں ہاتھ ڈالے۔

غیرت بیگم: مجھ کو تو اگر کوئی کھڑا کر کے بیچ لے تو بھی عذر نہیں کسی طرح اس عذاب سے چھٹکارا ہو۔ خاتون بیوی دیکھو خبردار میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو نہیں تو سارے گھر پر آفت آجائے گی۔

غیرت بیگم: خیرخیر مناؤ تم نے کیا مجھ کو ایسا نادان سمجھ رکھا ہے۔

میں خوب سمجھتی ہوں کہ بڑے اندیشے کی بات ہے مجھ کو اپنے دونوں بچوں کی جان کی قسم کیا مجال کہ منہ تک بات آجائے۔

خاتون تو بس بات کو اپنے ہی تک رہنے دو۔ جب سب ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا تو میں تم کو خبر کر دوں گی اور میں تم کو یہی صلاح دیتی ہوں کہ مل جاؤ کیونکہ ملاپ میں خوب کام نکلتا ہے۔ مگر ملو نہیں تو یہ ہر وقت کا جھگڑا بکھیڑا تو موقوف کر دو۔

ورنہ کرے گا کالا چور اور پکڑے جائیں گے تمہارے دشمن برا چاہنے والے۔ خاتون کے سمجھانے بجھانے سے غیرت بیگم نے باوجود یہ کہ ناوقت ہو گیا تھا منگوا کر کھانا کھایا اور جو سارے سارے دن ہریالی کا جھگڑا لگا رہتا تھا۔ وہ بھی بند ہوا۔ آدمی لاکھ چھپائے پر دل کی کپٹ بے ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہتی لوگ جو چوری یا دوسرے جرموں کے مرتکب ہوتے ہیں اپنے پندار میں بڑی بڑی پیش بندیاں کرتے ہیں اور آخری کو وہی پیش بندیاں ان کو رسوا اور فضیحت کراتی ہیں یا تو تمام دن دونوں سوکنوں کی لڑائی کا ایک غل پڑا رہتا تھا۔

ایک دم سے ہوا سناٹا تو غیرت بیگم اور خاتون کے سوائے سبھی کو حیرت تھی کہ دلوں میں ایسی کیا نیکی خدا نے ڈالی کہ آپ سے آپ لڑتے لڑتے رک گئیں، باوجود یکہ خاتون نے سمجھا دیا تھا کہ جب سب ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا تو میں تم کو خبر کر دوں گی مگر غیرت بیگم کو اتنا صبر کہاں تھا اس نے تو اگلے ہی دن سے خاتون کی جان کھانی شروع کر دی۔ کیوں بی اب ہو گیا۔

کیا دیر ہے۔ کاہے کا انتظار ہے۔ اے ہے کبھی ہو بھی چکے گا یا نہیں۔ بس اب خاک ہو گا۔ تم کو نہیں کرنا منظور تھا تو مجھ کو آس کیوں دی تھی۔ سخی سے سوم بھلا جو ترت دے جواب۔ آخر جب تقاضا حد سے گزر گیا تو ایک دن خاتون نے کہا کہ لو بی بی خدا نے مجھ کو تم سے سرخرو کیا۔ اب کہیں اتنے دنوں میں جاکر بڑی مشکل سے معاملہ طے ہوا میں تو سمجھتی تھی خدا جانے سرے سے حامی بھی بھرے یا نہ بھرے۔

مانگے تو دس ہزار مانگے پندرہ ہزار مانگے پر ماشاء اللہ قسمت تمہاری بڑی زبردست ہے۔ سستا چک گیا ایک ہزار فی الفور اور جو خدا نہ کرے کہیں وہ لڑکا زیادہ کھل کھلا پڑے تو دو ہزار۔ غیرت بیگم تو کہہ ہی چکی تھی کہ اگر مجھ کو کوئی کھڑا کر کے بیچ ڈالے تو بھی عذر نہیں۔ سننے کے ساتھ لگی ہاتھوں سے سونے کے ٹھوس کڑوں کی جوڑی اتارنے کہ اتنے میں خاتون بولی کہ بیوی کڑے مت دو۔

میرا جی بھی کڑھتا ہے ننگے ہاتھ بُرے لگیں گے اور لوگوں میں بھی پرچول پڑے گی بلکہ جتنا گہنا تم پہنے رہتی ہو اس میں سے کچھ بھی مت دو۔ غرض جس طرح خاتون کہتی گئی کچھ نقد وجنس ملا کر ہزار پورے کر اس کے لیے باندھے۔ ہزار نقد اور ہزار ادھار کے لے کر خاتون نے یہ کار نمایاں کیا کہ چوہوں کے بہانے سے تھوڑی سی سنکھیا بھانجے سے مانگ لائی۔ دونوں گھروں میں دودھ کا راتب بندھا ہوا تھا۔

گھوسن بڑے سویرے آتی اور سب سے پہلے یہیں کا راتب لاتی۔ خاتون اندھیرے منہ اٹھ مردانے میں جا بیٹھی، جوں ہی گھوسن نے پاؤں اندر رکھا کہ خاتون نے اس سے لڑنا شروع کیا کہ ساری دنیا میں حلوائی ہوئے گھوسی ہوئے دودھ میں پانی ملاتے ہیں۔ یہ کہیں سے بے چاری انوکھی گھوسن نکلی کہ پانی میں دودھ ملا کر لاتی ہے۔ پرسوں کھیر پکی کسی نے منہ پر نہیں رکھی کل جوں چاہا کہ سویوں میں ڈالیں نیلا نیلا سوت پانی۔ ہر روز بیوی کو ہم لوگوں پر خفا کرواتی ہے لاتیری ہنڈیا بیوی کو لے جا کر دکھاؤں تب تو انہیں یقین آئے گا۔