فسانہء مبتلا/44

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

تئیسواں باب: حاملہ ہریالی سے غیرت بیگم کا انتقام

اتفاق سے ہریالی پڑی بیمار شاموں شام سر دھویا، سردی کھائی، زکام ہوا، بخار آنے لگا۔ چند روز کچھ دھیان نہ کیا۔ بخار تھا کہ لمبا ہو گیا۔ بلکہ ذرا ذرا کھانسی کی بھی دھسک شروع ہو گئی۔ معمولی طو رپر حکیموں کے علاج کیے، لیکن بخار ہے کہ جنبش نہیں کھاتا، کھانسی کو اتنا آرام ہوا سمجھو سوکھی سے تر ہو گئی ایک دن بلغم میں کچھ سرخی کی جھلک دکھائی دی تو تردد ہوا اور تردد کی بات ہی تھی خیال کیا کہ پان کی سرخی ہو گی مگر پھر ثابت ہوا کہ نہیں خون کی ہے۔

تب تو مبتلا گھبرایا، غیرت بیگم کے ہاتھوں سے تو ایسی ایسی ایذائیں پہنچی تھیں کہ اس کے نام سے اس کا دل بے زار تھا۔

اس کو تھوڑی یا بہت جو کچھ دل بستگی تھی ہریالی کے ساتھ تھی۔ اب جو اس کو خون تھوکتے دیکھا۔ قریب تھا کہ سودائی ہو جائے شبہ تو تھی کئی دنوں سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہیں غیرت بیگم نے کچھ کر کرا دیا ہو۔ کھانسی کے ساتھ خون کا آنا تھا کہ یقین کیسا حق الیقین ہو گیا کہ غیرت بیگم نے پون بٹھائی۔

خدانخواستہ ایسا تو پرانا بخار بھی نہیں کہ سل ہونے کا اندیشہ ہو، ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سیانے اور بھگت بلائے! آئے سب نے اپنے اپنے جادو چلائے مگر کم بخت پون کی کچھ اصل جادو کی کچھ حقیقت ہو تو روگ میں کمی، مرض میں خفت ہو۔ خبط کے جادو، وہم کی پون اس کو اتارے کون، ہریالی کا حال بہت پتلا چلا، آخر کسی نے صلاح دی کہ سب کچھ تو کر چکے۔ ذرا ڈاکٹر چنبیلی کو بھی تو ایک نظر دکھاؤ۔

چنبیلی کا نام اصل میں مس بیلی تھا۔ ولایت سے نئی آئی تھی کہ اس نے نواب اقتدار الدولہ بہادر کے محل میں ایک بڑے معرکے کا علاج کیا۔ تب ہی سے شہر میں بڑی شہرت ہوئی ۔ نواب صاحب کی محل سرا میں اس کو چنبیلی پکارتے تھے۔ وہاں کی سنی سنائی اور لوگ بھی چنبیلی کہنے لگے۔ دایہ گری کے فن میں نہایت تجربہ کار اور مشتاق تھی اور خود مبتلا کے گھر میں معصوم اور بتول دونوں کے ہونے میں بلائی گئی تھی۔

ہریالی اور ہریالی کے تیمار دار کسی کے ذہن میں بھی نہیں بات آئی تھی کہ ہریالی کی حالت ڈاکٹر چنبیلی کے علاج کی متقاضی ہے۔

ڈاکٹر چنبیلی کو جب بلایا گیا، تو غیرت بیگم سمجھ کر معرفت سابقہ کے لحاظ سے بلاعذر بڑی خوشی کے ساتھ فوراً چلی آئی۔ اس کو یہاں آکر معلوم ہوا کہ مبتلا نے دوسری بی بی کی ہے۔ اس نے بیمار کو دیکھا تو سہی مگر مبتلا سے کہا کہ مجھ سے اور غیرت بیگم سے دوستی یا بہنا پاتو نہیں ہے۔

پرتم کو پتہ ہے کہ ان کے دو بچے ہونے میں، میں نے ان کی خبرگیری کی ہے تو تمہاری اس بی بی کا علاج کرنے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ اس کو میں خلافِ مروت سمجھتی ہوں اور میرے علاج کی چنداں ضرورت بھی نہیں۔ جس حکیم کا علاج کرتے ہو ان کو صرف اتنا اشارہ کر دینا کہ دو جانوں کی رعایت سے علاج کریں اتنا کہہ کر ڈاکٹر غیرت بیگم کی طرف گئی۔ معصوم اور بتول دونوں کو گود میں لے کر پیار کیا۔

پھر غیرت بیگم سے بولی کہ اگر میں دوسرے گھر میں نہ بلائی گئی ہوتی تو میں تم سے پوچھتی کہ اس قدر دبلی کیوں ہو۔ ہم لوگوں میں مرد دوسری بی بی نہیں کر سکتے اور مرد اور عورت دونوں کے حقوق کو تولا جائے تو شاید عورت ہی کا پلہ جھکتا ہوا رہے گا۔ پھر بھی مرد اور عورت کا تعلق اس قسم کا ہے کہ بیاہ ہو جانے سے عورت مرد کے بس میں آجاتی ہے۔ یہی سمجھ کر میں نے اپنا بیاہ نہیں کیا اور کرنے کا ارادہ بھی نہیں میں تمہاری حالت پر افسوس کرتی ہوں اور اس سے زیادہ افسوس اس مجبوری کا ہے کہ مدد کرنے کی جگہ نہیں۔

لیکن کبھی اگر میرا کام آ پڑے تو ضرور مجھ کو یاد کرنا۔ غیرت بیگم نے اگرچہ دیہات میں پرورش پائی تھی۔ پر وہ اتنی بھی تو بے تمیز نہیں تھی کہ چنبیلی کے آنے کا اس کی محبت کا، مروت کا، ہمدردی کا شکریہ ادا نہ کرتی، مگر سوکن کے جھگڑے میں اس کو کسی چیز کی سدھ نہ تھی۔ چنبیلی اس سے بات کر رہی تھی اور یہ اس فکر میں تھی کہ کب چپ کرے اور میں سوکن کا حال پوچھوں، غرض غیرت بیگم نے چھوٹتے ہی پوچھا کہ کہو کیا دیکھا۔

چنبیلی بولی حکیم کو دھوکا ہوا۔ اس نے پہچانا نہیں کہ یہ عورت چار مہینے ہوئے دوجی سے بیٹھی ہے، میں نے تمہارے میاں کو جتا تو دیا ہے۔ اب بھی اگر سمجھ بوجھ کر علاج ہو گا۔ تو بچے کو تو میں نہیں کہہ سکتی کیونکہ ادھر تو ہوئے جلاب اور ادھر بخار کی وجہ سے ملیں اوپر تلے ٹھنڈی ٹھنڈی دوائیں۔ بچے کو سردی نے پکڑ لیا۔ مگر احتیاط کی وجہ تو میرے نزدیک یہ ہے کہ بچے والی کو ابھی تک کچھ بڑی الجھن نہیں ہے۔

اس لیے کہتے ہیں کہ آدمی فربہ شود ازراہ گوش۔ یہ بات دوسری طرف ہریالی نے جو سنی تو اس کے دل کو اس قدر تقویت پہنچی کہ کیسی دوا اور کس کا علاج گھڑیوں اس کا مزاج خود بخود ٹھیک ہوتا گیا۔

یہاں تک کہ یا تو آپ سے کروٹ نہیں بدل سکتی تھی یا ایک ہی ہفتے میں چلنے پھرنے لگی۔ یہ تو اٹھ کھڑی ہوئی لیکن اس کی جگہ غیرت بیگم پڑی، غیرت بیگم کا سارا غرور، سارا گھمنڈ، سارا ناز اولاد کے برتے پر تھا۔

اب جو اس نے دیکھا کہ سوکن نے اس میں ساجھا لڑایا تو حقیقت میں اس کی کمر ٹوٹ گئی اور سمجھی کہ بس اب ہریالی کے مقابلہ میں نہیں پنپتی۔ اس کو اس بات کی بڑی تسلی تھی کہ ہریالی لاکھ میاں کی پیاری کیوں نہ ہو۔ آخر ہے تو بے اولاد نہ کوئی نام کا لینے والا نہ پانی کا دینے والا۔ جتنا اس کی تقدیر میں ہے اور پہن لے، جس قدر اس کے نصیب کا ہے اور کھا ہے۔

پھر میں ہوں تو میں اور نہیں تو اللہ رکھے اور پروان چڑھائے میری اولاد۔ اس خیال سے کبھی اس نے سوکن کو سوکن مانا ہی نہیں اب البتہ اس کو سوکن کی حقیقت کھلی اور آدھی اور ساری کا سوچ پیدا ہوا۔ چنبیلی کوئی دو تین گھڑی دن چڑھتے چڑھتے آئی تھی۔ اس کے گئے پیچھے سے جو غیرت بیگم گھنٹوں میں سر دے کر بیٹھی تو دوپہر ڈھلتے ڈھل گئی۔ مگر اللہ کی بندی نے گردن اونچی نہ کی۔

دو تین بار کھانے کی اطلاع ہوئی مگر اس نے یہی کہہ دیا کہ مجھے بھوک نہیں۔ اس کے گھر میں ایک بہت پرانی نوکر تھی، خاتون وہ گھر کی داروغہ تو نہ تھی مگر کبرسنی اور قدیم الخدمتی اور ہوشیاری اور سلیقے کی وجہ سے گھر کے نوکروں میں سب سے سربر آوردہ تھی۔ غیرت بیگم کو اس سے مانوس ہونے کا ایک سبب خاص یہ بھی تھا کہ جس طرح مبتلا نے غیرت بیگم پر سوکن کی۔

اسی طرح خاتون پر بھی اس کے میاں نے سوکن کی تھی۔ غیرت بیگم کا تو ایسی باتوں میں بہت جی لگتا تھا۔ خاتون گھڑیوں اپنی سوکن کی باتیں کرتی اور غیرت بیگم کرید کرید کر پوچھتی اور ایک ایک بات کو بار بار کہلواتی۔ پس خاتون نوکر کی نوکر تھی۔ قصہ خواں کی قصہ خواں اور بیوی کی ہمدرد۔ جب خاتون نے دیکھا کہ جس گھڑی سے چنبیلی آئی بیوی کچھ ایسی سوچ میں گئی ہیں کہ پان تک نہیں کھایا۔

کھانے کا وقت بھی ٹل گیا۔ تو اس نے قریب جا کر پوچھا کہ بیوی جو تم اس قدر اداس بیٹھی ہو اس کا کیا سبب ہے، غیرت بیگم۔ تم نے نہیں سنا کہ بے غیرت کے یہاں بال بچہ ہونے والا ہے۔

خاتون: ابھی اس نے کیا اٹھا رکھا ہے۔ بال بچہ ہونے والا ہوتا تو حکیم کیا ایسے اندھے ہیں۔ جلابوں پر جلاب کیوں دیتے۔

غیرت بیگم: حکیموں کو دھوکا ہوا۔ انہوں نے جانا ٹھنڈی ٹھنڈی دوائیاں دی جا رہی ہیں تو بھلی ہو جائے گی کہ پیٹ میں بادی بھر گئی ہے۔

اب چنبیلی نے دیکھا تو بتایا۔ کیوں خاتون بی میں تو سنتی رہی تھی، کنچنیوں کے اولاد نہیں ہوتی؟ کیا میری ہی تقدیر پر ایسے پتھر پڑے تھے کہ مجھ پر کنچنی بھی آتی تو آتے دیر نہ ہو اور ماں بن جائے۔

خاتون: نہیں بی بی کون کہتا ہے کہ کنچنیوں کے اولاد نہیں ہوتی؟ ہوتی ہے اور نہیں بھی ہوتی۔ کیا تم بھول گئیں میری سوکن کون تھی اصل نسل کی کنچنی جب میرا میاں اس کو لایا تو خدا جانے نامرادیں مردوں کی آنکھوں میں کیا ٹپکی ڈال دیتی ہیں۔

وہ جانتا تھا کہ سترہ اٹھارہ برس کی لڑکی ہے۔ پیچھے معلوم ہوا کہ چار کی ماں تو وہ اس وقت تھی اور ہمارے یہاں تو بیوی پانچ برس وہ زندہ رہی۔ میری اتنی روک ٹوک پر بھی سات یا آٹھ دفعہ اس نے تیاری کی مگر واہ ری چنیا۔ دائی ہو تو ایسی ہو کبھی چوتھا نہ لگنے دیا۔

غیرت بیگم: وہ چنیا اب ہے۔