فسانہء مبتلا/46

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

غرض زبردستی گھوسن کے ہاتھ سے ہنڈیا چھین ڈیوڑھی میں لے گھسی اور سنکھیا کی پڑھیا دودھ میں گھول ہنڈیا گھوسن کو پھیر دی کہ بیوی کہتی ہیں میرے پاس حرام کا پیسہ نہیں ہے جا دور ہو اب میرے گھر دودھ نہ لانا۔ برسوں کی لگی ہوئی گھوسن اور روزگار کا راتب اس طرح ملاوٹ کرتی تو اتنی مدت کیوں کر نبھتی۔ بے چاری کھسیانی ہو کر خاتون کا منہ دیکھنے لگی اور چھوٹے گھر کی ماما کو آواز دے بھری ہنڈیا اس کے حوالے کی کہ بڑی بی نے تو آج کئی برس کے بعد جواب دیا چھوٹی بی بی بھی اگر دوسری گھوسن لگالیں تو میری ہر روز صبح سویرے کی اتنی دور کی مشقت بچے۔

ہریالی نے دیکھا تو دودھ ہر روز جیسا گاڑھا اور چکنا اس کے جی میں آگیا کہ میاں کئی بار فرینی کی فرمائش بھی کر چکے ہیں۔ لاؤ آج قلفیاں جما دیں لہٰذا سارے کا سارا دودھ لے لیا۔

جب دودھ لے چکی۔ تب اس کو خیال آیا کہ آج تو بڑے گھر کی باری ہے۔ ماما سے کہا: دیکھنا تو کیا مجھ سے بھول ہوئی بڑے گھر کی باری کا خیال نہ رہا اور فرینی کے لیے اتنا سارا دودھ لے بیٹھی۔

اب کیا کروں۔ ماما نے کہا: مضائقہ کیا ہے۔ جاڑے کے دن ہیں اس وقت کی جمی ہوئی باسی قلفیاں تو کل تک ٹھنڈی اور بھی مزے کی ہوں گی۔ غرض فرینی پکا قلفیاں بھر الماری میں رکھ اوپر سے قفل لگا دیا۔ جن لوگوں کے بال بچے نہیں ہوتے جی بہلانے کو اکثر جانور پال لیا کرتے ہیں۔ ہریالی نے بھی طوطا اور مینا اور بلی اور کبوتر اور مرغیاں بہت سے جانور پال لیا کرتے ہیں۔

اچھا ایک پیالہ بھر کر فرینی ان جانوروں کے لیے الگ نکال کر تھوڑی ماما کے لیے دیگچی میں لگی چھوڑ دی تھی۔ دو سیر دودھ اور بمشکل پاؤ بھر چاول جبکہ برابر کی کھانڈ۔ فرینی کا ہے کوتھی اچھا خاصا کھویا کہنا چاہیے۔ جس نے پائی خوب مزے سے کھائی۔ دو گھنٹے نہیں گزرنے پائے تھے کہ سب سے پہلے میاں مٹھو شکار ہوئے، پھر تو باری باری سے اوپر سویر کوئی جلدی کوئی دیر، مینا سکڑی، بلی بانولی ہوئی، کبوتر چکرائے۔

مرغیاں اونگھنے لگیں۔ ماما مارے قے اور دوستوں کے بدحواس ہو گئی۔ ڈولی میں لاد اس کے گھر پہنچوایا اس کا بیٹا تھانے میں نوکر تھا۔ سننے کے ساتھ بھاگا ہوا آیا۔ ماں کو دیکھا تو آدمی کو نہیں پہچانتی تھی۔ نیم جان کو اٹھا کر ہسپتال لے گیا۔ ڈاکٹر نے پچکاری سے پیٹ صاف کیا۔ پانی جو پیٹ میں سے نکلا تھوڑے سے میں کوئی دوا ڈال کر دیکھا تو سنکھیا تھی۔

آخر ڈاکٹر نے سوچ سوچ کر یہ کہا کہ ہم یہ نہیں بتا سکتے کہ اس نے کتنی سنکھیا کھائی اور ٹھیک کس وقت کھائی لیکن جس قدر اس کے پیٹ میں سے نکلی ہے۔ اگر اتنی بھی ہضم ہو کر خون میں مل گئی ہو گی تو قاعدے کی رو سے اس کو مرنا نہیں چاہیے غرض سنکھیا کا جو تریاق انگریزوں کے یہاں ہوتا ہو گا اوپر تلے دینا شروع کیا۔ اگلے دن صبح ہوتے ہوتے بیمار کی طبیعت کچھ سنبھلی۔

آخر لوٹ پیٹ کر کچھ اچھی تو ہوئی مگر کچھ ایسا روگ لگ گیا کہ جب تک زندہ رہی مارے دھڑکن کے بے چارہ کو ساری ساری رات بیٹھے گزر جاتی تھی۔ ادھر ہریالی کے یہاں جس جس جانور نے ذرا سی فیرنی کھائی سبھی کو تو موت آئی۔ ہریالی اپنے اس کنبے کے سوگ میں تھی کہ کوئی چار گھڑی دن رہتے رہتے تو کوتوالی کے لوگ مردانے میں آبھرے پکڑ دھکڑ ہونے لگی فیرینی کی قلفیاں اور مرے ہوئے جانوروں کی لاشیں تو کوتوالی والوں نے فوراً ہسپتال کو ڈاکٹر کے پاس چلتی کیں اور لگے اپنے دستور کے مطابق ایک ایک کو الگ الگ لے جا کر پوچھ گچھ کرنے، غرض چھ گھڑی رات کو توپ نہیں چلی تھی کہ کوتوالی والوں نے سارا مقدمہ مرتب کر لیا۔

محلے والوں نے اظہار دیئے کہ دونوں گھروں میں ہر وقت کو سم کاٹا رہا کرتی تھی۔ اب ہفتے عشرے سے امن ہے۔ گھوسن نے بیان دیا کہ میں مدت سے دونوں گھروں میں دودھ کا راتب لاتی ہوں کبھی کسی نے دودھ کو برا نہیں بتایا۔ کل خاتون نے پہلے پہل مجھ سے کہا کہ تیرے دودھ میں ملاوٹ ہوتی ہے اور ہنڈیا میرے ہاتھ سے لے ڈیوڑھی میں گھس گئی اور پھر الٹے پاؤں ہنڈیا لے کر باہر آئی کہ بیوی نہیں ہیں۔

میں نے وہی ہنڈیا جوں کی توں چھوٹے گھر میں بھیج دی۔ دونوں گھروں کی ماماؤں نے ایک زبان گواہی دی کہ گھوسن نے دودھ کبھی برا نہیں دیا۔ حکیم عطار نے تصدیق کی کہ میری دکان پر خاتون کا بھانجا بیٹھتا ہے اور جب میں دکان پر نہیں ہوتا وہی بیچتا کھوچتا ہے۔ اور میری دکان میں سنکھیا بھی رہتی ہے مگر میری سخت تاکید ہے کہ دیکھو سنکھیا، کچلا، جمال گوٹا، شخرف، ہڑتال، بچناگ، دھتورہ اس قسم کی چیزیں انجان آدمی کے ہاتھ مت بیچنا۔

ان چیزوں کی فروخت کا حساب کتاب میں کیا شہر میں کوئی عطار بھی نہیں رکھتا۔ خاتون کے بھانجے کو بلوایا۔ بہتیرا ڈھونڈا اتفاق سے اس وقت نہیں ملا بلکہ کوتوالی والوں کو شبہ ہوا کہ کہیں خبرپا کر روپوش تو نہیں ہو گیا۔

بس اس کے آنے کی کسر رہ گئی ورنہ مقدمہ اسی وقت لکھا پڑھی ہو کر چالان ہو جاتا۔ گھر کے نوکروں میں خاتون ذرا سب سے زیادہ معزز تھی اور ڈیوڑھی تک بھی بہت ہی کم آتی جاتی تھی۔

کوتوالی والوں کو ہوا تامل کہ اس کو دوسرے نوکروں کی طرح باہر بلوائیں یا آپ ڈیوڑھی کے پاس جا کر اس سے پوچھ پاچھ کر لیں کہ اتنے میں تو سید ناظر خبر پاکر آموجود ہوئے۔ اگر ناظر ذرا سی دیر اور نہ آتے تو خاتون کی کیا اصل تھی۔ کوتوالی والے تو اس کے اچھے سے قبول کروا لیتے بلکہ وہ اس فکر میں تھے کہ اپنی طرف سے کسی عورت کو اندر بھیج کر خود بیگم صاحبہ کی مزاج پرسی کریں۔

ناظر کا آنا تھا کہ مقدمے کا رنگ بدل گیا۔ کوتوالی نے مناسب سمجھا کہ رات گئی ہے زیادہ، اس وقت تحقیقات کو ملتوی کیا جائے۔ فیرینی کی قلفیاں اور مرے ہوئے جانوروں کی لاشیں یہی دو بڑے ثبوت تھے سو دونوں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔ اب ناظر نہیں ناظر کے باپ بھی قبر سے اٹھ کر آئیں تو کیا کر لیں گے۔ ماما کے پیٹ میں سے سنکھیا نکل چکی ہے اور اس میں شک نہیں کہ یہ اتنے سارے جانور سب سنکھیا سے مرے اور فیرینی میں سنکھیا موجود۔

اب رہ گئی یہ بات کہ سنکھیا دی تو کس نے دی تو دونوں سوکنوں سے انکار ہو سکتا ہے اور نہ دونوں کی عداوت سے۔ زہرخوردنی کا مقدمہ اس سے زیادہ اور کیا ہو گا۔ صاحب مجسٹریٹ کوتوالی کے چالان کیے ہوئے مجرم اکثر چھوڑ دیا کرتے ہیں اور ان کو کوتوالی کے ساتھ خدا واسطے ایک ضد سی آپڑی ہے۔ لیکن اگر اس مقدمے کو بگاڑا تو علم کی قسم صاحب سپرنٹنڈنٹ کو سمجھا کر صدر کو ایسی رپورٹ کراؤں کہ جواب دیتے بن نہ پڑے اور میاں ناظر کو بھی وکالت کا بڑا گھمنڈ ہے۔

بڑی مدت میں اونٹ پہاڑ کے تلے آیا ہے دیکھیں تو اب ہائی کورٹ کی کون سی نظیر پیش کر کے بہن کو بچاتے ہیں۔ غرض کوتوال خاتون کو ناظر کے سپرد کر حوالہ نامہ لکھوا گھوسن کے ساتھ چلتا ہوا اور سیدھا پہنچا صاحب سپرنٹنڈنٹ کے پاس اور ان کو مقدمے کی روداد سمجھا کر کہا کہ مقدمہ ہے سنگین اور مجرم عورتیں پردہ نشین۔ سید ناظر وکیل کا نام حضور نے سنا ہو گا۔