فسانہء مبتلا/16

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

دسواں باب: حاضر بہن کو حق دینے پر آمادہ اور ناظر کی رنجش

میر متقی کے چلے جانے کے بعد بھی سید حاضر دیر تک سکتے کے عالم میں تھا، اپنے یہاں کے معاملات میں سے جس معاملے پر نظر کرتا تھا کسی کو دخل فساد سے اور اتلاف حقوق العباد سے خالی نہیں پاتا تھا۔ جن باتوں پر اس کو بڑا ناز تھا۔ اب اس کی نظر میں نہایت ذلیل اور پاجی پن کی دلیل معلوم ہوتی تھیں۔

وہ گھبرایا ہوا دالان میں ٹہل رہا تھا اور اس قدر بیقرار تھا کہ جاڑے کے دن اور شام کا وقت اس کو پسینے پر پسینے چلے آتے تھے اور دیکھتا تھا کہ کھانا اور پینا اور اوڑھنا اور بچھونا اور سازوسامان اور مال و متاع اور نقد و جنس غرض کہ اپنا گوشت پوست کوئی چیز بھی لوث حرمت سے پاک نہیں پاتا تھا کہ بدکرداری اور بد معاملکی ہماری برادری اور ہمارے خاندان میں نسلوں سے چلی آتی ہے۔

اگرچہ حاضر و ناضر دونوں باپ کے مرنے سے معاملات کرنے لگے تھے مگر حاضر نے احتساب کیا تو اتنے ہی دنوں میں کئی صد مظلمے ان کے نامئہ اعمال پر چڑھ چکے تھے اور ان میں اکثر ایسے تھے جن کا تدارک محال تھا اور تلافی ناممکن۔ ہم کو حاضر کی اتنی بات سے تعلق ہے کہ جہاں اس کو اپنے وقت کے اور بہت سے معاملے یاد آئے ان میں سے ایک معاملہ غیرت بیگم کا تھا۔

اگرچہ غیرت بیگم کے معاملے میں ابتداءً تحریک ناظر کی طرف سے ہوئی اور کسی کو اس میں زیادہ اصرار بھی نہیں تھا۔ مگر پھر بھی حاضر کا اتنا قصور تو تھا ہی کہ بڑا بھائی ہو کر اس نے ناظر کو سمجھایا نہیں۔ غیرت بیگم کا خیال آنا تھا کہ فوراً گھوڑا کسا اور سوار ہو کر راتوں رات شہر میں ناظر کے مکان پر جا دستک دی۔

اگلے دن کسی مقدمے کی پیشی تھی اور ناظر آدھی رات تک گواہوں کی تعلیم اور کاغذات کی درستی میں مصروف تھا۔

ابھی اچھی طرح نیند بھری ہی نہ تھی کہ بھائی کی آواز سن کر چونک پڑا اور لگا پوچھنے خیر تو ہے آپ ایسے سویرے کیونکر آئے۔

حاضر: خیر ہے تم باطمینان وقتی ضرورتوں سے فارغ ہو تو میں اپنے آنے کی وجہ بیان کروں۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ تھوڑی دیر بعد جب دونوں بھائی ایک جا ہوئے تو حاضر نے پوچھا: چھوٹے ماموں آئے ہیں تم ان سے ملے۔

ناظر: ماموں کا آنا تو مجھے معلوم ہوا مگر میں ملا نہیں اور ملنے کا ارادہ بھی نہیں۔

حاضر: کیوں؟

ناظر: میں جانتا ہوں کہ وہ آپا کا جھگڑا ضرور نکالیں گے اور مجھ کو کسی طرح آپا کا حصہ دینا منظور نہیں بے فائدہ باتوں ہی باتوں میں تکرار ہو پڑے گا۔

حاضر: کیوں بے چاری غیرت نے ایسا قصور کیا کیا ہے، کیا وہ ہماری حقیقی بہن اور متروکہ پدری میں عند اللہ اور عند الرسول حقدار نہیں ہے۔ حاضر کے منہ سے یہ سوال سن کر ناظر کے کان کھڑے ہو گئے۔

آدمی تھا معاملہ فہم معاملہ شناس فوراً تاڑ گیا کہ بھائی ماموں سے ملے اور ماموں نے پٹی پڑھائی تو کہتا کیا ہے کہ اگر ماموں کوئی فتویٰ مکے سے لکھوا کر لائے ہوں تو اس کو اپنی قدوری میں چپکا رکھیں ان کو شاید یہ معلوم نہ ہو گا کہ یہاں شریف مکہ کا حکم نہیں چلتا انگریز بہادر کی عمل داری ہے۔ میں نے برسوں کی جستجو میں پریوی کونسل اور عدالت ہائے عالیہ ہائی کورٹ اور چیف کورٹ اور جوڈیشنل کمشنر کے فیصلوں اور میکناٹن سرہنری لاکی شرع محمدی سے وہ وہ نظائر اور احکام چھانٹ رکھے ہیں کہ اگر آپا سے جہیز واپس نہ کرا لوں تو سید نہیں چمار۔

حاضر کو بھی بھائی کی اس قدر خشونت دیکھ کر نہایت استعجاب ہوا کیونکہ اس نے آج تک حاضر کے رو در رو ایسی شوخ چشمی کے ساتھ کبھی بات نہیں کی تھی اور بولا کہ تم ماموں سے ناحق بدگمان ہوتے ہو میں ان سے ملا بے شک وہ اور تعزیت کے لیے سید نگر تشریف لے گئے۔

مگر غیرت بیگم کا نام تک ان بے چارے نے نہیں لیا اور افسوس ہے کہ تم نے ان کی شان میں خورد ہو کر اس قدر گستاخی کی اور وہ بھی غائبانہ پس تم نے ایک بزرگ کا حق تلف کیا۔

ناظر: انہوں نے آپا کا نام نہ لیا ہو گا۔ فرض کیا میں نے گستاخی کی تو قانون نے صرف ایک ہی گستاخی کو جرم قرار دیا ہے۔ یعنی حکم عدالت کے ساتھ گستاخی کرنا جبکہ وہ عدالت کا اجلاس کر رہا ہو اور ظاہر ہے کہ ماموں اس کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ ناظر کے اس جواب سے حاضر کو سید متقی کی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ حکام ظاہر کے انتظام سے پورے طور پر حقوق العباد کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔

سید متقی کے وعظ سے سید حاضر کے خیالات دفعتہً اس قدر متاثر ہو گئے تھے کہ دونوں بھائیوں میں التیام کا ہونا محال تھا۔ ناظر اپنے اسی پرانے موروثی ڈھرے چلتا تھا کہ قانونی گرفت بچا کر جہاں تک اور جس طرح ممکن ہو اپنا فائدہ کرنا چاہیے، کسی کا حق تلف ہو تو مضائقہ نہیں، کسی کا دل دُکھے تو پرواہ نہیں، عاقبت تباہ ہو تو کچھ حرج نہیں اور سید حاضر کو اب اس بلا کا اہتمام تھا کہ ایک غیبت کو بھی وہ اتلافِ حق سمجھا، عرض یہ جو سنا کرتے تھے:

یاہم خدا خواہی ہم دنیائے دوں

ایں خیال ست و محال ست و جنوں

اب وہ معمہ حل ہوا کہ حقیقت میں وہ یہ دنیا ہے کہ جیسی ناظر کی تھی جس میں حلال و حرام کا امتیاز نہیں جائز و ناجائز کا فرق نہیں خدا اور رسول کا خوف نہیں، روز قیامت کا اندیشہ نہیں، ناظر کی اتنی ہی باتوں سے حاضر کو پورا یقین ہو گیا کہ اس کو سمجھانا اس کے ساتھ بحث کرنا محض بے سود اور لاحاصل ہے۔

اس پر قانون کی پھٹکار ہے اور اس کے سر پر چڑھا ہوا جن سوار ہے۔ اس لیے زیادہ رد و کد مناسب نہ سمجھ کر اس نے دو ٹوک بات ناظر کو سنا دی کہ تم اس کو ماموں کا اغوا سمجھو یا میری حماقت میں تو غیرت بیگم کا حق اب ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکھ سکتا۔

ناظر: دیکھیے ایسا کیجئے گا تو مجھ سے آپ سے بگاڑ ہو جائے گا۔

حاضر: اگر اتنی ہی بات پر کہ میں ایک حقدار کا حق مارنا نہیں چاہتا تم مجھ سے بگڑو تو تمہاری خوشی اگرچہ تمہارے بگڑنے کا مجھ کو سخت افسوس ہو گا مگر اس سے ہزار درجے زیادہ افسوس ہو گا اگر غیرت بیگم کا حق غصباً میرے پاس رہے۔

ناظر: یہ آپا کی خصوصیت کیا ہے۔

حاضر: خصوصیت پوچھو تو ہماری حقیقی بہن ہے۔ مگر ایصال حق کے لیے اس کی مطلق خصوصیت نہیں ہے انشاء اللہ تعالیٰ سب حق داروں کے ساتھ میں ایسا ہی معاملہ کروں گا۔

ناظر: تو آپ سیدھی بات یہی کیوں نہیں کہتے کہ آپ ترک دنیا پر آمادہ ہیں۔

حاضر: اگر مغصوبات کا واپس کر دینا تمہارے نزدیک ترک دینا ہے تو مجھے اس سے انکار نہیں۔

ناظر: بیٹھے بٹھائے یہ آپ کو ہوا کیا ہے پہلے تو میں ماموں کومولوی حاجی اور جیسا ان کا نام ہے متقی سمجھتا تھا۔ اب معلوم ہوا کہ تسخیر یا سحر کے بھی عامل ہیں۔

حاضر: ماموں کی شان میں تمہاری طرف سے یہ دوسری گستاخی اور دوسری غیبت اور دوسرا اتلافِ حق ہے۔

ناظر: میں آپ کو آگاہ کیے دیتا ہوں کہ یہ گھر کی تباہی کے سامان ہیں۔

حاضر: جس گھر کی آبادی دوسروں کے حقوق کے غصب کرنے پر موقوف ہو اس کا تباہ ہونا بہتر ہے۔

ناظر: تم نے انجام کار پر بھی نظر کر لی ہے۔

حاضر: انجام کار پر نظر کرنا ہی مجھ کو تو اس ارادے کا باعث ہوا ہے۔

ناظر: تو آپ مجھ کو بھی اپنے ساتھ برباد کرتے ہیں۔ کیسی کیسی تدبیروں سے میں نے ملکیت کو درست کیا۔ اب ایک ڈھنگ پر آچلی تھی تو آپ ساری عمارت کو جڑ بنیاد سے ڈھائے دیتے ہیں۔