فسانہء مبتلا/17

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

حاضر: کیا تم نے مجھ کو مجنوں قرار دیا ہے یا مخبوط الحواس سمجھا ہے۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا ہے جو دیدہ دانستہ اپنے پاؤں میں آپ کلہاڑی مارے یا سمجھ بوجھ کر اپنے رہنے کے مکان میں آپ آگ لگائے فرق صرف اتنا ہی ہے کہ اس بات کا میں نے قطعی فیصلہ کر لیا ہے کہ دنیا کو دین پر ترجیح نہ دوں اور جس دنیاوی فائدے میں دین کا ضرر ہے اس کا طمع نہ کروں۔ اگر ایسا کرنے سے میری دنیا برباد ہوتی ہو اور اگر مجھ پر دنیاوی تباہی آتی ہو تو آئے۔

جب میں نے دین کے خلاف دنیاوی فائدے کا لالچ نہ کیا تو دنیاوی نقصان کی میں کیا پرواہ کر سکتا ہوں۔ ناظر میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں تمہارے فائدے بہت ہی عزیز رکھتا ہوں مگر وہیں تک کہ وہ فائدے جائز طور پر حاصل کیے جائیں غضب اور ظلم اور دغا اور فساد اور اتلاف حقوق العباد کو نہ میں اپنے لیے جائز رکھتا ہوں اور نہ تمہارے لئے۔

ناظر: یہی تو میں کہتا ہوں کہ آپ پر ماموں نے جادو کیا۔

حاضر: اگر تمہارے نزدیک یہ جادو ہے تو یہی جادو تمام پیغمبر صلوٰة اللہ وسلامہ علیہم اجمعین تمام اولیاء تمام انبیاء تمام اتقیا کرتے آئے ہیں مگر جادو ایک مکروہ لفظ ہے۔ اس کا استعمال بزرگان دین کے حق میں میرے نزدیک تو درست نہیں۔

ناظر: اچھا تو ایک کام کیجئے آپ اپنے حصے کا بٹوارہ کرا لیجئے اور علیحدہ ہو جائیے۔

حاضر: میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا تھا مگر اس صورت میں مشکل یہ ہے کہ جب تک ملکیت تمام مظالم سے پاک نہ ہو میں اس میں سے حصہ لے نہیں سکتا۔

ناظر: آپ نے ساری ملکیت کا ٹھیکہ نہیں لیا۔ اپنے مذہب کی رو سے حصہ پدری میں سے جتنا حصہ آپ اپنا سمجھتے ہوں الگ کر لیجئے۔

حاضر: والد مرحوم کی جگہ میرا اور تمہارا اور غیرت بیگم تینوں کا نام لکھا جانا چاہیے۔ ہم دونوں نے ناحق اور ناروا بہن کو محروم کر کے اپنے ہی نام حصے پڑھوائے تو نصف نصف ہم دونوں کا ہوا پس سرکاری کاغذات میں میرا نصف حصہ لکھا ہے۔

اس میں بھی تو غیرت بیگم کا ایک عشر شامل ہے جس کو میں اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتا۔

ناظر: آپ بٹوارے کی درخواست میں لکھ دیجیے کہ اگرچہ میرے نام نصف حصہ لکھا ہے مگر حقیقت میں میرا دو خمس ہوتا ہے۔ اسی قدر کا میں بٹوارہ چاہتا ہوں۔ حاکم آپ کی درخواست تصدیق کر کے آپ کے دو خمس کا بٹوارہ کر دے گا۔

حاضر: تو غیرت بیگم کا یہ ایک عشر بھی تمہاری طرف منتقل ہو جائے گا۔

حاضر: تو اس کے یہ معنی ہیں کہ میں غیرت بیگم کا ایک عشر جو میرے نام ہے تمہارے نام منتقل کر دوں۔

ناظر: خیر معنے مطلب تو میں سمجھتا نہیں۔ ایک راہ کی بات تھی جو میں نے آپ کو بتائی اگر آپ کو مجھ سے سے پرخاش نہیں ہے تو جس طرح میں نے بیان کیا درخواست لکھیے اور پیش حاکم اس کو چل کر تصدیق کرائیے باقی مراتب میں دیکھ بھال لوں گا آپ کو وہی دوخمس ملے گا جو آپ چاہتے ہیں۔

حاضر: غیرت بیگم کا ایک عشر میں تمہارے نام تو منتقل نہیں کرا سکتا وہ بھی تو ناجائز ہے حقدار کو تو اس کا حق نہ ملا ہاں اگر کہو تو درخواست میں یہ بات بیشک لکھ دوں کہ میرے نام جو نصف حصہ لکھا ہے اس میں دو خمس میرا ہے اور ایک عشر غیرت بیگم کا۔

ناظر: اس سے تو میری تصفی میں فتور پڑے گا۔

حاضر: پڑے گا تو تم جانو میرے اختیار کی بات نہیں۔

ناظر: آپ کے اس اصرار سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف تقاضائے دین داری نہیں ہے بلکہ ماموں کے سب فساد ہیں۔

حاضر: تم بار بار ہر پھرکر ماموں کو ان کی پیٹھ پیچھے بُرا کہتے جاتے ہو مجھ کو اس بات سے سخت تکلیف ہوتی ہے۔ میں نے تم سے کہا کہ ماموں نے غیرت بیگم کا نام تک نہیں لیا اور تم نے میرے کہنے کو سچ نہ جانا، فرض کرو ماموں ہی نے مجھ کو غیرت بیگم کا حق مغضوب واپس کر دینے پر آمادہ کیا تو احقاق حق میں کوشش کرنا فساد ہے۔

ناظر یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا کہ بہت خوب معلوم ہوا، آپ آپا کو ان کا حصہ دیجئے اگر آپ سے دیا جائے اور وہ لیں اگر ان سے لیا جائے اور ماموں جس غرض سے بھانجی کی خوشامد میں لگے ہیں مجھ کو معلوم ہے۔ مبتلا بھائی کو انہوں نے دیکھ پایا بھولا۔ بیوقوف چاہتے ہیں کہ بھانجی کے نام سے بڑے ماموں کی تمام املاک پر خود قابض ہو جائیں لیکن (مونچھوں پر تاؤ دے کر) اگر ناظر کے دم میں دم ہے تو ماموں کو ایسا مزا چکھاؤں کہ سات برس بعد تو حج سے پھر کر آنا نصیب ہوا اب ان کو ہجرت ہی کرنی پڑے تو سہی۔

آپ کا حصہ لینا ایسا کیا ہنسی کھیل ہے۔

حاضر: بے چارہ اپنا سا منہ لے کر سید نگر واپس آگیا غمگین اداس۔ خدا کی شان ہے کہ کل شاموں شام سید متقی کے وعظ سے حاضر متنبہ ہوا توبہ کی تلافی مافات پر آمادہ ہوا راتوں رات بھاگا ہوا بھائی کے پاس آیا۔ ابھی جی کھول کر بھائی سے باتیں نہیں کرنے پایا تھا کہ سخت امتحان میں پکڑا گیا وہ خوب واقف تھا کہ ناظر ایک سانپ ہے۔

اس بلا کا زہریلا کہ اس کا کاٹا پانی نہ مانگے۔ اس کا ڈسا ہوا پھٹکار نہ کھائے، وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ناظر اگر بگڑا اور اب اس کے بگڑنے میں کسر ہی کیا باقی تھی تو کیسی زمینداری اور کس کی حصہ داری گاؤں کا رہنا دشوار کر دے گا اور اس کے ہاتھوں سے زندگی وبال دوش ہو جائے گی۔

یہ خیال کر کے وہ جی ہی جی میں اپنے آپ کو سمجھاتا تھا کہ تجھ کو بھائی کے ساتھ بگاڑنا کیا ضروری ہے۔

اگر وہ غیرت بیگم کا حصہ نہیں دیتا نہ دے، وہ جانے اور اس کا کام جانے اپنا اپنا کرنا اپنا اپنا بھرنا۔ غیرت بیگم کا حصہ لینا ہو گا تو آپ سے آپ نالش کریں گے۔ میری طرف سے اتنا ہی کافی ہے کہ ابھی سے غیرت بیگم کے حصے سے دست بردار ہو جاؤں اور اگر نالش ہو تو دعوے کی تردید نہ کروں۔ پھر سوچتا تھا کہ اب تک جو غیرت بیگم حصے سے بے دخل رہیں۔ اس کا وبال جیسا ناظر پر ویسا مجھ پر، مجھ پر زیادہ اور ناظر پر کم کیونکہ میں پٹی کا نمبردار ہوں اور پٹی کی تحصیل کی وصولی میرے ہاتھوں سے ہوتی ہے۔

علاوہ اس کے کہ کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ ہم دونوں بھائی تو بے زحمت اپنے حقوق پر قابض ہوں اور غیرت بیگم کو نالش کرنے پر مجبور کریں صرف اس وجہ سے کہ وہ عورت ہے پردہ نشین اور کوئی اس کے حق کی حفاظت کرنے والا نہیں، دنیا میں آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی تو خدا کو کیا جواب دیں گے اور مانا کہ میں غیرت بیگم کے حصے سے دستبردار ہو بیٹھا تو وہی بات پھر آئی کہ میں نے نہ لیا ناظر کو لینے دیا۔

غیرت بیگم کو تو اس کا حق نہ پہنچا۔ علاوہ ازیں آج تک تو ایک غیرت بیگم کا معاملہ ہے اس میں یہ حجت ہے ابھی تو ایسے ایسے صد ہا معاملے نکلیں گے، غرباء کے ضعفاء کے اور ایسے لوگوں کے جن کو سوا خدا کہیں پناہ نہیں اور ناظر کا منشاء تو معلوم ہو چکا کہ وہ تو سوائے قانون کے خدا اور رسول کسی سے ڈرنے دبنے والا نہیں تو بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ بھائی سے تو ایک نہ ایک دن جھگڑے ہوں گے ہی اور آج اگر غیرت بیگم کے معاملے میں میں نے ذرا بھی اپنا ضعف ظاہر کیا پھر تو ناظر کی جیت ہے۔ غرض یہ تزلزل تو ٹھیک نہیں بلکہ وسوسہ شیطانی ہے۔