فسانہء مبتلا/15
ہنگاموں اور خانہ جنگیوں میں اکثر سزا کا پلہ دونوں طرف برابر رہتا ہے۔ مگر سیدوں نے بڑا غضب یہ کیا کہ ادھر تو سوانے پر لڑائی ہو رہی تھی اور ڈھائی تین سو آدمی سید نگر سے نکل کنی کاٹ گوجر پور میں جا گھسے اور وہاں گوجروں کے مندروں کو توڑا پھوڑا عورتوں کو بے عزت کیا۔ یوں سیدوں کی طرف سے زیادتی بہت ہوئی اور سزا بھی بہتوں نے پائی۔ میر بابا نے تو جس وقت سرکاری فوج کا آنا سنا اسی وقت زہر کھا کر مر رہے۔
میر مقتدر کسی تدبیر سے بھاگ نکلے۔ گھر بار ضبط ہو اسباب نیلام ہوا۔ بیٹوں میں تین یا چار نابالغ تھے وہ تو بچے دونے پھانسی پائی اور دو کالے پانی بھیجے گئے۔ میر مقتدر کے لیے پانچ سو روپے کا اشتہار ہوا مگر پکڑے نہ گئے۔ رفیق ان کا ایک خانہ پروردہ ان کے ساتھ بھاگا۔ دس بارہ برس بعد اکیلا واپس آیا بڑا نمازی بڑا پرہیزگار وہ بیان کرتا تھا۔
ان کی مصیبتیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوئے تھے کہتا تھا کہ آخر کار کسی مقام پر بغداد کے علاقے میں میر مقتدر مرض موت میں مبتلا ہوئے۔ مگر ایسی سختی کی موت ہم نے تو دیکھی کیا سنی بھی نہیں پورے پندرہ دن بول و براز بند تھا نہ مسہل اثر کرتا تھا نہ حقنا نہ پچکاری۔ دن اور رات مچھلی کی طرح تڑپتے تھے اور کسی وقت تالو سے زبان نہیں لگتی تھی۔ بول و براز کے بند ہونے سے مادے میں زہرناکی پیدا ہوئی اور سمیت ظاہر جلد تک پھوٹ پڑی۔
باوجود یہ کہ نہایت گورے چٹے آدمی تھے اور ان مصیبتوں میں بھی ایرانی معلوم ہوتے تھے۔ زہرناکی کی وجہ سے سارا جسم ایسا ہو گیا تھا جیسے سیہ تاب اور سوزش اس بلا کی کیچڑ میں لوٹے لوٹے پھرتے تھے، مگر ایک لمحہ قرار نہ تھا۔ مرنے سے سات دن پہلے نہیں معلوم کیا بات تھی۔ بے ہوشی میں وطن کے لوگوں کے نام لے لے کر کہتے تھے فلانا مجھ کو مارے ڈالتا ہے۔
فلانا گرم سیخیں میرے پیٹ میں بھونکتا ہے۔ فلانا مجھ کو تنور میں دھکا دیتا ہے۔ فلانا میری کھال کھینچتا ہے۔ رفیق کا مقولہ یہ تھا کہ جن لوگوں کے وہ نام لیتے تھے وہ تھے جن پر انہوں نے ظلم کیے تھے۔ رفیق یہ دیکھ کر اس قدر مرعوب ہوا کہ گویا اسی دن سے اس نے ترک دنیا کیا۔ غرض وہ کمبخت سوانے کا مقدمہ کیا ہوا تھا کہ سید نگر کے حصے کی قیامت آگئی۔
آبرو اور جان اور مال کا جو نقصان ہوا تھا سو ہوا تھا۔ ایک بڑا نقصان یہ ہوا تھا کہ سادات سے خیر بالکل اٹھ گئی۔ اب اس نواح میں سید کے معنے ہیں مفسد۔ لڑاکا جھگڑا لو، مردم آزار، جھوٹا جعلساز، مفتری، فتنہ پرداز اور واقع میں لوگوں کے افعال اور معاملات پر نظر کرتے ہیں تو جس قدر بدنامی ہو رہی ہے۔ اس سے زیادہ کے مستحق ہیں۔ گوجروں کے ساتھ لڑنے کا مزہ چکھ چکے تھے۔
چاہیے تھا کہ لڑائی کے پاس نہ پھٹکتے مگر الٹا اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ بھائی سے بھائی لڑنے لگا۔ باپ بیٹے سے بیٹا ماں سے، میاں بیوی سے، پڑوسی پڑوسی سے حصہ دار حصہ دار سے زمیندار کاشتکار سے گویا لڑائی ان کے خمیر میں داخل ہے۔ یا بے لڑے ان کو نیند نہیں آتی یا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ شرافت و نجابت کے دعوے اتنے لمبے چوڑے کہ کسی کو اپنا کفو نہیں سمجھتے مگر معاملات ایسے کہ پاجی سے پاجی کو شرم آئے اور کمینے سے کمینے کو عار۔
سید نگر کی کھیوٹ نکال کر دیکھو کتنی عورتوں کے نام ہیں کسی کی جورو کسی کی بیٹی، کسی کی بہن، دیوانی و فوجداری میں مہر اور نان و نفقہ اور طلاق کے جتنے مقدمے ایک سید نگر کے ہوں گے شاید لفٹنٹی کے نہ ہوں۔ مگر ان تمام فسادات کے نتیجے کیا ہیں۔ تم لوگوں کے گھروں میں اسٹامپ کے بڑے بڑے پشتارے بہت نکلیں گے۔ بیبیوں کے جسم پر چاندی کا تار نہیں، باوجود یہ کہ دیہاتی پہناوا ہے۔
گٹھڑی میں سلیقے کا کوئی کپڑا نہیں جوار باجرا سانواں کودوں جو کچھ سیر میں پیدا ہوا اسی پر تمہاری گزران ہے۔ تمہارا علاقہ شہد کی مکھیوں کا چھتا ہے۔ جتنے پیدا ہوتے گئے۔ اسی میں بھرتے گئے۔ میں اگر تمہارے علاقہ کا مہتمم بندوبست ہوتا بیگھ بسوانسی کچوانسی سب موقوف کر کے کسورِ اعشاریہ میں تمہارا کھیوٹ بناتا۔ یہ حال تمہاری حصہ داریوں کا ہو گیا ہے۔
اس پر طرہ یہ ہے کہ جس حصے کو دیکھیے کثرت انتقالات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک کباب ہے اور اس میں ہزار ہا چیونٹیاں۔ سید زادوں کو دیکھا تو اس سرے تک ایک ہوشیار نہیں کسی میں آئندہ کی فلاح کے آثار نہیں۔ یہ وبال یہ نکبت یہ ذلت یہ افلاس سب تمہارے ہی اعمال کی سزا ہے اور اگر یہ پوری سزا ہوتی تو تم سستے چھوٹے گئے تھے۔ یقین جانو سزا نہیں ہے بلکہ تمہید سزا جب سزا کا وقت آئے گا۔
تو یہ تمہارا قانون اور قاعدہ کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔
حقوق کے متعلق ایک بات اور ہے، جس کو میں چاہتا ہوں کہ تم اس کی طرف زیادہ توجہ کرو وہ یہ ہے کہ انسان کے ذمے دو طرح کے حقوق ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ لوگ حقوق العباد کی نسبت بڑی غلطی میں پڑے ہیں اور ان کو آسان سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔ اگر کسی آدمی سے اللہ کے حقوق ضائع ہوں اور سبھی سے ہوتے ہیں۔
تو بندے کا خدا سے کیا مقابلہ، حقوق الٰہی کا ضیاع اکثر سہو اور غفلت اور نادانی اور کوتاہ اندیشی کی وجہ سے ہوتا ہے اور امید ہے کہ خداوند غفور و رحیم بندوں کی ضعفت پر نظر فرما کر ان کے قصور معاف کرے اور کرے گا، مگر حقوق العباد کا یہ حال نہیں ہے۔ اس میں ایک بندہ زور سے ظلم سے ہیکڑی سے زبردستی سے دوسرے بندے کو ستاتا، اس کا دل دکھاتا، اس کو ایذا پہنچاتا ہے اور اس قصور کا معاف کرنا نہ کرنا، اسی بندئہ مظلوم کے اختیار میں ہے۔
مگر انصاف کرو۔ دنیا میں کتنے لوگ اس کی پروا کرتے ہیں۔ لاکھوں مظلمے ہیں جن کو بندگان خدا مرتے وقت اپنے سروں پر لاد کر لے جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ دین کو کھیل اور مذہب کو ہنسی سمجھ رکھا ہے۔ منہ سے کہتے ہیں کہ مرنا برحق، نکیرین کے ساتھ سوال و جواب کا ہونا برحق، عذاب قبر برحق، قیامت برحق، مرے بعد پھر زندہ ہونا برحق، رتی رتی کا حساب دینا برحق، جنت برحق، دوزخ برحق اور کردار تھوکنے کے قابل۔
سید حاضر مجھ میں تم میں قرابت کا ایک تعلق ہے اور جیسا میں نے تم سے کہا کہ حقوق و فرائض تعلق سے پیدا ہوتے ہیں۔
حقوق اور فرائض میں اس کو اپنا فرض تعلق سمجھتا تھا کہ تمہارے فرائض کو تم پر بالا جمال ظاہر کر دوں سو میں نے اپنا فرض ادا کیا یہ کہہ کر متقی بھانجے سے رخصت ہوا اور چلتے چلتے کہہ گیا کہ افسوس ہے سید ناظر سے ملاقات نہ ہوئی انشاء اللہ پھر کسی دن آؤں گا میر متقی نے اچھے خاصے پہر سوا پہر سید حاضر کے ساتھ باتیں کیں، اس تمام وقت میں سید حاضر کا یہ حال تھا کہ ماموں کے منہ پر اس کی ٹکٹکی بندھی ہوئی تھی اور ہمہ تن گوش ہو کر ان کی باتوں میں مستغرق تھا جو لفظ ماموں کے منہ سے نکلتا اس کے دل میں بیٹھتا چلا جاتا۔
حاضر کے کان مطلقاً ایسی باتوں سے آشنا نہ تھے اس پر میرمتقی کا بیان کہ گویا ایک دریا ہے کہ موجیں مار رہے یا ریل ہے کہ فی گھنٹہ سو میل کی رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ یا بھری برسات میں ساون بھادوں کا بادل ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے اور پھر باتیں کھری سچی ستھری جن میں ذرا اونچ نیچ نہیں دنیا کے فائدوں کی ضامن دین کی درستی کی کفیل بھلائی کی اصلاح بہتری کا مشورہ سید حاضر بت کی طرح چپ بیٹھا سنتا رہا اگرچہ گاؤں کا کام کاج کرتا تھا مگر کونسا گاؤں سید نگر، جہاں کے پرچونٹے ساہوکاروں کے شکمی کاشتکار تعلقہ داروں کے، جاہل محض لیاقت شعاروں کے اہل مقدمہ وکیل مختاروں کے کان کترتے تھے مگر متقی نے اتنا کچھ کہا اور سید حاضر سے چوں کرتے نہ بن پڑی۔