فسانہء مبتلا/14

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
فسانہء مبتلا  (1885) 
by ڈپٹی نذیر احمد

حاضر: اس کا نام غریبا۔

متقی: ذر ااس کو بلا۔ حاضر نے بلایا تو اس نے ہل تو کندھے پر سے اتار کر وہیں رکھ دیا اور اسی ہل سے بیلوں کو اٹکا سامنے آکھڑا ہوا۔

متقی: کیوں میاں تمہارا کیا نام ہے۔

غریبا: میاں مجھ کو گریبا کہتے ہیں۔

متقی: کون ذات ہو۔

غریبا: ”گوجرنا“ متقی تم کتنی کھیتی کرتے ہو؟

غریبا: میری کھیتی الگ نہیں (سید حاضر کی طرف اشارہ کر کے) ہاجر (حاضرہ) میاں کاہلواہا ہوں اور کھار میں ایک دو بیگھے کا کھیت بھوما لوینے کا ہے۔

اس میں ادھواڑ کا بانٹیہ دار ہوں۔

متقی: بال بچے کتنے ہیں؟

غریبا: (مسکرا کر) بھگوان کی بڑی کرپا ہے۔ آٹھ۔

متقی: کسی کا بیاہ برات بھی کیا ہے۔

غریبا: ہاجر (حاضر) میاں کی یاد سے رکھی سوکھی۔ لسی کسی دو وخت نہیں تو ایک وخت مل ہی جاتی ہے۔ چھوٹے بڑے انہی کی بٹل میں لگے رہتے ہیں۔

یہی سب کو پالتے ہیں۔ بھتیر سے بڑی سہاتیا رہتی ہے۔

متقی: اشارے سے غریبا کو پاس بلا کر (آہستہ سے) کیوں بے آج کل تو کھلیان تیار ہیں۔ رات بے رات موقع پا کر کھلیان پیچھے دو دو پولی بھی اٹھا لائے تو کسی کو کیا معلوم اور مزے میں تیرا کام ہو جائے۔

غریبا: (دور ہٹ کر) نا میاں بھگوان بُرا کام نہ کرائے۔

متقی: کیوں کیا جاگا چوکیدار سے ڈرتا یہ۔

اس کو ہم سمجھا دیں گے۔

غریبا: جاگا (گالی) کہاں کا سورما ہے۔ ایک ڈپٹ بتاؤں تو (گالی) دھوتی میں… پر نہیں بُرا کام برا ہی ہے۔

متقی: ابے مسخرے کسی کو کانوں کان تو خبر ہونے کی نہیں، یہ اچھا ہے کہ تن پر چیتھڑا نہیں، پیٹ کو کو ٹکڑا نہیں۔

غریبا: انسان نہ دیکھے مگر بھگوان سے تو کچھ چھپا نہیں۔ اس کے بعد متقی نے استمالت کی دو چار باتیں کر کے غریبا کو تو رخصت کیا اور سید حاضر سے کہا۔

کیوں صاحب آپ نے دیکھا یہی انتظام الٰہی ہے کہ یہ بے چارہ نہ تو پڑھا اور نہ لکھا اور نہ شاید ساری عمر کسی پنڈت برہمن کی صحبت میں بیٹھا۔ ضرورت اس درجے کی کہ اگر سچ سچ پوچھئے تو ”بھوک سے بے قرار کو مردار بھی حلال ہے“ کا مصداق ہے اندیشہ پاسباں سے مطمئن اور اس پر چوری کو سمجھتا ہے کہ بُرا کام ہے۔ اصل میں بُرا سمجھنا اس کو چوری کے ارتکاب کا مانع ہے۔

اور یہ سمجھ یعنی بُرے بھلے کا امتیاز جو خدا نے مرد عورت لڑکے جوان، بوڑھے خواندہ ناخواندہ ذہین غبی شہری دیہاتی سب بنی آدم کو اعلیٰ قدر مراتب دیا ہے۔ ایک پاسبان الٰہی ہے جو ہر ایک پر مسلط ہے اس کو کراماً کاتبین کہو یا انسان کا دل سمجھو جو برائی پر مائل کرتا ہے یا جن الفاظ سے چاہو تعبیر کرو۔ میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ جرموں کا انسداد لاکھ حصے سلطنت الٰہی کی تاثیر سے ہے تو شاید ایک حصے حکومت ظاہر کی تدابیر سے۔

حکومت ظاہری میں ایک بڑا نقص یہ ہے کہ حاکم کیسا ہی منصف کیوں نہ ہو چونکہ اس کو معاملے کی اصل حقیقت سے تو آگہی ہوتی نہیں۔ ناچار اسے روداد کی پابندی کرنی پڑتی ہے اور روداد کی کیفیت تو کوئی ہمارے سید نگری بھائیوں سے پوچھے کہ کہو تو مکھی کو بھینسا بنا دیں اور فرماؤ تو بھینسے کو مچھر بنا کر اڑا دیں۔ پس حاکم ظاہری کبھی پورا پورا انصاف کر ہی نہیں سکتا۔

اس کا فیصلہ اندھے کی لاٹھی ہے۔ لگی لگی نہ لگی نہ لگی برخلاف سلطنت الٰہی کہ اس کا نشانہ ممکن نہیں کہ خطا کرے۔ اس کا مجرم ہو نہیں سکتا کہ سزا سے بچ جائے کسی کی مجال ہے کہ اس کی ڈگری کو روکے کس کی طاقت ہے کہ اس کے حکم کو ٹالے اگرچہ خدائی فیصلوں کے لیے ایک دن مقرر ہے۔ یعنی روزِ قیامت کہ اس دن اللہ جل و علاشانہ، عدل و انصاف کے تخت پر اجلاس فرمائے گا۔

اور نیک اور بد اور سخی اور شوم اور ظالم اور مظلوم سب کا حساب کر دے گا۔ مگر کبھی مصلحت الٰہی اس کی بھی مقتفی ہوتی ہے کہ اس دنیا میں بدلہ مل جاتا ہے۔ یہی سید نگر ہے کہ اب سے بہت زیادہ دُور بھی نہیں۔

شاید بیس برس پہلے دس بارہ ہاتھی سادات کے دروازوں پر کھڑے جھومتے تھے۔ اور اس کی سخاوت اور دادو دہش اور مہمان نوازی اور مسافر پروری کی کیا شہرت تھی کہ کربلا اور بغداد اور حرمین اور نجف اور کاظمین تک سے لوگ ہر سال نام سن کر آتے تھے۔

میں ان دنوں اچھا خاصا ہوشیار تھا مجھ کو اب تک یاد ہے کہ اس بڑی مسجد میں دو ڈھائی سو طالب علم رہتے تھے اور یہیں کے سادات ان کے کھانے کپڑے کتاب سب چیزوں کی خبر گیری کرتے تھے طالب علموں کو پڑھانے کے لیے بیش قرار تنخواہوں کے پانچ یا چھ جید حافظ اور مولوی نوکر تھے۔ سارے مہینے رمضان کے اور دس دن محرم کے غربا اور مساکین کے لیے اس قدر کھانے پکتے تھے کہ اس کا ٹھیک اندازہ کرنا مشکل ہے۔

بارہ کوس کے گردے کی تمام خلقت ٹوٹتی تھی اور کیا نیتوں کی برکت تھی کہ ہزار دو ہزار پانچ ہزار جتنے آدمی ہوتے ہر شخص کو دو خمیری روٹیاں ایک پیالہ قلپے کا اور ایک خوانچہ کھیر کا وقت پر پہنچ جاتا میر بابا صاحب کا گھر ان دنوں سب میں بڑھا چڑھا تھا۔ ان کا حال سنا ہے کہ دونوں وقت گئے ہوئے پورے سو آدمی دستر خوان پر میر صاحب کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔

اور کیسی خدا کی مہربانی تھی کہ گلی میں دیکھو تو کوڑیوں لڑکے۔ سید نگر میں کبھی کسی سیدانی کو بانجھ اور چھے سے کم کسی کے بچے سننے میں نہیں آئے۔ غلہ ہمیشہ ارزاں، عام بیماری یا وباء کبھی سید نگر کے سوانے میں داخل نہیں ہوئی۔ پھر یکا یک گوجروں سے سوانے کی تکرار ہوئی لٹھ چلا طرفین سے آدمی مارے گئے۔ بس اس دن سے سید نگر پر تباہی آئی۔

یوں تو سادات اور گوجروں میں سدا سے ہی چھیڑ چھاڑ ہوتی ہی چلی آتی تھی۔ مگر اس مقدمے میں سادات سراسر برسر ناحق تھے۔ ہمیشہ سے سید نگر کا سوانا اس تیس ہزار باغ کی مشرقی کھائی تھی۔ یہ باغ عین سوانے پر اسی غرض سے لگایا گیا تھا کہ گوجر حد سے متجاوز نہ ہوں۔ تکرار اتنی ذرا سی بات پر ہوئی کہ میر بابا کے بڑے بیٹے میر مقتدر کے سائیسوں نے گوجروں کی رکھانت گھانس باغ کے پورب کاٹنی شروع کی۔

گوجروں نے مزاحمت کی۔ یہاں تک کہ داتا سنگ نے جو گوجروں کا سر گروہ اور میر بابا کا مد مقابل تھا۔ اپنا خاص کارندہ میر بابا کے پاس بھیجا۔ وہ کارندہ میر صاحب تک پہنچنے نہیں پایا کہ بیچ میں میر مقتدر نے اس کو بہت کچھ سخت و سست کہا اور حق و ناحق ہزار ہا گالیاں داتا سنگ کو دیں۔ میر مقتدر بڑے غصیلے اور بڑے ظالم اور بڑے سخت گیر اور بڑے جابر مشہور تھے۔

کہتے ہیں کہ دو تین خون ان کے ہاتھ سے ہوئے، مگر دب دبا گئے انہوں نے ظلماً کئی بھلے آدمیوں کی ناموس بگاڑی اور عزت ریزی کی۔ میر بابا کے خاندان میں جو سید لوگ ناتا نہیں کرتے اصل میں اس کا سبب یہی ہے کہ میر مقتدر نے بلا امتیاز بہت سی عورتوں کو جبراً گھر میں ڈال لیا تھا۔ کوئی ہندنی تھی، کوئی چماری، کوئی گوجرنی غرض میر مقتدر کے بعد سے ان کے خاندان کے نسبت کا اعتبار اٹھ گیا۔

بیٹے کے زور و ظلم نے میر بابا کی تمام نیکیوں کو بے قدر کر رکھا تھا، نہیں معلوم دیدہ و دانستہ بیٹے کی حرکات ناشائستہ سے چشم پوشی کرتے تھے یا واقع مقتدر پر ان کا کچھ اقتدار نہ تھا۔ میر مقتدر کا تمام علاقے میں ایسا زلزلہ تھا کہ کوئی بھلا آدمی سید نگر کی تھانہ داری پر آنے کے لیے رضا مند نہیں ہوتا تھا۔ مجبور کیا جاتا تو نوکری سے استعفیٰ دیتا مگر ادھر کا رخ نہ کرتا۔

میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ سید نگر کو مقدر کے ظلموں نے تباہ کیا اور نزاع سوانے کا ایک بہانہ تھا۔ جب مقتدر نے داتا سنگ کے کارندے کو بُرا بھلا کہا اور اس کے مالک کو مغلظات سنائیں وہ بیچارہ اپنا سا منہ لے کر لوٹ گیا اور داتا سنگ کے آگے جا کر اپنی پگڑی زمین پر دے ماری اور کہا کہ تم نے مجھ کو بے عزت کرایا اور خود بھی بے عزت ہوئے۔

آج میر بابا کے بیٹے نے بھری کچہری میں مجھ کو اور تم کو دونوں کو فضیحت کیا اور ایسی ایسی گالیاں دیں کہ کوئی چمار کو بھی نہیں دیتا۔

داتا سنگ بڑی غیرت اور طنطنے کا آدمی تھا اور کسی بات سے میر بابا سے کم نہ تھا۔ سن کر لال ہو گیا اور کہا کہ اس مسلمان کے چھوکرے کا اتنا مقدور، خیر اب لڑائی ہے تو لڑائی ہی سہی۔ داتا سنگ کے منہ سے اتنی بات کا نکلنا تھا کہ ڈیڑھ دو ہزار گوجر بھاری بھاری لٹھ کنڈھوں پر دھر رکھانت پر جا موجود ہوئے۔ میر صاحب کے گھسیارے ان کو دُور سے دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔

سید نگر میں خبر ہوئی۔ ادھر سے لشکر سادات نکلا، دوپہر کامل لٹھ چلا دو پونے دو سو آدمی زخمی ہوئے، چار گھڑی رات جاتے جاتے سرکاری فوج توپ لے کر آ پہنچی اور پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ تحقیقات ہونے لگی اور نتیجہ یہ ہوا۔