آب حیات/چوتھا دور/تمہید

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

قہقہوں کی آوازیں آتی ہیں، دیکھنا اہل مشاعرہ آن پہنچے۔ یہ کچھ اور لوگ ہیں۔

ان کا آنا غضب کا آنا ہے​

ایسے زندہ دل اور شوخ طبع ہوں گے کہ جن کی شوخی اور طراری طبع بار متانت سے ذرا نہ دبے گی۔ یہ اتنا ہنسیں اور ہنسائیں گے کہ منھ تھک جائیں گے مگر نہ ترقی کے قدم بڑھائیں گے نہ اگلی عمارتوں کو بلند اتھائیں گے۔ انھیں کوٹھوں پر کودتے پھاندتے پھریں گے۔ ایک مکان کو دوسرے مکان سے سجائیں گے اور ہر شے کو رنگ بدل بدل کر دکھائیں گے۔ وہی پھول عطر میں بسائیں گے، کبھی ہار بنائیں گے کبھی طّرے سجائیں گے۔ کبھی انھیں کو پھولوں کی گیندیں بنا لائیں گے۔ اور وہ گل بازی کریں گے کہ ہولی کے جلسے گرد ہو جائیں گے۔ ان خوش نصیبوں کو زمانہ بھی اچھا ملے گا۔ ایسے قدرداں ہاتھ آئیں گے کہ ایک ایک پھول ان کا چمن زعفران کے مول بکے گا۔

اس دوران میں میاں رنگینؔ سب سے نئے گلدستے بنا کر لائے اور اہل جلسہ کے سامنے سجائے یعنی ریختہ میں سیختی نکالی۔ ہم ضرور کہتے کہ ہندوستان کی عاشقانہ شاعری نے اپنے اسل پر رجوع کی، لیکن چونکہ پہلے کلام کی بنیاد اصلیت پر تھی اور اس کی بنیاد فقط یاروں کے ہنسنے ہنسانے پر ہے اس لئے سوائے تمسخر کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ اگر لکھنؤ کے قیصر باغ اور وہاں کے معاملات کی تخم ریزی دیوان رنگینؔ اور دیوان سید انشاء کو کہیں تو کچھ بدگمانی یا تہمت میں داخل نہیں، اگرچہ اصل ایجاد میاں رنگین کا ہے۔ مگر سید انشاء نے بھی ان سے کچھ زیادہ ہی سگھڑاپا دکھایا ہے۔

انِ صاحب کمالوں کے عہد میں صدہا باتیں بزرگوں کی متروک ہو گئیں، پھر بھی جس قدر باقی ہیں وہ اشعار مفصلہ ذیل سے معلوم ہوں گی۔ البتہ شیخ مصحفی کے بعض الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں بزرگوں کی میراث سے محبت زیادہ ہے۔ سید انشاؔء اور جراتؔ نے ان میں سے بہت کچھ چھوڑ دیا مگر نت، ٹک، انکھڑیاں، زور (یعنی بہت) بے تکلف بولتے ہیں۔ اور داچھڑؔے، بھلّہ رےؔ، جھکڑا، اجی، سید موصوف کا انداز خاص ہے۔ ہاں انھوں نے کلام کا انداز ایسا رکھا ہے، کہ جو چاہتے ہیں، سو کہہ جاتے ہیں۔ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کا روزمرہ یہی ہے یا مسخرا پن کرتے ہیں۔ بہر حال چند شعر لکھتا ہوں، جن سے معلوم ہو کہ اس وقت تک کیا قدیمی محاورے باقی تھے جو اب متروک ہیں اور باقی الفاظ ان بزرگوں کی غزلوں سے معلوم ہوں گے جو ان کے حال کے بعد لکھی گئی ہیں۔ چنانچہ شیخ مصحفی کہتے ہیں۔

او دامن اٹھا کے جانے والے
ٹک ہم کو بھی خاک سے اٹھا لے

تربت پہ میری پائے حجائی نہ رکھ میاں
کر رحم اب تو قبر میں آتش فشاں نہ ہو

شب ہجر صحرائے طلمت سے نکلی
میں جب آنکھ کھولی بہت رات نکلی

تو اے مصحفیؔ اب تو گرمِ سخن ہو
شب آئین دراز اور بہت رات نکلی

دل مرے سوگ میں مت کر تو برادر میلا
یاں سمجھ جاتے ہیں ہوتا ہے جو تیور میلا

لے لطفِ سیر شب ماہ ان حسینوں میں
جنھوں کے رہتی ہے افشاں چنی جبینوں میں

انھوں کو صاحبِ خرمن سبھی سمجھتے ہیں
جو مصحفیؔ کے ہیں کہلاتے کوشہ چینوں میں

  • -*-*-*-*-*


باغباں ہے مجھے کیا کام ترے گلشن سے
ہرتے پھرتے کبھی ایدھر بھی میں آ جاتا ہوں

ہوں تو گٹھری پون کی مثلِ حباب
لیکن آب و ہوا کے ہاتھ میں ہوں

تم جو پوچھو ہو سدا حال رقیباں ہم سے
یہ ہنسی خوب نہیں اے گل خنداں ہم سے

حیران سی نگاہیں رہ جاتیاں ہیں تیری
کیا آنکھیں آرسی سے شرط بتاں ہیں تیری

اِس گل کی باغ میں جو حنا نے چلائی (*) بات
غنچہ نے مسکرا کے کہا ہم نے پائی بات

  • بات چلائی وہی امروہہ والی بات ہے۔


شہرت بزیر آساں رکھتی تھی حاتم کی سخا
اسکا نہیں ملتا نشاں کیا جائے وہ کیدھر گئی

تن کے نشیمن سے سفر دشوار اسے آیا نظر
سو بار جانِ مضطرب ایدھر گئی اودھر گئی

ناسور داغ سینہ کو ماءالحیات اپنا سمجھ
تن خاک کا پھر ڈھیر ہے کجلا جو یہ اخگر گئی

گویا زمیں کربلا تھی قتل گاہِ عاشقاں
جو بدلی آئی اس طرف یاراں بچشم تر گئی

بکھیر دے جو وہ زلفوں کو اپنے مکھڑے پر
تو مارے شرم کے آئی ہوئی گھٹا پھر جائے​

مصحفیؔ نظم غزل میں ہے یہ کس کا مقدور
جو جو طرزیں کہ ہم ایجاد کیا کرتے ہیں

نرگس نے گل کی دید کو آنکھیں جو کھولیاں
کچھ جی میں جو سمجھ گئیں کلیاں نہ بولیاں

میں ہی جانوں ہوں جو کچھ مجھ سے ادائیں کی ہیں
تیری آنکھوں نے جفائیں سی جفائیں کی ہیں

کیا روٹھ گیا مجھ سے مرا یار الہٰی
کیوں آنکھ ملاتا وہ نہیں کچھ تو سبب ہے

نہ ترے حسن کے دن اور نہ بہاریں وہ رہیں
نہ وہ جالی نہ وہ محرم نہ ازاریں وہ رہیں

منھ نہ کھولے کبھی گھر آ کے مرے حوروں نے
جب تلک بیٹھی رہیں رونٹ ہی مارے وہ رہیں

تیرے بن ہم نے نہ دیکھا کبھی پریوں کیطرف
گو خط و خال کو نت اپنے سنوارے وہ رہیں

دم شماری ہے اب انجام ریاکاری شیخ
نہ وہ تسبیح کے دانے نہ شماریں وہ رہیں

مل گئے خاک میں کیا کیا نہ دفینانِ بزرگ
نہ وہ لوحیں نہ محجر نہ مزاریں وہ رہیں

اے خوشا حال انھوں کا کہ جو کوچہ میں ترے
خاک پنڈے پہ ملے بیٹھے ہیں آسن مارے​

اور سید انشاء اللہ خاں کہتے ہیں :

دشتِ جنوں میں اے وائے ویلا
سونے نہ پائے ٹک پاؤں پھیلا

انکھڑیاں سُرخ ہو گئیں جب سے
دیکھ لیجیئے کمال بوسر کا

ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
تسپر یہ غضب پوچھتے ہو نام ہمارا

ایک چھوڑا و زندہ جان تو نے
ٹھور رکھا سبھوں کو ہاں تو نے

بھلّہ رہے یہ دماغ سمجھا ہے
آپ کو شاغ زعفراں تو نے

جو ہاتھ اپنے سبزہ کا گھوڑا لگا
تو سلفے کا اور اس پر کوڑا لگا

اجی چشمِ بددور نامِ خدا
تمھیں کیا بھلا سُرخ جوڑا لگا

چہرہ مریض غم کا ترے زرد ہے سو ہے
عیسٰے کنے دوا نہ رہی درد ہے سو ہے

نکل کے وادی وحشت سے دیکھ اے مجنوں
کہ زور دھوم سے آتا ہے ناقہ لیلٰے

ہے نام خدا دا چھڑے کچھ اور تماشا
یہ آپ کی رنگت

گات ایسی غضب قہر بھبن اور جھمکڑا
اللہ کی قدرت​

اور جراتؔ کہتے ہیں :

نالہ موزوں سے مصرع آہ کا چسپاں ہوا
زُور یہ مطلع مرا سرِد فتر دیوان ہوا

جنھوں کے نامے پہنچتے ہیں یار تک دن رات
انھیں کا کاش کہ جرات بھی نامہ بر ہوتا

وہ ایک تو ہے بھبھوکا سا تسپہ اے جراتؔ
اکٹر تکڑ ہے قیامت ہے بانکپن کی سی

دیکھنا ٹک یاد ہیں ہم کو بھی کیا عیاریاں
تیری خاطر کرتے ہیں غیروں کی خاطر داریاں

بہہ گیا جوں شمع تن سارا اگر اچھا ہوا
نت کے رونے سے چھٹی اے چشم تر اچھا ہوا

سبھی انعام نت پاتے ہیں اے شیریں دہن تجھ سے
کبھی تو ایک بوسہ سے ہمارا منھ بھی میٹھا کر

خبر اس کو نہیں کرتا کوئی
کہ میاں مفت ہے مرتا کوئی

کسی گل کے لئے تم آپ گل ہو گل نہ کھاؤ جی
ابھی ننھا کلیجہ ہے نہ داغ اسکو لگاؤ جی

آتش عشق کو سینے میں عبث بھڑکایا
اب کہو کھینچوں ہوں میں آہِ سرر بار کہ تو

کل واقف کار اپنے سے کہتا تھا وہ یہ بات
جراءت کے جو گھر رات کو مہمان گئے ہم

کیا جانئے کم بخت نے کیا ہم پہ کیا سحر
جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم

تم اور کسی شہر چلے ہو تو بس اپنے
عالم ہی وہ نظروں میں نہیں سارے نگر کا

یا ہم ہی نہیں ہیں یا نہیں غیر
اودھر کو جو تو نظر کرے گا

ہر دم جو اپنے سامنے وہ گلوزار ہے
جیدھر کو آنکھ اٹھاتے ہیں باغ و بہار ہے

کھینچ کر آہ جو میں ہاتھ جگر پر رکھا
دامن اس نے بھی اٹھا دیدہ تر پر رکھا

تھی مری شکل کل اُس بن یہ گلستان کے بیچ
جیے بیٹھے خفقانی کوئی زندان کے بیچ

لے چلے غیر کو گھر اپنے بلا سین سے تم
انکھڑیوں سے کبھی یوں ہم کو اشارہ نہ ہوا

جس پہ نت تیغ کھچے اور سدا جور رہے
تو ہی انصاف کر اب کیونکہ نہ وہ ٹھور رہے

جراتؔ یہ غزل سُن کے بہ تغئیر قوانی
تکلیف سخن گوئی کی دی پھیر کسی نے

اس غزل میں اک غزل تو اور جراتؔ پڑھ سُنا
زور ہی لذّت ہمیں تو دی ترے اشعار نے

یار کا آستان پایا ہے
زور دل نے مکان پایا ہے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*