آب حیات/شیخ قلند بخش جرات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

جراءت تخلص، شیخ قلندر بخش مشہور، اصلی نام یحیٰی امان تھا۔ اکبر آبادی مشہور ہیں۔ مگر باپ ان کے حافظ امان خاص دلی کے رہنے والے تھے۔ ہر تذکرہ میں لکھا ہے کہ ان کے خاندان کا سلسلہ (رائے امان کا کوچہ دلی کے چاندنی چوک میں ان ہی کے نام سے مشہور ہوا۔) رائے امان شاہی سے ملتا ہے اور امان کا لفظ اکبری زمانہ سے ان کے ناموں کا خلعت چلا آتا ہے۔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ ان کے بزرگ دربار شاہی میں دربانی کی خدمت رکھتے تھے۔

لطیفہ : بزرگوں کا قول سچ ہے کہ اگر کسی کے والدین اور بزرگوں کی لیاقت اور حیثیت دریافت کرنی ہو تو اس کے نام کو دیکھ لو، یعنی جیسی لیاقت ہو گی ویسا ہی نام رکھیں گے۔ حقیقیت حال یہ ہے کہ رائے امان محمد شاہی عہد میں دربان تھے۔ اگرچہ اس زمانہ کے دربان بھی آج کل بڑے بڑے عہدہ داروں سے بہتر ہوتے تھے۔ مگر زیادہ تر وجہ شہرت یہ ہوئی کہ جس وقت نادر شاہ نے قتل عام کا حکم دیا تو بعض اشخاص نے ننگ و ناموس کا پاس کر کے جان کا خیال نہ کیا اور اپنے اپنے گھر کا بندوبست رکھا۔ نادر شاہ کے سپاہی جب وہاں پہنچے تو تلوار کا جواب تلوار سے دیا۔ اس میں طرفین کی جانیں ضائع ہوئیں۔ امن کے بعد جب نادری مقتولوں کی اور ان کے اسباب قتل کی تحقیقات ہوئی تو وہ لوگ پکڑ کے آئے، ان میں رائے امان بھی تھا۔ چنانچہ شال پٹکوں سے ان کے گلے گھونٹے اور مار ڈالا۔ (دیکھو نادر نامہ عبد الکریم)۔

جرات میاں جعفر علی حسرتؔ (حسرت بھی نامی شاعر تھے، مگر اصلی پیشہ عطاری تھا۔ دیوان موجود ہے پھیکے شربت کا مزہ آتا ہے۔ مرزا رفیع نے انھیں کی شان میں غزل کہی ہے جس کا مطلع یہ ہے :

بہدا نہ کا آندھی سے اڑا ڈھیر ہوا پر

ہر مرغ اُسے کھا کے ہوا سیر ہوا پر​

اسی طرح ہجو کی آندھی میں ساری دوکان کا خاکہ اڑا دیا ہے۔ دیکھو صفحہ ۱۲۳) کے شاگرد تھے۔ علاوہ فنِ شاعری کے نجوم میں ماہر تھے اور موسیقی کا بھی شوق رکھتے تھے۔ چنانچہ ستار خوب بجاتے تھے۔ اوّل نواب محبت خاں خلف حافظ رحمت خاں نواب بریلی کی سرکار میں نوکر ہوئے ۔

میر انشاء اللہ خاں کی اور ان کی صحبتیں بہت گرم رہتی تھیں، چنانچہ حسب حال یہ شعر کہا تھا :

بسکہ گلچیں تھے سدا عشق کے ہم بستاں کے

ہوئے نوکر بھی تو نواب محبت خاں کے​

۱۲۱۵ھ میں لکھنؤ پہنچے اور مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں ملازم ہوئے۔ ایک دفعہ تنخواہ میں دیر ہوئی، حین طلب میں ایک غزل کا مطلع لکھا :

جرات اب بند ہے تنخواہ تو کہتے ہیں یہ ہم

کہ خدا دیوے نہ جبتک تو سلیماں کب دے​

فارسی کی ضرب المثل ہے "تا خدا نہ دہد سلیماں کے دہد" میاں جراءت کے حال میں بلکہ ساری کتاب میں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عین جوانی میں آنکھوں سے معذور ہو گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ حادثہ چیچک سے ہوا۔ استاد مرحوم نے ایک دفعہ فرمایا کہ بھئی زمانہ کی دو آنکھیں ہیں۔ نیکی کی آنکھ نے ان کے کمال کو بڑی قدر دانی سے دیکھا۔ بدی کی آنکھ نہ دیکھ سکی۔ اور ایک بدنما داغ ان کے دامن پر دکھایا۔ مشہور کرتے ہیں کہ پہلے وہ اصلی اندھے نہ تھے۔ بعض ضرورتوں سے کہ شوخی عمر کا مقتضیٰ ہے، خود اندھے بنے۔ رفتہ رفتہ اندھے ہی ہو گئے۔

بزرگوں کا قول ہے کہ شرافت و نجابت غریبی پر عاشق ہے۔ دولت اور نجابت آپس میں سوکن ہے، یہ حق ہے اور سبب اس کا یہ ہے کہ شرافت کے اصول و آئیں غریبوں ہی سے خوب نبھتے ہیں۔ امارت آئی قیامت آئی دولت آئی شامت آئی۔ میاں جراءت کی خوش مزاجی، لطیفہ گوئی، مسخرا پن حد سے زیادہ گزرا ہوا تھا۔اور ہندوستان کے امیروں کو نہ اس سے ضروری اور ہندوستان کے امیروں کو نہ اس سے ضروری کوئی کام نہ اس سے زیادہ کوئی نعمت ہے۔ کہتے ہیں، مرزا قتل، سید انشاء کا اور ان کا یہ حال تھا کہ گھر میں رہنے نہ پاتے تھے۔ آج ایک امیر کے ہاں گئے، دوسرے دن دوسرے امیر آئے سوار کیا اور ساتھ لے گئے۔ چار پانچ دن وہاں رہے کوئی اور نواب آئے، وہاں سے وہ لے گئے۔ جہاں جائیں آرام و آسائش سے زیادہ عیش کے سامان موجود۔ رات دن قہقہے اور چہچہے ایک بیگم صاحب نے گھر میں ان کے چٹکلے اور نقلیں سنیں۔ بہت خوش ہوئیں اور نواب صاحب سے کہا کہ ہم بھی باتیں سنیں گے۔ گھر میں لا کر کھانا کھلاؤ، پردے یا چلمنیں چھٹ گئیں، اندر وہ بیٹھیں، باہر یہ بیٹھے۔ چند روز کے بعد خاص خاص بیبیوں کا برائے نام پردہ رہا۔ باقی گھر والے سامنے پھرنے لگے۔ رفتہ رفتہ یگانگی کی یہ نوبت ہوئی کہ آپ بھی باتیں کرنے لگیں۔ گھر میں کوئی دادا، نانا، کوئی ماموں، چچا کہتا، شیخ صاحب کی آنکھیں دکھنے آئیں، چند روز ضعفِ بصر کا بہانہ کر کے ظاہر کیا کہ آنکھیں معذور ہو گئیں۔ مطلب یہ تھا کہ اہل حُسن کے دیدار سے آنکھیں سکھ پائیں، چنانچہ بے تکلف گھروں میں جانے لگے۔ اب پردہ کی ضرورت کیا؟ یہ بھی قاعدہ ہے کہ میاں بیوی جس مہمان کی بہت خاطر کرتے ہیں، نوکر اس سے جلنے لگتے ہیں۔ ایک دن دوپہر کو سو کر اٹھے، شیخ صاحب نے لونڈی سے کہا کہ بڑے آفتابے میں پانی بھر لا۔ لونڈی نہ بولی۔ انھوں نے پھر پکارا، اس نے کہا کہ بیوی جائے ضرور میں لے گئی ہیں۔ ان کے منہ سے نکل گیا کہ غیبانی دوانی ہوئی ہے سامنے تو رکھا ہے۔ دیتی کیوں نہیں۔ بیوی دوسرے دالان میں تھیں۔ لونڈی گئی اور کہا کہ اوئی بیوی یہ موا کہتا ہے کہ وہ بندہ اندھا ہے۔ یہ تو خاصا اچھا ہے۔ ابھی میرے ساتھ یہ واردات گزری۔ اس وقت یہ راز کھلا۔ مگر اس میں شبہ نہیں کہ آخر آنکھوں کو رو بیٹھے۔

مزن فال بد کا درد حالِ بد

مبادا کسے کو زند فال بد​

اگرچہ علوم تحصیلی میں ناتمام تھے۔ بلکہ عربی زبان سے ناواقف تھے لیکن اس کوچہ کے رستوں سے خوب واقف تھے اور طبع موزوں طوطی و بلبل کیطرح ساتھ لائے تھے۔ آخر عمر تک لکھنؤ میں رہے اور وہیں ۱۲۲۵ھ میں فوت ہوئے۔ شیخ ناسخ نے تاریخ کہی :

جب میاں جرات کا باغِ دہر سے

گلشنِ فردوس کو جانا ہوا


مصرع تاریخ ناسخ نے کہا

ہائے ہندوستان کا شاعر موا​

کلام ہر جگہ زبان پر ہے۔ دیوان تلاش سے مل جاتا ہے۔ اس میں ہر طرح کی غزلیں ہیں، رباعیاں، چند مخمس، واسوخت، چند ہجوئیں اور تاریخیں ہیں۔ دیوان میں رطب و یابس بہت نہیں ہے، معلوم ہوتا ہے کہ جو استادوں کے طریقے پائے ہیں، انھیں سلیقہ سے کام میں لائے ہیں۔ اس پر کثرتِ مشق نے صفائی کا رنگ دیا ہے کہ سب کوتاہیوں کا پردہ ہو گیا۔ اور انھیں خود صاحب طرز مشہور کر دیا۔ ان کی نکتہ یابی اور سخن فہمی کی بڑی دلیل یہ ہے کہ قصیدہ وغیرہ اقسام شعر پر ہاتھ نہ ڈالا۔ بلکہ زبان فارسی کی طرف خیال بھی نہیں کیا، مناسب طبع دیکھ کر غزل کو اختیار کیا۔ اور امراء اور ارباب نشاط کی صحبت نے اسے اور بھی چمکایا۔ انھوں نے بالکل میرؔ کے طریقے کو لیا۔ مگر اس کی فصاحت و سادگی پر ایک شوخی اور بانکپن کا انداز ایسا بڑھایا جس سے پسند عام نے شہرت دوام کا فرمان دیا۔ عوام میں کمال کی دھوم مچ گئی۔ اور خواص حیران رہ گئے۔ ان کی طرز انھیں کا ایجاد ہے اور آج تک انھیں کے لئے خاص ہے۔ جیسی اس وقت مقبول خلائق تھی آج تک ویسی ہی چلی آتی ہے۔ خصوصیت اس میں یہ ہے کہ فصاحت اور محاورہ کی جان ہے۔ فقط حسن و عشق کے معاملات ہیں اور عاشق و معشوق کے خیالات گویا اس میں شراب ناب کا شروع پید کرتے ہیں۔ ان کی طبیعت غزل کے لئے عین مناسب واقع ہوئی تھی۔ حریف، ظریف، کوش طبع، عاشق مزاج تھے۔ البتہ استعداد علمی اور کاوش فکری شاعری کا جز اعظم ہے، ان کی طبیعت بجائے محنت پسند ہونے کے عشرت پسند تھی، تعجب یہ ہے کہ زمانے نے شکرخورے کو شکر دے کر تمام عمر قدردان اور ناز بردار امیروں میں بسر کر دی۔ جہاں رات دن اس کے سوا اور چرچا ہی نہ تھا۔ اگر ان کی طبیعت میں یہ باتیں نہ ہوتیں اور وہ استعداد علمی سے طبیعت میں زور اور فکر میں قوتِ غور پیدا کرتے تو اتنا ضرور ہے کہ اصنافِ سخن پر قادر ہو جاتے۔ مگر پھر یہ لطف اور شوخیاں کہاں بلبل میں شوریدہ مزاجی نہ ہوتی، تو یہ چہچہے کب ہوتے۔ یہ بات ہے کہ طبیعت میں تیزی اور طراری تھی۔ مگر نزلے کا زور اور طرف جا کر گِرا تھا۔ یہی سبب ہے کہ کلام میں بلند پردازی، لفظوں میں شان و شکوہ، اور معنوں میں دِقَت نہیں۔ جس نے قصیدہ تک نہ پہونچنے دیا اور غزل کے کوچہ میں لا ڈالا۔ اس عالم میں جو جو باتیں ان پر اور ان کے دل پر گذرتی تھیں سو کہہ دیتے تھے۔

مگر ایسی کہتے تھے کہ اب تک دل پھڑک اٹھتے ہیں۔ مشاعرے میں غزل پڑھتے، جلسے کے جلسے لوٹ جاتے تھے۔ سید انشاء باہمہ فضل و کمال رنگا رنگ کے بہروپ بدل کر مشاعرہ میں دھوم دھام کرتے تھے، وہ شخص فقط اپنی سیدھی سادی غزل میں وہ بات حاصل کر لیتا تھا۔

مرزا محمد تقی خاں ترقی کے مکان پر مشاعرہ ہوتا تھا اور تمام امرائے نامی و شعرائے گرامی جمع ہوتے تھے۔ میر تقی مرحوم بھی آتے تھے۔ ایک دفعہ جراءت نے غزل پڑھی اور غزل وہ ہوئی کہ تعریفوں کے غل سے شعر تک سنائی نہ دیئے۔ میاں جراءت یا تو اس جوش سرور میں جو کہ اس حالت میں انسان کو سرشار کر دیتا ہے، یا شوخی مزاج سے میر صاحب کے چھیڑنے کے ارادہ سے ایک شاگرد کا ہاتھ پکڑ کر ان کے پاس آ بیٹھے۔ اور کہا کہ حضرت اگرچہ آپ کے سامنے غزل پڑھنی بے ادبی اور بے حیائی ہے۔ مگر خیر اس بیہودہ گو نے جو یاوہ گوئی کی آپ نے نے سماعت فرمائی؟ میر صاحب تیوری چڑھا کر چپکے ہو رہے۔ جرات نے پھر کہا میر صاحب کچھ ہوں ہاں کر کے پھر ٹال گئے۔ جب انھوں نے بہ تکرار کہا تو میر صاحب نے جو الفاظ فرمائے وہ یہ ہیں (دیکھو تذکرہ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم)۔ کیفیت اس کی یہ ہے کہ تم شعر تو کہنا نہیں جانتے ہو اپنی چوما چاٹی کہہ لیا کرو۔" میر صاحب مرحوم شاعروں کے ابو الآبا تھے، کیسے ہی الفاظ میں فرمائیں مگر جوہری کامل تھے۔ جواہر کو خوب پرکھا۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ عاشق و معشوق کے راز و نیاز اور حُسن کے معاملوں کو جس شوخی اور چوچلے سے انھوں نے برتا ہے وہ انھیں کا حصہ تھا۔ آج تک دوسرے کو نصیب نہیں ہوا۔

میرؔ اور سوداؔ کی غزلوں پر اکثر غزلیں لکھی ہیں۔ ان کے کلام ملوم الکلام تھے مگر یہ اپنی شوخی سے جو لطف پید کر جاتے ہیں، تڑپا جاتے ہیں۔

برقع کو اٹھا چہرہ سے وہ بت اگر آئے
اللہ کی قدرت کا تماشا نظر آئے
(میر)

اس دل کو تفِ آہ سے کب شعلہ بر آئے
بجلی کو دم سرد سے جس کے حذر آئے
(سودا)

ہر گز نہ مرادِ دل معشوق بر آئے
یا رب نہ شبِ وصل کے پیچھے سحر آئے
(مصحفی)

اس پردہ نشیں سے کوئی کس طرح بر آئے
جو خواب میں بھی آئے تو منھ ڈہانک کر آئے
(جرات)

ناقص کا صفا کیش سے مطلب نہ بر آئے
جو کور ہو عینک سے اُسے کیا نظر آئے
(ذوق)

فردوس میں ذکر اس لبِ شیریں کا گر آئے
پانی دہن چشمہ کوثر میں بھر آئے
(بعالم جوانی)

اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
(میر)

جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
(سودا)

ہے کس کا جگر جس پہ یہ بیداد کرو گے
لو ہم تمھیں دل دیتے ہیں کیا یاد کرو گے
(جرات)

مدعی مجھ کو کھڑے صاف بُرا کہتے ہیں
چپکے تم سنتے ہو بیٹھے اسے کیا کہتے ہیں
(میر)

تو نے سودا کے تئیں قتل کیا کہتے ہیں
یہ اگر سچ ہے تو ظالم اسے کیا کہتے ہیں
(سودا)

آئینہ رُخ کو ترے اہل صفا کہتے ہیں
اسپہ دل اٹکے ہے میرا اسے کیا کہتے ہیں
(جراءت)​

سوداؔ کا ایک مطلع مشہور (میرے شفیق قدیم حافظ ویران فرماتے ہیں۔) ہے۔ استاد مرحوم اس پر جراءت کا مطلع پڑھا کرتے تھے۔ ایک مصرع یاد ہے دوسرا بُھول گیا، اب سارا دیوان چھان مارا نہیں ملتا، معلوم ہوتا ہے کہ زبان بزبان یہاں تک آ پہونچا وہاں دیوان میں نہ درج ہوا، ناسخؔ اور آتش کے اکثر اشعار کا یہی حال ہے۔ معتبر اشخاص کی زبانی سن چکا ہوں جو کہ خود ان کے مشاعروں میں شامل ہوتے تھے مگر اب دیوانوں میں وہ اشعار نہیں ملتے۔ استاد مرحوم کے صدہا شعروں کا حال راقم آثم جانتا ہےکہ خود یاد ہیں یا ایک دو زبانوں پر ہیں۔ کار ساز کریم ان کے مجموعہ کو بھی تکمیل کو پہونچائے۔ سودا کا مطلع ہے :

کہہ دیکھ تو رستم سے سر تیغ تلے دھر دے
پیار سے یہ ہمیں سے ہو ہرکارے و ہزمردے
(سودا)

پہلا مصرع یاد نہیں دوسرا حاضر ہے
ہر شہرے و ہر رسمے، ہرکارے و ہر مردے
(جرات)

ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
(میر)

چمن میں صبح جو اس جنگ جو کا نام لیا
صبا نے تیغ کا موج رواں سے کام لیا
(سودا)

پاس جا بیٹھا جو میں کل اک ترے ہمنام کے
رہ گیا بس نام سنتے ہی کلیجہ تھام کے
(جرات)

چمن میں گل نے جو کل دعویٰ جمال کیا
جمال یار نے منھ اس کا خوب لال کیا
(میر)

برابری کا تری گل نے جب خیال کیا
صبا نے مار تھپیڑے منھ اس کا لال کیا
(سوداؔ)

جو تیغ یار نے کوں ریزی کا خیال کیا
تو عاشقوں نے بھی منھ اسکا خوب لال کیا
(جرات)​

طائر شہرت نے ابھی پر پرواز نہ نکالے تھے جو مرزا رفیع اور میر سوزؔ جلسہ میں ایک لطیفہ ہوا، دیکھو صفحہ ۲۴۲، سچ ہے شاعر اپنی شاعری ماں کے پیٹ سے لیکر نکلتا ہے۔ ان کے کلام میں بعض نکتے ایسے بھی ہیں کہ جن پر خاص لوگوں کی نظریں اٹکتی ہیں۔ مثلاً :

ہو کے آزردہ جو وہ ہم سے پرے پھرتے ہیں

ہاتھ ہم اپنے کلیجے پہ دھرے پھرتے ہیں​

مصرع گرم ہے۔ لیکن پرے پرے پھرتے ہیں۔ کہتے تو محاورہ پورا ہو جاتا۔

کبھی وہ چاند کا ٹکڑا ادھر بھی آ نکلے

ذرا تو دیکھ منجّم مرے ستاروں کے دن


دکھا دے شکل کہ دیوار و در سے سر اپنا

کہاں تلک کوئی تیرے قرار پر مارے


ہجوم داغ نے یہ کی ہے تن پہ گلکاری

کہ پہنے ہوں تن عریاں لباس پھلکاری​

ظہور اللہ خاں نواؔ سے کسی معاملے میں بگاڑ ہو گیا تھا۔ انھوں نے ان کی ہجو میں ایک ترجیع بند کہا اور حقیقت میں بہت خوب کہا۔ جس کا شعر ترجیع یہ ہے :

ظہور حشر نہ ہو کیوں کہ کلچڑی گنجی

حضور بلبل بستاں کرے نواسنجی​

خان (ظہور اللہ خاں نوا ۱۲۴۰ھ میں مر گئے۔) موصوف نے بھی بہت کہا کہا۔ اس نے شہرت نہیں پائی۔ چنانچہ انکے ترجیع بند کا فی الحال یہی ایک شعر یاد ہے۔

رات کو کہنے لگا جو رو کے منھ پر ہاتھ پھیر

قدرتِ حق سے لگی ہے ہاتھ اندھے کے بٹیر​

کریلا – (عہد محمد شاہی اور اسی پس و پیش کا زمانہ خوشحالی کے لحاظ سے بہشتی زمانہ تھا۔ دربار سے جو امیر کس طرف جاتا تھا وہ ضروری چیزیں اور کاروبار کے آدمی دلّی سے اپنےساتھ لیجاتا تھا تاکہ ہر کام ہر رسم ہر بات اور کارخانہ کا محاورہ وہ ہو جو دارالخلافہ کا ہے۔ نواب سراج الدولہ مرشد آباد کے صوبیدار ہر کر گئے تو علاوہ منصب داروں اور ملازموں کے کئی بھانڈ اور دو تین گوئیے، دو تین رنڈیاں اور دو بھگتنے، دو تین نانبائی، ایک دو کنجڑے اور بھڑبھونجے تک بھی ساتھ لے گئے اور وہ ایسا وقت تھا کہ دلّی کا بھڑبھونجا بھی دس (۱۰) بارہ روپے مہینے بغیر دلّی سے نہ نکلتا تھا۔ یہ شعر شاہ مبارک آبرو کا ہے۔) ایک پراتم بھانڈ دلّی کا رہنے والا، نواب شجاع الدولہ کے ساتھ گیا تھا۔

اور اپنے فن میں صاحب کمال تھا۔ ایک دن کسی محفل میں اس کا طائفہ حاضر تھا۔ شیخ جراءت بھی وہاں موجود تھے۔ اس نے نقل کی۔ ایک ہاتھ میں لکڑی لے کر دوسرا ہاتھ اندھوں کی طرح بڑھایا۔ ٹٹول کر پھرنے لگا اور کہنے لگا کہ حضور شاعر بھی اندھا شعر بھی اندھا :

صنم سنتے ہیں تیرے بھی کمر ہے

کہاں ہے کس طرف کو ہے کدھر ہے​

شیخ صاحب بہت خفا ہوئے۔ مگر یہ بھی سید انشاء اور مرزا قتیلؔ کے جتھے کے جزواعظم تھے۔ گھر آ کر انھوں نے اس کی ہجو کہہ دی اور خاک اڑائی۔ اُسے سن کر کریلا بہت کڑوایا۔ چنانچہ دوسرے جلسہ میں پھر اندھے کی نقل کی۔ اسی طرح لاٹھی لے کر پھرنے لگا۔ ان کی ایک غزل ہے :

امشب تری زلفوں کی حکایات ہے واللہ

کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ​

ہر رات کے لفظ پر لکٹری کا سہارا بدلتا تھا۔ کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ، اس غزل کے ہر شعر کا دوسرا مصرع ایک ہی ڈھنگ پر ہے۔ چنانچہ ساری غزل کو اسی طرح محفل میں پڑھتا پھرا۔ شیخ صاحب اور بھی غصہ ہوئے اور پھر آ کر ایک ہجو کہی۔ ترجیع بند تھا :

اگلا جھولے بگلا جھولے ساون اس کریلا پُھولے​

اس کو بھی خبر ہوئی، بہت بھنایا۔ پھر کسی محفل میں ایک زچّہ کا سوانگ بَھرا اور ظاہر کیا کہ اس کے پیٹ میں بُھتنا گھس گیا ہے۔ خود مُلّا بن کر بیٹھا اور جس طرح جنّات اور سیانوں میں لڑائی ہوتی ہے۔ اسی طرح جھگڑتے جھگڑتے بولا کہ ارے نامراد کیوں غریب ماں کی جان کا لاگو ہوا ہے۔ جراءت ہے تو باہر نکال آ کہ ابھی جلا کر خاک کروں، آخر اب کی دفعہ انھوں نے ایسی خبر لی کہ کریلا خدمت میں حاضر ہوا، خطا معاف کروائی اور کہا کہ میں اگر آسمان کے تارے توڑ لاؤں گا تو بھی اس کا چرچا وہیں تک رہے گا، جہاں تک دائرہ محفل ہے۔ آپ کا کلام منھ سے نکلتے ہیں عالم میں مشہور ہو جائے گا۔ اور پتھر کی لکیر ہو گا کہ قیامت تک نہ مٹے گا۔ بس اب میری خطا معاف فرمائیے۔

اگرچہ روایت کہن سال لوگوں سے سنی ہے، مگر کئی نسخے کلیات کے نظر سے گذرے جو ہجو اس میں ہے وہ ایسی نہیں ہے، جس پر ایک بھانڈ اس قدر گھبرا جائےکہ آ کر خطا معاف کروائے۔

لطیفہ : ایک دن میر انشاء اللہ خاں جرات کی ملاقات کو آئے، دیکھا تو سر جھکائے بیٹھے کچھ سوچ رہے ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کس فکر میں بیٹھے ہو؟ جرات نے کہا کہ ایک مصرع خیال میں آیا ہے۔ چاہتا ہوں کہ مطلع ہو جائے۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ہے؟ جرات نے کہا کہ خوب مصرع ہے مگر جب تک دوسرا مصرع نہ ہو گا، تب تک نہ سناؤں گا، نہیں تو تم مصرع لگا کر اسے بھی چھین لو گے۔ سید انشاء نے بہت اصرار کیا، آخر جراتؔ نے پڑھ دیا :

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سُوجھی​

سید انشاء نے فوراً کہا :

اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سُوجھی​

جراتؔ ہنس پڑے اور اپنی لکڑی اٹھا کر مارنے دوڑے۔ دیر تک سید انشاء آگے آگے بھاگتے پھرے اور یہ پیچھے پیچھے ٹٹولتے پھرے۔ اللہ اکبر! کیا شگفتہ مزاج لوگ تھے۔ کیا خوش دلی اور فارغ البالی کے زمانے تھے۔

سیّد انشاء نے ان کے نام کا معمہ کہا تھا، سرمونڈی نگوڑی گجراتن۔ لطیفہ اس میں یہ تھا کہ گجراتن ان کی ماں کا نام تھا۔

نواب محبت خاں کے مختار نے ایک دفعہ جاڑے میں معمولی پوشاک دینے میں کچھ دیر کی۔ جراءتؔ نے رباعی کہہ کر کھڑے کھڑے خلعت حاصل کیا۔

مختاری پہ آپ نہ کیجیے گا گھمنڈ

کہتے ہیں جسے نوکری ہے بیخ ارنڈ


سرمائی دلائیے ہماری ورنہ

تم کھاؤ گے گالیاں جو ہم کھائینگے ٹھنڈ

غزل

لگ جا گلے سے بات اب اے نازنیں نہیں
ہے ہے خدا کے واسطے مت کر نہیں نہیں

کیا رک کے وہ کہے ہے جو ٹک اس سے لگ چلوں
بس بس پرے ہو شوق یہ اپنے تئیں نہیں

پہلو میں کیا کہیں جگر و دل کا کیا ہے رنگ
کس روز اشکِ کونی سے تر آستیں نہیں

فرصت جو پا کے کہنے کبھو درد دل سو ہائے
وہ بدگماں کہے ہے کہ ہم کو یقیں نہیں

آتش سی پُھک رہی ہے مرے تن بدن میں آہ
جب سے کہ روبرو وہ رُخ آتشیں نہیں

اُس بن جہان کچھ نظر آتا ہے اور ہی
گویا وہ آسمان نہیں، وہ زمیں نہیں

کیا جانے کیا وہ اس میں ہے لوٹے ہے جسپہ دل
یوں اور کیا جہاں میں کوئی حسیں نہیں

سنتا ہے کون کس سے کہوں درد بے کسی
ہمدم نہیں ہے کوئی مرا ہم نشیں نہیں

ہر چند یہ لطف شب ماہ سیر باغ
اندھیر پر یہی ہے کہ وہ مہ جبیں نہیں

آنکھوں کی راہ نکلے ہے کیا حسرتوں سے جی
وہ روبرو جو اپنے دمِ واپسیں نہیں

طوفانِ گریہ کیا کہیں کس وقت ہم نشیں
موج سر شک، تا فلک ہفتمیں نہیں

حیرت ہے مجکو کیونکہ وہ جرات ہے چین سے
جس بن قرار جی کو ہمارے کہیں نہیں

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


امشب کسی کاکل کی حکایات ہے واللہ
کیا رات ہے، کیا رات ہے، کیا رات ہے واللہ

دل چھین لیا اس نے کہا دستِ حنائی
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ

عالم ہے جوانی کا جو اُبھرا ہوا سینہ
کیا گات ہے، کیا گات ہے، کیا گات ہے واللہ

دشنام کا پایا جو مزہ اس کے لبوں سے
صلٰوت ہے، صلٰوت ہے، صلٰوت ہے واللہ

جراءتؔ کی غزل جس نے سُنی اس نے کہا واہ
کیا بات ہے، کیا بات ہے، کیا بات ہے واللہ

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​


طرح مشاعرہ کی مستزاد ہے، مصحفی اور سید انشاء نے بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ہر ایک کے حال میں دیکھ کر مقابلہ کرو، انھوں نے سراپا باندھا ہے۔

جادو ہے نگہ، چھب ہے غضب، قہر ہے مکھڑا
اور قد ہے قیامت

غارت گر دیں وہ بت کافر ہے سراپا
اللہ کی قدرت

اٹھکھیلی ہے رفتار میں، گفتار کی کیا بات
ہر بات جگت ہے

اور رنگِ رخ یار ہے گویا کہ بَھبُھوکا
پھر تس پہ ملاحت

ہیں بال یہ بکھرے ہوئے مکھڑے دھواں دھار
جوں دود بہ شعلہ

حُسنِ بُتِ کافر ہے خدائی کا جھمکڑا
ٹک دیکھیو صورت

ابرو فنِ خونریزی میں اس کے ہیں غضب طاق
شمشیر برہنہ

آنکھوں کا یہ عالم ہے کہ آنکھوں سے نہ دیکھا
افسوں ے اشارت

کان ایسے کہ کانوں سے سُنے ویسے نہ ابتک
نے آنکھوں سے دیکھے

بالے کے تصور میں مجھے گھیرے ہے گویا
اک حلقہ حیرت

بینی یہ خوش اسلوب کہ نتھنوں کی پھڑک دیکھ
تڑپے ہے دو عالم

ہے اس کو لب یار کے بوسہ کی تمنا
ارمان ہے حسرت

دانتوں کی صفا کیا کہوں موتی کی لڑی ہے
لب لعل کے ٹکڑے

مِسّی ہے بلا تسپہ رکھے پان کا بیڑا
سو شوخی کی رنگت

دل خون کرے وہ دستِ حنا بستہ پھر اسمیں
سمرن کی پھبن ہائے

ہے وضع تو سادی سی پہ کیا کیا نہیں پیدا
شوخی و شرارت

اس اُبھرے ہوئے گات کی کیا بات جسے دیکھ
سب ہاتھ ملے ہیں

اور ہائے رے ہر بات میں گردن کا وہ ڈورا
ہے دامِ محبت

گلشن میں پھرے ٹک تو وہیں آتشِ گل کی
گرمی سے عرق آئے

ہر گام پہ چلنے میں کمر کھائے ہے لچکا
اللہ رے نزاکت

ہیں قہر سریں گول وہ اور ہائے کہوں کیا
رانوں کی گدازی

فرق اس میں نہیں فرق سے لے تا بہ کفِ پا
ہے طرفہ لطافت

ہے عشوہ و انداز و ادا ناز و کرشمہ
اور گرمی و شوخی

ہر عضو پہ آنکھ اٹکے وہ کافر ہے سراپا
ایک موہنی مورت

بُھولے سے جو ہم نام لیں تو رک کے کہے یوں
اس نام کو کم لو

پھر اس میں جو رک جائیے تو جھٹ سے یہ کہنا
بس دیکھ لی چاہت

جراءت یہ غزل گرچہ کہی ایسی ہے تو نے
ہے خوب سراپا

پر کہہ کے وہ اشعار کر اب اس کو دو غزلہ
ہو جس سے کہ وحشت

جز بےکسی و یاس نہیں ہے کوئی جس جا
ہے اپنی وہ تربت

افسوس کرے کون بجز دستِ تمنا
ہوں کشتہ حیرت

جو میں نے کہا اس سے دکھا مجھ کو رُخ اپنا
بس دے نہ اذّیت

تو کیا کہوں کس شکل سے جھنجھلا کے وہ بولا
تو دیکھے گا صورت

یہ راہ تکی اس کی کہ بس چھا گئی اک بار
آنکھوں میں سپیدی

پیمان گسل آیا نہ وہ دے وعدہ فردا
تا صبح قیامت

سودائے محبت جو نہیں ہے تجھے اے دل
تو پھر مجھے بتلا

کیوں چاک کئے اپنے گریباں کو ہے پھرتا
آنکھوں پہ ہے وحشت

سو بار زباں گرچہ مری کٹ گئی جوں شمع
اور پھر ہوئی پیدا

پر محفل قاتل میں مرے منھ سے نہ نکلا
یک حرف شکایت

اب گھر میں بلانے سے اگر آتی ہیں سو سوچ
بدنام سمجھ کر

آواز ہی تو در پہ مجھے آ کے سُنا جا
ازراہ مروّت

آلودہ ہوا خون سے دلا دامن قاتل
بسمل ہو جو تڑپا

افسوس صد افسوس کہ یہ تو نے کیا کیا؟
اے ننگِ محبت

جو ولولہ شوق سے ہو مضطر وہ بیتاب
نکلا ہی پڑے دل

کیا قہر ہے، کیا ظلم ہے مھبوب گر اس کا
ہو صاحب عصمت

کیا خاک رہیں چین سے بیچینی کے مارے
بس ہے یہ پریکھا

ہم ہو گئے جس کے وہ ہوا ہائے نہ اپنا
کیا کیجیئے قسمت

چپ ان دنوں رہتا ہے جو وہ صورتِ تصویر
کچھ اور ہے خفقان

لگ جائے پھر اس سے مرے کیوں دل کو نہ دھڑکن
ہے موجب حیرت

دل دے کے عجب ہم تو مصیبت میں پھنسے ہیں
اک پردہ نشین کو

نے جانے کا گھر اس کے ہے مقدور ہمارا
نے رہنے کی طاقت

یا مجھ کو بلاتا تھا وہ یا آئے تھا مجھ پاس
صحبت کی تھی گرمی

اب اس کو خدا جانے دیا کس نے یہ بھڑکا
جو ایسی ہے نفرت

لے نام مرا کوئی تو دے سینکڑوں دشنام
گِن گِن کے وہ قاتل

بے رحمی و بے دردی سے پروا ہو نہ اصلا
سُن مرگ کی حالت

آنا مرا سُن در پہ کہیں گھر سے چلا جائے
دیکھوں تو نہ دیکھے

اور کوئی سفارش جو کرے میری تو کیا کیا
کھینچے وہ ندامت

گر خواب میں دیکھے مجھے تو چونک اتھے اور
پھر موندے نہ آنکھیں

آواز جو میری سی سُنے تو وہیں گھبرا
کھانے لگے دہشت

افسوس کہ گردوں نے عجب رنگ دکھایا
نقشہ ہی وہ بدلا

لے جان مری! خانہ تن سے تو نِکل جا
ہو جائے فراغت

کس منھ سے کروں عشوہ گری اسکی بیاں میں
اللہ رےادائیں

مل بیٹھے ہیں ہم اور وہ قسمت سے جو یا جا
طرفہ ہوئی صحبت

بیتاب ہو لگ چلنے کا جو میں کیا عزم
دے بیٹھے وہ گالی

کچھ اور کیا قصد تو ناز سے بولا
بل بے تری جراتؔ

اجل گر اپنی خیال جمال یار میں آئے
تو پھر بجائے فرشتہ پری مزار میں آئے

بھلا پھر اسکے اٹھانے میں کیوں نہ دیر لگے
کسی کی موت کسی کے جو انتظار میں آئے

بیک کرشمہ جو بے اختیار کر ڈالے
وہ عشوہ ساز کسی کے کب اختیار میں آئے

پس از فنا جو ترے دل جلے کی خاک اڑے
تو مضطرب سا دھواں اک نظر غیار میں آئے

خراب کیونکہ نہ ہو شہر دل کی آبادی
ہمیشہ لوٹنے والے ہی اس دیار میں آئے

فغاں پھر اس کی ہو لبریز یاس کیونکہ نہ آہ
بہ زیر دام جو مرغِ چمن بہار میں آئے

بلائیں لے لے جو ہونے لگوں نثار تو بس
کہے ہے ہنس کے وہ ایسے جی اب پیار میں آئے

نہ پوچھ مجھ سے وہ عالم کہ صبح نیند سے اُٹھ
جب انکھڑیوں کو وہ ملتے ہوئے خمار میں آئے

نہ کیونکہ حد سے فزوں تر ہو رتبہ گریا
کہ اب تو حضرتِ دل چشم اشکبار میں آئے

ٹلیں نہ واں سے اگر ہم کو گالیاں لاکھوں
وہ دینے غیرتِ گل ایک کیا ہزار میں آئے۔

مگر نہ کہیے کہ مضطر ہو تو نہ کیونکہ بھلا
وہ دوڑ دوڑ تمھارے نہ رہگزار میں آئے

اٹھے جہان سے جراءت اٹھا کے درد فراق
الہٰی موت بھی آئے تو وصل یار میں آئے
(کس دھوم دھام کی غزل تھی مگر "آئے" کہیں واحد ہے کہیں جمع ہو گیا ہے۔)

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
چنپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا

بات ہی اول تو وہ کرتا نہیں مجھ سے کبھی
اور جو بولے بھی ہے کچھ منھ سے تو شرمایا ہوا

جا کے پھر آؤں نہ جاؤں اس گلی میں دوڑ دوڑ
پر کروں کیا میں نہیں پھرتا ہے دل آیا ہوا

بے سبب جو مجھ سے ہے وہ شعلہ خو سر گرم جنگ
میں تو ہوں حیراں کہ یہ کس کا ہے بھڑکایا ہوا

وہ کرے عزم سفر تو کیجیئے دنیا سے کوچ
ہے ارادہ دل میں مُدّت سے یہ ٹھہرایا ہوا

نوکِ مژگاں پر دل مژمردہ ہے یوں سرنگوں
شاخ پر جھک آے ہے جوں پھول مرجھایا ہوا

جاؤں جاؤں کیا لگایا ہے اجی بیٹھے رہو
ہوں میں اپنی زیست سے آگے ہی اکتایا ہوا

تیری دُوری سے یہ حالت ہو گئی اپنی کہ آہ
عنقریب مرگ ہر ایک اپنا ہمسایا ہوا

کیا کہیں اب عشق کیا کیا ہم سے کرتا ہے سلوک
دل پہ بیتابی کا اک پُتلا ہے بٹھلایا ہوا

ہے قلق سے دل کی یہ حالت مری اب تو کہ میں
چار سو پھرتا ہوں اپنے گھر میں گھبرایا ہوا

حکم بارِ مجلس اب جرات کو بھی ہو جائے جی
یہ بچارا کب سے دروازہ پہ ہے آیا ہوا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


نہ جواب لے کے قاصد جو پھر اشتاب اُلٹا
میں زمیں پہ ہاتھ مارا بصد اضطراب اُلٹا

دمِ وصل اس نے رخ سے جو نہ ٹک نقاب اُلٹا
ہمیں لگ گیا دم اُسدم بصد اضطراب اُلٹا

ترے دَور میں ہو میکش کوئی کیا فلک کہ تیری
وہ ہے شکل جوں دھرا ہو قدح شراب اُلٹا

یہ وفا کی میں نے تسپر مجھے کہتے بے وفا ہو
مری بندگی ہے صاحب یہ ملا خطاب اُلٹا

مرے بخت ہیں وہ روکش کہ وہ دے جو وعدہ شب
تو پہنچ کے تا بہ مغرب پھرے آفتاب اُلٹا

کسی نسخہ میں پڑھے تھا وہ مقام دل نوازی
مجھے آتے جو ہی دیکھا ورقِ کتاب اُلٹا

وہ بہا کے کاسہ سر میرے خوں مین شکل کشی
کہے ہے کہ دیکھو نِکلا یہ موا حباب اُلٹا

مرے دل نے داغ کھایا جو یہ بوئے سوختہ سے
یہ جلا بس ایک پہلو نہ کیا کباب اُلٹا

غزل اور پڑھ تو جراءتؔ کہ گیا جو یاں سے گھر کو
تو کلام سُنتے تیرا میں پھرا شتاب اُلٹا

میں تڑپ کے سنگِ تربت بصد اضطراب اُلٹا
مری قبر پر وہ آ کر جو پھرا شتاب اُلٹا

مرے سو سوال سنکر وہ رہا خموش بیٹھا
نہیں یہ بھی کہنے کی جا کہ ملا جواب اُلٹا

جو رکھے ہے بخت واژوں وہ ٹنی سے مل ہو مفلس
کہ رہے یہ آب دریا قدح حباب اُلٹا

شب وصل یہ قلق تھا پہ وہ سو گیا تو منھ سے
نہ ذرہ بھی میں (*) دوپٹہ زرہِ حجاب اُلٹا
(* دیکھو یہاں بھی علامتِ فاعلیت ہے محذوف ہے اور یہ پرانا جوہر ہے۔)

ہمیں ہے خیال اسکا کہ جو آیا خواب میں وہ
تو زباں پہ اسکی ڈر سے نہ وہ ہمنے خواب اُلٹا

اسی در تک آؤنگا میں کہ نہیں ہے دل کہے میں
پجھے پھیرتے عبث ہو زرہِ عتاب اُلٹا

طلب اس سے کل جو مے کی تو بھرا ہوا زمن پر
مجھے شوخ نے دکھا کر قدحِ شراب اُلٹا

جو کنار مقصد اپنی لگے بہہ کے ناؤ گاہے
تو ہوا تھپڑ مارے لگے بہنے آب اُلٹا

کسی تذکرہ میں پڑھنے مرے شعر جو لگا وہ
تو ہوا نے ودں ہی جراءتؔ ورق کتاب اُلٹا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


اس ڈھب سے کیا کیجیئے ملاقات کہیں اور
دن کو تو ملو ہم سے رہو رات کہیں اور

کیا بات کوئی اس بُتِ عیّار کی سمجھے
بولے ہے جو ہم سے تو اشارات کہیں اور

اس ابر میں پاؤں میں کہاں دختر رز کو
رہتی ہے مدام ابتو وہ بدذات کہیں اور

جس رنگ مری چشم سے برے ہے پڑا خوں
اس رنگ کی دیکھی نہیں برسات کہیں اور

گھر اُس کو بلا نذر کیا دل تو وہ جراءتؔ
بولا کہ یہ بس کیجئے مدارات کہیں اور

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


جب یہ سنتے ہیں کہ ہمسایہ میں آپ آئے ہوئے
کیا در و بام پہ ہم پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے

آپ سے میں تو نہ جاؤں پر کروں کیا کہ وہیں
دل بیتاب لئے جائے ہے دوڑائے ہوئے

گھر میں بے یار ہے شکل اپنی یہ دل کے ہمراہ
دہ گنہگار ہوں جوں قید میں بٹھلائے ہوئے

آئے جب دست بقبضہ ہو تو پھر دیر ہے کیا
سر تسلیم کو ہم بیٹھے ہیں نہڑائے ہوئے

آج بھی اس کے جو آنے کہ نہ ٹھہری تو بس آہ
ہم وہ کر بیٹھیں گے جو دلمیں ہیں ٹھہرائے ہوئے

پیرہن چاک ترے در پہ جو کل کرتا تھا
آج لوگ اس کو لئے جاتے ہیں کفنائے ہوئے

مُردنی بھر گئی منھ پر مرے جن کی خاطر
رنگ و رو کیا وہ پڑے پھرتے ہیں چمکائے ہوئے

ابر تصویر کی مانند ہم اس محفل میں
رد نہیں سکتے پہ آنکھوں میں ہیں اشک آئے ہوئے

لوگ گر ہم سے یہ کہتے ہیں کہ چلتے ہو جی واں
اپنے بیگانے سب اس بزم میں ہیں آئے ہوئے

دل میں تب سوچ کے اس بات کو رو دیتے ہیں
کیا کہیں اُن سے کہ ہیں ہم تو نکلوائے ہوئے

کر کے موزوں انھیں جراءتؔ غزل اک اور بھی پڑھ
دل میں جو تازہ مضامین ہوں ٹھہرائے ہوئے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


خوف کچھ کھاتے ہی بیدار ہم اے وائے ہوئے
شب کو تم خواب میں پھر آئے تو گھبرائے ہوئے

بے خودی پر نہ ہماری متحیر ہو کوئی
آئیں کیا آپ میں جی ہم ہیں کہیں آئے ہوئے

رنگ اور اسمیں نظر آئے ہے کچھ حضرتِ دل
اشک سُرخ آنکھوں میں پھرتے ہو چمکائے ہوئے

رشک کی جا ہے غرض شہر خموشاں بھی کہ واں
سوتے کیا چین سے ہم پاؤں کو پھیلائے ہوئے

دیکھو شوخی کہ کوچے میں دِل عاشق کو
کیسی اٹکھیلی سے جاتا ہے وہ ٹھکرائے ہوئے

جوشِ وحشت سے گریبان کو کر چاک ہم آہ
سُرخ آنکھیں کئے کیا بیٹھے ہیں جھنجھلائے ہوئے

جام دیتے نہیں مجھ کو جو دمِ بادہ کشی
یہ تو فرماؤ کہ تم کس کے ہو بہکائے ہوئے

حسرت اے ہم نفساں سیر چمن مفت گئی
نخل بستاں سے قفس ہیں کئی لٹکائے ہوئے

دور چھوڑا ہمیں گلشن سے یہ رونے کی ہے جا
کہ سزاوارِ اسیری بھی نہ ہم ہائے ہوئے

دم رخصت کہے جراءتؔ کوئی اس کافر سے
اک مسلمان کو کیوں جاتے ہو تڑپائے ہوئے