آب حیات/میر حسن

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

حسن تخلص میر غلام حسن نام خاص دہلوی تھے۔ پرانی دلّی میں سّید واڑہ ایک محلہ تھا، وہاں پیدا ہوئے تھے۔ عالم شباب میں والد کے ساتھ فیض آباد (پلے فیض آباد حاکم نشین شہر تھا۔ لکھنؤ ایک قصبہ تھا۔ آصف الدولہ مرحوم کو اسکے آباد کرنیکا شوق ہوا۔ زیادہ تر یہاں رہنے لگے۔ ان کے سبب سے امراء کو بھی یہاں رہنا پڑا۔ اور عمارات کا تعمیر کرنا واجب ہوا۔ مگر دو گھرے تھے ایک قدم یہاں رہتا تھااور ایک قدم وہاں۔) گئے۔اور نواب سرفراز جنگ خلف نواب سالار جنگ کی سرکار میں ملازم ہوئے۔ کچھ مُدت مقام مذکور میں رہے۔ پھر لکھنؤ میں آ گئے۔ خندہ جبیں، شگفتہ مزاج ظریف طبع تھے اور اس میں تہذیب و شائستگی کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، میانہ قد، خوش اندام، گورا رنگ، جملہ قوانین شرافت اور آئین خاندان میں اپنے والد کے پابند تھے، اتنا تھا کہ ڈاڑھی منڈاتے تھے۔ اللہ اللہ عہد جوانی بھی ایک عالم رکھتا ہے۔ مصرعہ :

جوانی کجائی کہ یادت بخیر​

سر پر بانکی ٹوپی، تن میں تن زیب کا انگرکھا، پھنسی ہوئی آستینیں، کمر سے دوپٹہ بندھا :

رہے اک بانکپن بھی بے دماغی میں تو زیبا ہے ​ بڑھا دو چین ابرو پر ادائے کج کلاہی کا

جب تک دلّی میں رہے، پہلے اپنے والد سے پھر خواجہ میر درد سے اصلاح لیتے رہے، اودھ میں جا کر میر ضیاء الدین ضیاؔ کے شاگرد ہوئے۔ اور مرزا رفیع سودا کو بھی غزل دکھائی، لکھنؤ میں آ کر ان کے کلام نے شہرت کا رنگ اڑایا۔ اِن کے اشعار غزل کے اصول میں گلاب کے پھول ہیں اور محاورات کی خوش بیانی مضامین عاشقانہ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے۔ میر سوزؔ کا انداز بہت ملتا ہے۔ اہل تذکرہ کہتے ہیں کہ قصیدہ اس رتبہ پر نہ تھا اور کچھ اس کا تعجب نہیں، کیوں کہ دونوں کوچوں میں مسافت بعید کا فاصلہ ہے۔

حقیقت میں سحر البیان بے نظیر اور بدر منیر کا قصہ بے نظیر لکھا اور اس مثنوی کا نام سحر البیان رکھا ہے۔ زمانہ نے اس کی سحر البیانی پر تمام شعراء اور تذکرہ نویسوں سے محضر شہادت لکھوایا۔ اس کی صفائی بیان اور لطافت محاورہ اور شوخی مضمون طرز ادا اور ادا کی نزاکت اور جواب سوال کی نوک جھونک حدِ توصیف سے باہر ہے۔ اسکی فصاحت کے کانوں میں قدرت نے کیسی سناوٹ رکھی تھی کہ اُسے سو برس آگے والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں؟ کہ جو کچھ اس وقت کہا صاف وہی محاورا اور وہی گفتگو ہے، جو آج ہین تم بول رہے ہیں۔ اس عہد کے شعراء کا کلام دیکھو! ہر صفحہ میں بہت سے الفاظ اور ترکیبیں ایسی ہیں کہ آج متروک اور مکروہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس کا کلام (سوا چند الفاظ کے) جیسا جب تھا، ویسا ہی آج دلپذیر و دل کش ہے۔ کہا کہتا ہوں؟ آج کس کا منھ ہے جو ان خوبیوں کے ساتھ پانچ شعر بھی موزوں کر سکے، خصوصاً ضرب المثل، کہاوت، کو اس خوبصورتی سے شعر میں مسلسل کر جاتے ہیں کہ زبان چٹخارے بھرتی ہے اور نہیں کہہ سکتی کہ کیا میوہ ہے۔ عالم سخن کے جگت گرد مرزا رفیع سودا اور شاعروں کے سرتاج میر تقی میر نے بھی کئی کئی مثنویاں لکھیں۔ فصاحت کے کتب خانہ میں اس کی الماری پر جگہ نہ پائی۔ کتاب مذکور ہر گھر ہر دوکان بلکہ اس کے اشعار ہر زبان پر جاری ہیں، اس لئے یہاں درج کرنے کی ضرورت نہیں۔

ہمارے ملک سخن میں سیکڑوں مثنویاں لکھی گئیں۔ مگر ان میں فقط دو نسخے ایسے نکلے جنھوں نے طبیعت کی موافقت سے قبول عام کی سند پائی۔ ایک سحر البیان دوسرے گلزار نسیم اور تعجب یہ کے دونوں کے رستے بالکل الگ ہیں۔ اس واسطے آزاد کو واجب ہے کہ کچھ لکھے اور اہل سخن سے اپنی رائے کی صحت و سقم کا حال پوچھے۔ مثنوی حقیقت میں ایک سرگذشت یا بیان ماجرا ہے جسے تاریخ کا شعبہ سمجھنا چاہیے، اس واسطے اس کے اصول میں لکھا ہے کہ چاہیے نہایت سلیس گفتگو میں ہو جس طرح ہم تم باتیں کرتے ہیں۔

میر حسن مرحوم نے اُسے لکھا اور ایسی صاف زبان فصیح محاورے اور میٹھی گفتگو میں، اور اس کیفیت کے ساتھ ادا کیا، جیسے آبِ رواں اصل واقعہ کا نقشہ آنکھوں میں کھنچ گیا۔ اور اُن ہی باتوں کی آوازیں کانوں میں آنے لگیں، جو اس وقت وہاں ہو رہی تھیں، باوجود اس کے اُصول فن سے بال بھر اِدھر یا اُدھر نہ گرے قبول عام نے اسے ہاتھوں میں لیکر آنکھوں پر رکھا اور آنکھوں نے دل و زبان کے حوالے کیا۔ اس نے خواص اہل سخن کی تعریف پر قناعت نہ کی بلکہ عوام جو حروف تہجی بھی نہ پہچانتے تھے وظیفوں کی طرح حفظ کرنے لگے۔ ارباب نشاط نے محفلوں میں اسکی نغمہ سرائی کر کے لوگوں کو لٹایا اور رُلایا۔

پنڈت دیا شنکر نے گلزار نسیم لکھی۔ اور بہت خوب لکھی۔ اس کا رستہ اس سے بالکل الگ تھا۔ کیونکہ پنڈت صاحب نے ہر مضمون کو تشبیہ کے پردہ اور استعارہ کے پیچ میں ادا کیا۔ اور وہ ادا معشوقانہ خود ادائی نظر آئی۔ اس کے پیچ وہی بانکپن کی ٹرو رہیں۔ جو پری زادیں بانکا دوپٹا اوڑھ کر دکھاتی ہیں اور اکثر مطالب کو بھی اشاروں اور کنایوں کے رنگ میں دکھایا۔ باوجود اس کے زبان فصیح، کلام شستہ اور پاک ہے۔ اختصار بھی اس مثنوی کا ایک خاص وصف ہے جس کا ذکر کرنا واجب ہے۔ کیونکہ ہر معاملہ کو اس قدر مختصر کر کے ادا کیا ہے جس سے زیادہ ہو نہیں سکتا اور ایک شعر بیچ میں سے نکال لو، داستان برہم ہو جاتی ہے۔ ان باتوں کے لحاظ سے واجب تھا کہ کتاب خاص پسند ہوتی، باوجود اس کے عام و خاص سب میں شہرت پائی۔ اس کے نکتوں اور باریکیوں کو سمجھیں یا نہ سمجھیں، مگر سب لیتے ہیں اور پڑھتے ہیں، جتنی سمجھ میں آتی ہے، اسی پر خوش ہوتے ہیں اور لوٹے جاتے ہیں۔ مثنوی مذکور جب پہلے انھوں نے لکھی تو بہت بڑی تھی۔ خواجہ آتش اپنے استاد کے پاس اصلاح کو لے گئے۔ انھوں نے کہا، بھیا اتنی بڑی کتاب کو دیکھے گا کون؟ وہ اپنا وہ یک کا قانون یہاں بھی جاری کرو (اس کنایہ میں اشارہ تھا کہ پنڈت صاحب فوج شاہی میں منشی تھے۔ اور بموجب حکومت کے سب کی تنخواہوں میں سے وہ یکی کاٹ لیتے تھے۔ گھر گھر میں اس شکایت کا چرچا تھا۔ یہ مثنوی مذکور لے گئے اور اختصار کیا تو ایسا نچوڑا کہ عطر نکال لیا۔) ای موقع پر میرننؔ مرحوم کا سفر شاہ مدار کی چھڑیوں کے ساتھ مطابق پڑا۔ چنانچہ سفر مذکعر کا حال ایک مثنوی کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس میں فیض آباد کی تعریف اور لکھنؤ کی ہجو کی ہے۔ (فی الحقیقت اس وقت لکھنؤ ایسی ہی حالت میں تھا۔) اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس عورتوں کی پوشاک وہاں کیا تھی اور چھڑیوں کے اور جانے والوں کی جزئیات رسوم کیا کیا تھے۔ میں نے یہ مثنوی دلّی کی تباہی سے پہلے دیکھی تھی، اب نہیں ملتی۔ لوگ بہت تعریف لکھتے ہیں۔ مگر حق یہ ہے کہ بدر منیر کو نہیں پہنچتی۔ تیسری مثنوی اور بھی تھی مگر مشہور نہ ہوئی۔

دیوان اب نہیں ملتا۔ حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ انواع سخن سے لبریز ہے۔ صاحب گلزار ابراہیمی ۱۱۹۶ھ میں کہتے ہیں کہ سیّد صاحب موصوف نے کلام مجھے بھیجا ہے اور جو خط لکھا ہے، اس کی اصل عبارت یہ ہے۔ "از سائر اقسام اشعار ابیات مّدد نہ من ہشت ہزار بیت است تذکرہ و ریختہ ہم نوشتہ و اصلاح سخن از میر صبا گرفتہ ام۔ مُد تسیت کہ از دہلی دارد لکھنؤ گشتہ بانواب سالار جنگ و خلف ایشاں ملقب بہ نوازش علیخاں سرفراز جنگ بہادر میگذراتم۔" افسوس خدا نے رشید اولاد دی۔ مگر کسی نے اپنے بزرگ کے نام کو روشن کرنے کا خیال نہ کیا۔ اس کے کئی سبب ہوئے۔ بیٹوں کو نہ زمانے نے وسعت دی، نہ حصول ثواب نے فرصت دی۔ اور اس وقت چھاپہ بھی کلکتہ سے اس طرف نہ آیا تھا۔ پوتے میر انیسؔ وغیرہ ہوئے، انھیں ان کے پاک اعتقاد اور حسنِ نیّت نے مبارک زمانہ دیا اور زمانے نے ایسے بلند درجہ پر بٹھایا، جہاں سے دادا کا کمال بہت چھوٹا نظر آیا۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ہمارا ذاتی کمال دادا کی شہرت اور تعریف سے بے نیاز ہے۔ یہ سب درست لیکن موجودہ نسل چند روز کے بعد، اور آئندہ نسلیں مدت تک افسوس کریں گی۔ زمانہ بدل گیا اور بدلتا جاتا ہے۔ وقت تو گیا، پھر یہ وقت بھی نہ پائیں گے۔ آج یہ نوبت ہے کہ پانچ غزلیں تھی پوری نہ ملیں، جو اس کتاب میں درج کرتا۔ خلاصہ کلام کا یہ کہ ۱۳۰۰ھ اول محرم کو دار فانی سے رحلت کی۔ مفتی گنج میں نواب قاسم علی خاں کے باغ کے پچھواڑے دفن ہوئے۔ عمر کا حال نہ کھلا۔ لکھتے ہیں کہ ۵۰ برس سے زیادہ عمر پائی۔ دو صاحبزادوں نے نام پایا۔ میر خلیقؔ۔ میر خلقؔ۔ شیخ مصحفی نے تاریخ کہہ کر حق آشنائی ادا کیا۔

چوں حسن آں بلبل خوش داستاں
روز ازیں گلزارِ رنگ و بو بتافت

بسکہ شیریں بود نطقش مصحفی
شاعرِ شیریں بیاں تاریخ یافت
۱۴۱۱ ھ

غزل

جو چاہے آپ کو تو اُسے کیا نہ چاہیے
انصاف کر تو چاہیے پھر یا نہ چاہیے

مجھ ایسا تجھ کو چاہے نہ چاہے عجب نہیں
تجھ سا جو چاہے مجھ کو تو پھر کیا نہ چاہیے

کس کو سنا کے کہتے ہو میں چاہتا نہیں
اب کیوں جی ہم برے ہوئے اچھا نہ چاہیے

گر پاس تیرے بیٹھوں تو معذور رکھ مجھے
جس جا پہ شمع ہوئے تو پروانہ چاہیے

عیش و وصال و صحبت یاراں فراغ دل
اِسی ایک جان کے لئے کیا کیا نہ چاہیے

دیتے ہو تم دکھائی جو ہمراہ غیر کے
اس طرح سے غرض تمھیں دیکھا نہ چاہیے

اب جیسے اک حسنؔ سے ہنسے تھے تو ہنس لئے
پر اس طرح ہر ایک سے ٹھٹھا نہ چاہیے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*


یہ طرفہ ترکہ تیرے سنبھلتی نہیں زباں
اور تیرے سامنے مری چلتی نہیں زباں

میرا تو دل جلا تری باتوں سے شمع رُو
تو بھی تو دیکھ کیا تری چلتی نہیں زباں

کل عہد کچھ کیا تھا، دیا قول آج کچھ
پھر کہیو تو کہ میری بدلتی نہیں زباں

سرگرم سوزِ عشق رہے ہے یہ مثل شمع
تن گھل گیا ہے اور پگھلتی نہیں زباں

سو سو طرح سے کرتا ہوں تقریر میں حسنؔ
عہدہ سے حال دل کے نکلتی نہیں زباں

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


وہ جب تک کہ زلفیں سنورا کیا
کھڑا اس پہ میں جان وارا کیا

ابھی دل کو لے کر گیا میرے آہ
وہ چلتا رہا میں پکارا کیا

قمارِ محبت میں بازی سدا
وہ جیتا کیا اور میں ہارا کیا

کیا قتل اور جان بخشی بھی کی
حسن اس نے احسان دوبارا کیا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*