آب حیات/سید انشاء اللہ خاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

انشاءؔؔ تخلص سید انشاء اللہ خاں نام، بیٹے حکیم میر ماشاء اللہ خاں کے تھے۔ اگرچہ خاندان کے اعتبار سے بھی نامی گرامی شخص تھے، مگر ان کی اپنی ناموری نے باپ کے نام کو بلکہ تمام خاندان کو نئی شہرت سے جلوہ دیا۔ (مصدر تخلص کرتے تھے۔ مصدر اور انشاء کی مناسبت قدرتی واقع ہوئی۔ مصدر بدیہہ گوئی میں مشہور تھے۔ ایک شعر ان کا بھی یاد رکھنا چاہیے۔

خدا کرے کہ مِرا مجھ سے مہرباں نہ پھرے

جہاں پھرے تو پھرے پر وہ جانِ جان نہ پھرے​

اخلاق، مروت، سخاوت میں آشنا و بیگانہ کے ساتھ برابر تھے۔ امیر الامراء نواب ذوالفقار خاں کے عہد میں دلّی آئے تھے۔ اس وقت سامان امارت کے ساتھ دو ہاتھی بھی تھے۔ مرشد آباد میں نواب سراج الدولہ کی رفاقت میں تھے تو ۱۸ ہاتھی دروازے پر جھومتے تھے۔ سید انشاء وہیں پیدا ہوئے تھے۔) بزرگ ان کے نجف اشرف سے آئے تھے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ خطہ کشمیر کے سادات صحیح النسب سے ہیں۔ وہ کسی زمانہ میں سمرقند سے آئے تھے۔ پھر دلی میں آ کر رفتہ رفتہ امرائے شاہی میں داخل ہوئے۔ اور بعض ان میں طبل و نقارہ سے بلند آواز ہوئے۔ بموجب پیشہ خاندانی کے میر ماشاء اللہ خاں دربار شاہی میں طبیب تھے۔ اور زمرہ امراء میں داخل تھے۔ ان کے خاندان کی خوبیوں اور گھر کے چال چلن کو دلی اور لکھنؤ کے شرفاء سب مانتے تھے۔ ادنی نمونہ یہ ہے کہ ان کی عورتوں کے پوشاک گھر میں دھلتے تھے۔ یا جلا دیتے تھے کہ نامحرم کے ہاتھ میں عورتوں کا لباس نہ جائے۔

غرض سلطنت چغتائیہ کے صنف میں میر ماشاء اللہ خاں کو مرشد آباد جانا پڑا۔ وہاں بھی اعزاز و اکرام سے رہے اور جس طرح اگلے وقتوں میں خاندانی امیر زادے تعلیم پاتے تھے، اسی طرح سید انشاء کو سب ضروری علوم و فنون سے ماہر کیا۔ باپ کے لیے مثال دے سکتے ہیں، کہ عزیز بیٹے کو اس خوبصورتی سے تعلیم کیا مگر جو جوہر دار طبیعت اپنے ساتھ لایا تھا، اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔ سبب یہ ہونہار نونہال تعلم کے چمن سے نکلا تو ہر ریشہ میں کونپل، پتے، پھول پھل کی قوائے مختلفہ موجود تھیں۔ اس طرح کہ جس زمین پر لگے وہیں کی آب و ہوا کے بموجب بہار دکھلانے لگے۔ ایسا طباع اور عالی دماغ آدمی ہندوستان میں کم پیدا ہو گا۔ وہ اگر علوم میں سے کسی ایک فن کی طرف متوجہ ہوتے تو صدہا سال تک وحید عصر گنے جاتے۔ طبیعت ایک ہیولے تھی کہ ہر قسم کی صورت پکڑ سکتی تھی۔ باوجود اس کے شوخی (لڑکپن میں طالب علمی کرتے تھے مگر ساتھ ہی گانے کا بھی شوق تھا۔ کافیہ حفظ کرتے تھے اور ستار خوب بجاتے تھے۔ انکَلِمتہُ لَفظُ کَلِمتہ لَفظُ وضع لمعنی مفردادوُ) اس قدر کہ سیماب کی طرح ایک جا قرار ہ تھا چنانچہ کلیات ان سب مراتب کے لیے محضر شہادت ہے۔ ان کی طبیعت جو شیر کی طرح کسی کا جھوٹا شکار نہ کھاتی تھی، پیشہ آبائی پر مائل نہ ہوئی۔ لیکن چونکہ ایسے رنگا رنگ خیالات کا سوائے شاعری کے اور جن میں گذارہ نہیں، اس لئے شاعری کی طرف جھکے جس سے انھیں ربط خداداد تھا، اس کوچہ میں بھی اپنا راستہ سب سے جُدا نکال کر داخل ہوئے۔

انھوں نے کسی سے اصلاح نہیں لی۔ والد کو ابتدا میں کلام دکھایا۔ حق یہ ہے کہ شعر شاعری کا کوچہ جہاں سے نرالا ہے۔ جو لوگ ذہن کے بھدے ہیں ان کے لئے تو استاد کی محنت ہی برباد ہے۔ مگر یاد رہے کہ جس قدر مبتدی زیادہ تیز و طباع ہو اتنا ہی زیادہ استاد کا محتاج ہے جیسے ہونہار بچھیرا کہ اچھے چابک سوار کے کوڑے تلے نکلتا ہے۔ جب ہی جوہر نکلتا ہے۔ نہیں تو بے ڈھنگے ہاتھ پاؤں مارتا ہے بلکہ بد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تیز اور نوجوان طبیعت زبردست استاد کے قلم کے نیچے نہ نکلے تو گمراہ ہو جاتی ہے۔ چنانچہ پرکھنے والوں نے عرفی کے کلام میں یہی کھوٹ نکالی ہے۔ الغرض جب ہندوستان میں تباہی عام ہوئی تو سید انشاء مرشد آباد سے دلّی آئے۔ اس دلّی کا دربار ایک ٹوٹی پھوٹی درگاہ اور سجادہ نشین اس کے شاہ عالم بادشاہ تھے۔ شاہ موصوف نے کہ خود بھی شاعر تھے خواہ قدردانی شاعرانہ سے خواہ اس نظر شفقت سے جو بادشاہوں کو اپنے خانہ زادوں سے چاہیے (اور یہ خاندان تیموریہ کا خاصہ تھا) اِس نوجوان پر خلعت عزّت کے ساتھ شفقت کا دامن اڑھایا، سیّد انشاء اہل دربار میں داخل ہوئے، چنانچہ اپنے اشعار کے ساتھ لطائف و ظرائف سے کہ ایک چمن زعفران تھا، گل افشانی کر کے محفل کو لٹا لٹا دیتے تھے اور یہ عالم ہوا کہ شاہ عالم کو ایکدم کی جدائی ان کی ناگوار ہو گئی۔

دلّی میں اس وقت سوداؔ اور میرؔ جیسے لوگ نہ تھے۔ مگر بڈھے بڈھے شوقین تھے کہ ان ہی بزرگوں کے نام لینے والے تھے۔ مثلاً حکیم ثناء اللہ خاں فراقؔ شاگرد میر دردؔ، حکیم قدرت اللہ خاں قاسم شاگرد خواجہ میر درد، شاہ ہدایت میاں شکیبا شاگرد میرؔ، مرزا عظیم بیت شاگرد سودا، میر قمر الدین منّت والد میر ممنون سونی پت، شیخ ولی اللہ محب (سودا کے شاگرد تھے اقسام سخن سے دیوان آراستہ کیا تھا۔ مرزا سلیمان شکوہ کی غزل بنایا کرتے تھے، وہ لکھنؤ گئے تو چند روز بعد یہ بھی گئے اور وہیں دُنیا سے گئے۔)وغیرہ حضرات تھے کہ دربار شاہی سے خاندانی اعزاز رکھتے تھے۔ اور خاص و عام انھیں چشم ادب سے دیکھتے تھے۔ اگرچہ یہ لوگ نوشت و خواند میں پختہ اور بعض ان میں سے اپنے اپنے فن میں بھی کامل ہوں، مگروہ جامعیت کہاں، اور جامعیت بھی ہو تو وہ بے چارے بڈھے پراتم پرانی لکیروں کے فقیر، یہ طبیعت کی شوخی، زبان کی طراری، تراشوں کی نئی پھبن، ایجادوں کا بانکپن کہاں سے لائیں، غرض رشک تلامیذحمانی کا خاصہ ہے یا غریب الوطن نوجوان کو بے رفیق و بے یار سمجھ کر کہن سال کا مشاقوں نے کچھ تعریفیں کیں، یا یہ کہ مشاعرہ میں اس بلند نظر کے حسب دلخواہ اس کلام کی عزت نہ ہوئی بہت حال سید انشاؔ کو شبہ ہوا کہ میری مخالفت پر سب دلی والے موافق ہو گئے۔

اگرچہ یہ بزرگ بھی پرانے مشاق تھے۔ مگر وہ نوجوان شہباز جس کے سینہ میں علوم و فنون کے زور بھرے تھے، طراری اور براقی کے بازو اڑائے لئے جاتے تھے۔ کسی کو خاطر میں کب لاتا تھا۔ خدا جانے طرفین نے زبان سے کیا کچھ کہا ہو گا۔ مگر غزلوں کے مقطع میں فخریہ چشمکیں ہونے لگیں اور ساتھ ہی نکتہ چینی کی عینکیں لگ گئیں۔ ان میں مرزا عظیم بیگ تھے کہ سودا کے دعوی شاگردی اور پرانی مشق کے گھمنڈ نے ان کا دماغ بہت بلند کر دیا تھا۔ وہ فقط شد بود کا علم رکھتے تھے، مگر اپنے تئیں ہندوستان کا صائب کہتے تھے۔ اور خصوصاً ان معرکوں میں سب سے بڑھ کر قدم مارتے تھے۔ چنانچہ وہ ایک دن میر ماشاء اللہ خاں کے پاس آئے اور غزل سنائی کہ بحر رجز میں تھی، مگر ناواقفیت سےکچھ شعر رمل میں جا پڑے تھے، سید انشاء بھی موجود تھے، تاڑ گئے۔ حد سے زیادہ تعریف کی اور اصرار سے کہا کہ میرزا صاحب اسے آپ مشاعرہ (نواب امین الدولہ معین الملک ناصر جنگ عرف مرزا میڈھو میر تخلص خلف وزیر الممالک نواب شجاع الدولہ چند روز دلّی میں آ کر رہے تھے، اخلاق، مروت، سخاوت میں ایسے تھے جیسا کہ وزیروں کو ہانا چاہیے۔ مشاعرہ میں شعراء اور اکثر امراء و شرفاء کی ضیافت بھی کیا کرتے تھے، ان ہی کے ہاں یہ معرکہ ہوا تھا۔) میں ضرور پڑھیں، مدعی کمال کہ مخز سخن سے بے خبر تھا، اس نے مشاعرہ عام میں غزل پڑھ دی۔ سید انشاء نے وہیں تقطیع کی فرمائش کی۔ اس وقت اس غریب پر جو کچھ گذری سو گذری، مگر سید انشاؔء نے اس کے ساتھ سب کو لے ڈالا اور کوئی دم نہ مارا۔ بلکہ ایک مخمس بھی پڑھا جس کا مطلع یہ ہے۔

گر تو مشاعرہ میں صبا آج کل چلے

کہیو عظیم سے کہ ذرا وہ سنبھل چلے


اتنا بھی حد سے اپنی نہ باہر نکل چلے

پڑھنے کو شب جو یار غزل در غزل چلے


بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے​

اگرچہ مرزا عظیم بیگ نے بھی گھر جا کر اسی مخمس کی طرح میں اپنی بساط بموجب دل کا بخار نکالا، مگر وہ مشت بعد از جنگ تھی۔ چند بند اس کے انتخاباً لکھتا ہوں، کیوں کہ اور بند بہ سبب بے لطفی اور نا درستی کے قابل تحریر بھی نہیں۔ مرزا عظیم بیگ کہتے یں :

وہ فاضل زمانہ ہو تم جامع علوم
تحصیل صرف و نحو سے جنکی مچی ہے دھوم

رمل و ریاضی حکمت و ہیئت جفر نجوم
منطق بیان معانی کہیں سب زمیں کو چوم

تیری زباں کے آگے نہ دہقاں کا ہل چلے

اِک دو غزل کے کہنے سے بن بیٹھے ایسے طاق
دیوان شاعروں کی نظر سے رہے بہ طاق

ناصر علی نظیری کی طاقت ہوئی ہے طاق
ہر چند ابھی نہ آئی ہے فہمید جفت و طاق

ٹنگری تلے سے عرفی و قدسی نکل چلے

تھا روز فکر میں کہ کہوں معنی و مثال
تجنیس و ہم رعایت لفظی و ہم خیال

فرق رجز رمل نہ لیا میں نے گو سنبھال
نادانی کا مرے نہ ہو دانا کو احتمال

گو تم بقدر فکر یہی کر عمل چلے

نزدیک اپنے آپ کو کتنا ہی سمجھو دُسر
پر خوب جانتے ہیں مجھے جو ہیں ذی شعور

وہ بحر کونسی نہیں ہے جس پہ یاں عبور
کب میری شاعری میں پڑے شبہ سے قصور

بن کر قمل (جوں) نکالنے کو تم خلل چلے

موزونی و معانی میں پایا نہ تم نے فرق
تبدیل بحر سے ہوئے بحر خوشی میں غرق

روشن ہے مثل نہر یہ از غرب تابہ شرق
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے​

کم ظرفی سے تمھیں تو یہی آئی ہے اُمنگ
کیجیے نمود و خلق میں اب کرسخن کی جنگ

اپنے تئیں تو بحثنے آتا ہے یار ننگ
اتنا بھی رکھے حوصلہ فوارہ ساں نہ تنگ

چلو ہی بھر جو پانی میں گز بھر اچھل چلے

کیوں جنگ گفتگو کو تم اٹھ دوڑے اس قماش
کرتے جو بھاری پانچہ ہوتا نہ پردہ فاش

پر سمجھیں کب یہ بات جو کندے ہوں ناتراش
تیغ زباں کو میان میں رکھتے تم اپنے کاش

ناحق جو تم ازار سے باہر نکل چلے​

اب سید انشاء کے طائر فخر کی بلند پروازی اور بھی زیادہ ہوئی۔ ہر غزل میں مضامین فخریہ کا جوش ہونے لگا (پھر تومرزا کا یہ عالم ہو گیا کہ حکیم صاحب کے سنائے بغیر مصرع کسی کے سامنے نہ پڑھتے، سناتے وقت کہتے بابا دیوار گوش دارد۔ چپکے چپکے پڑھا کرتے۔) یہاں تک کہا کہ میرا اور ان لوگوں کا کلام ایسا ہے جیسے کلام الہٰی اور مسلمہ کذّاب کا الفیل۔ مالفیل۔

مشاعرہ میں بادشاہ بھی اپنی غزل بھیجا کرتے تھے اور بادشاہوں کا کلام جیسا ہوتا ہے وہ ظاہر ہے۔ سید انشاء نے حضور میں عرض کی کہ فلاں فلاں اشخاص حضور کی غزل پر تمسخر اور مضحکہ کرتے ہیں۔ بادشاہ اگرچہ اُن خانہ زادانِ قدیم پر ہر طرح قدرت رکھتے تھے، مگر اتنا کیا کہ مشاعرہ میں غزل بھیجنی موقوف کر دی۔ یاروں کو بھی خبر لگ گئی۔ نہایت رنج ہوا۔ چنانچہ بعد اس کے جو مشاعرہ ہوا (یہ مشاعرہ ایک خطرناک معرکہ تھا۔ حریفوں نے تیغ و تفنگ اور اسلحہ جنگ سنبھالے تھے۔ بھائی بند اور دوستوں کو ساتھ لیا تھا۔ بعض کو اِدھر اُدھر لگا رکھا تھا۔ اور بزرگانِ دین کی نیازیں مان مان کر مشاعرہ میں گئے تھے۔) تو اس میں کمر باندھ باندھ کر آئے، اور ولی اللہ محب نے یہ قطعہ پڑھا :

مجلس میں چکے چاہیے جھگڑا شعراء کا
ایسے ہی کسی صاحب توقیر کے آگے

یہ بھی کوئی دانش ہے کہ پہنچے یہ قضایا
اکبر تئیں یا شاہ جہانگیر کے آگے​

مرزا عظیم بیگ نے کہا بابا میں نے اپنی عرض حال میں اپنے اُستاد کے ایک شعر پر قناعت کی ہے کہ ابھی تضمین ہو گیا۔

عظیم اب گو ہمیشہ سے ہے یہ شعر کہنا شعار اپنا
طرف ہر ایک سے ہو بحث کرنا نہیں ہے کچھ افتخار اپنا

کئی سکھن باز گھنڈ گو یوں ہو نہ ہو اعتبار اپنا
جنھوں کی نظروں میں ہم سبک ہیں دیا انہی کو وقار اپنا

عجب طرح کی ہوئی فراغت گدھوں پہ ڈالا جو بار اپنا​

دریائے مواج کےآگے گھاس پھوس کی کیا حقیقت تھی۔ سیَّد انشاء غزل فخریہ کہہ کر لائے تھے۔ وہ پڑھی جس کا ہر شعر دلوں پر توپ کے گولہ کا کام کرتا تھا۔

اِک طفلِ دبستاں ہے فلاطوں مرے آگے
کیا منھ ہے ارسطو جو کرے چوں مرے آگے

کیا مال بھلا قصر فریدوں مرے آگے
کانپے ہے پڑا گنبدگردوں مرے آگے

مرغانِ اولی اجنحہ مانند کبوتر!
کرتے ہیں سدا عجز سے غوں غوں مرے آگے

منھ دیکھو تو نقارچی پیلِ فلک بھی
نقارے بجا کر کہے دوں دوں مرے آگے

ہوں وہ جبروتی کہ گردہِ حکماء سب
چڑیوں کی طرح کرتے ہیں چوں چوں مرے آگے

بولے ہے یہی خامہ کہ کس کس کو میں باندھوں
بادل سے چلے آتے ہیں مضموں مرے آگے

مُجرے کو مرے خسرو پرویز ہو حاضر
شیریں بھی کہے آ گے بلا لوں مرے آگے

کیا آ کے ڈراوے مجھے زلفِ شب یلدا
ہے دیو سفید سحری جوں مرے آگے

وہ مارِ فلک کاہکشاں نام ہے جس کا
کیا دخل جو بل کھا کے کرے فوں مرے آگے

بعد ان کے حکیم میر قدرت اللہ خاں قاسمؔ کے سامنے شمع آئی۔ انھوں نے اتنا کہا کہ سید صاحب ذرا الفیل مالفیل کو بھی ملاحظہ فرمائیے۔ میر مشاعرہ (نواب کے اخلاق کا یہ عالم تھا کہ پہلے مسند تکیہ لگا کر جلسہ میں بیٹھا کرتے تھے۔ مرزا عظیم بیگ نے اپنے دوستوں سے کہا کہ ہمیں کیا غرض ہے جو مسند نشینوں کے جلسوں میں جا کر حاشیہ نشین بنیں۔ نواب نے بہت عذر سے کہلا بھینا کہ آپ صاحب تشریف لائیں کچھ مضائقہ نہیں۔ میں بھی احباب کے ساتھ چاندنی پر بیٹھوں گا۔ اس دن سے مسند اُٹھا ڈالی۔ ہر چند اکثر اعزہ و شرفاء نے کہا، ہرگز نہ مانا، سب کے برابر بیٹھے۔) کو خیال ہوا کہ سیَّد انشاء نے ہجو کہی ہو گی۔ مباداشرفاءمیں بے لطفی حد سے بڑھ جائے، اسی وقت اٹھے کہ دونوں میں صلح کروا دی۔ سیّد انشاء نے بھی شرافت خاندانی اور علّوِ حوصلہ کا کام کیا۔ اٹھ کر حکیم صاحب کے گلے لپٹ گئے اور کہا کہ حضرت حکیم صاحب آپ میرے ابن عم اسپر صاحبِ فضل، خاک بدہنم بھلا آپ پر طنز کروں گا۔ البتہ مرزا عظیم بیگ سے شکایت ہے کہ وہ خواہ مخواہ بددماغی کرتے ہیں۔ اور داد دینی تو درکنار شعر پر سر تک نہیں ہلاتے۔ آخر کس برتے پر، غرض کہ سب کی صلح پر خاتمہ ہو گیا۔

دلّی میں اگرچہ بادشاہ اس وقت فقط بادشاہ شطرنج تھا، یہانتک کہ مال و دولت کے ساتھ غلام قادر نقد بصارت تک بھی لے گیا تھا، مگر یہ اپنا مطلب ہزار طرح سے نکال لیتے تھے۔ مثلاً جمعرات کا دن ہوتا تو باتیں کرتے کرتے دفعتہً خاموش ہوتے اور کہتے کہ پیر و مرشد غلام کو اجازت ہے۔ بادشاہ کہتے خیر باشد۔ کہاں؟ کہاں؟ یہ کہتے۔ حضور آج جمعرات ہے۔ غلام بنی کریم جائے۔ شاہ دین و دنیا کا دربار ہے۔ کچھ عرض کرے،شاہ عالم بہ ادب کہتے کہ ہاں بھئی ضرور جانا چاہیے۔ انشاء اللہ خاں ہمارے لئے بھی کچھ عرض کرنا۔ یہ عرض کرتے کہ حضور! غلام کی اور آرزو کونسی ہے۔ یہی دین کی آرزو یہی دنیا کی مراد، یہ کہہ کر پھر خاموش ہوتے۔ بادشاہ کچھ اور بات کرنے لگتے۔ ایک لمحہ کے بعد پھر یہ کہتے کہ پیر و مرشد! پھر غلام کو اجازت ہو۔ بادشاہ کہتے ہیں اے بھئی میر انشاء اللہ خاں ابھی تم گئے نہیں؟ یہ کہتے حضور بادشاہ عالی جاہ کے دربامیں غلام خالی ہاتھ کیوں کر جائے۔ کچھ نذر و نیاز، کچھ چراغی کو تو مرحمت ہو! بادشاہ کہتے ہاں بھئی درست، درست۔ مجھے تو خیال نہیں رہا۔ جیب میں ہاتھ ڈالتے اور کچھ روپیہ نکال کر دیتے۔ میر انشاء لیتے اور ایک دو فقرے دعائیہ کہہ کر پھر کہتے کہ حضور دوسری جیب میں دست مبارک جائے تو فدوی کا کام چلے۔ کیوں کہ وہاں سے پھر کر بھی تو آنا ہے۔ بادشاہ کہتے ہیں کہ ہاں بھائی سچ ہے۔ سچ ہے۔ بھلا وہاں سے دو دو کھجوریں تو لا کر کسی کو دو۔ بال بچے کیا جانیں گے کہ تم آج کہاں گئے تھے۔ اگرچہ ان فقروں سے یہ کام نکال لیتے تھے، لیکن پھر کب تک؟ آخر دلّی سے دل اچاٹ ہوا۔ لکھنؤ میں آصف الدولہ کی سخاوتوں نے حاتم کے نام کا خاتمہ کر دیا تھا۔ اور لوگ بھی کمال کے ایسے جویا تھے کہ جو دلّی سے گیا پھر نہ آیا۔ اس لئے اِدھر کا رُخ کیا۔ جاتے ہی علم و فضل کے زور اور کمال کے شور سے توپ خانے لگا دیئے۔ کہ تمام مشاعرے گونج اٹھے۔ اور اسی نمک خواری قدیم کے سلسلہ سے مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں پہونچے۔ وہ شاہ عالم کے بیٹے تھے۔ باپ دادا کے خانہ زادوں پر شفقت واجب تھی۔ اس کے علاوہ شاعر بھی تھے۔ چنانچہ عام اہلِ دہلی کے علاوہ شعراء کا مجمع دونوں وقت ان کے ہاں رہتا تھا۔ سوداؔ، میر ضاحک، میر سوز وغیرہ کا ورق زمانہ اُلٹ چکا تھا۔ مصحفیؔ، جراتؔ، مرزا قتیل وغیرہ شاعروں اور شعر فہموں کے جلسے رہتے تھے۔ جو محفل ایسے گلشن فصاحت کے گلدستوں سے سجائی جاوے وہاں کی رنگینیاں کیا کچھ ہوں گی۔ جی چاہتا تھا کہ ان کی باتوں سے گلزار کھلا دوں۔ مگر اکثر پُھول ایسے فحش کانٹوں میں اُلجھے ہوئے ہیں کہ کاغذ کے پُرزے ہوئے جاتے ہیں۔ اس لئے صفحہ پھیلاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔

پہلے مرزا سلیمان شکوہ مصحفی سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ جب سیّد انشاء پہونچے تو مصحفی کا مصحف طاق پر رکھا گیا۔ بزرگوں سے سُنا اور طرزِ کلام سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ کہ شہزادہ موصوف کے سر دیوان کی غزل اور اکثر غزلیں بھی سیّد ممدوح کی اصلاح کی ہوئی یا کہی ہوئی ہیں، چنانچہ پہلا ہی مطلع اس مطلب کو روشن کرتا ہے :

دل اب تو عشق کے دریا میں ڈالا

تَوکَّلتُ عَلٰی اللہِ تعَالٰی​

کیونکہ سیّد انشاء ایسی تضمینوں کے بادشاہ تھے۔

(بلکہ وزیر علی خاں کی مسند نشینی میں ان کی مختاری داخل تھی۔ پھر وزیر علی کا اخراج اور سعادت علی خاں کی مسند نشینی بھی ان ہی کی حسن تدبیر سے ہوئی تھی۔ انھوں نے انگریزی اور لاطینی زبان بھی سیکھی تھی۔ نیوٹن صاحب کے ڈفرنشل وغیرہ کا ترجمہ فارسی میں کیا تھا اور کئی دفعہ کلکتہ گئے تھے۔)

سید انشاء اگرچہ شہزادہ موصوف اور تمام امراء و روسا کے درباروں میں معّزز و مکرم تھے۔ مگر ہمّت عالی کا عقاب ہمیشہ اپنے پروں کو دیکھتا رہتا ہے، وہاں تفضل حسین خاں ایک شخص تھے کہ بعد ابو الفضل اور سعد اللہ خاں (یہ چہنٹ کے رہنے والے اور عبد الحکیم سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ دونوں گمنام گھروں کے لڑکے تھے اور ساتھ ہی پڑھتے تھے۔ عبد الحکیم اوّل سبق میں پیش قدم تھے مگر قسمت کے بھی پیش قدم نکلے۔ یہاں تک کہ پڑھتے پڑھتے شاہجہاں کے وزیر ہو گئے اور علامہ کا خطاب علم و فضل کی شہرت پر طرہ ہوا۔ سوائے نام کے کوئی تصینف کا نشان نہین چھوڑا۔ البتہ شاہجہاں نامہ میں ایک مراسلہ ان کا لکھا ہوا ہے۔ مگر علامہ ابو الفضل کے کام سے نسبت بھی نہیں۔ چہنٹ میں ایک مسجد ہے۔ اس کے مینار ہلاتے سے ہلتے ہیں کہ سنگ لرزاں کے ہیں۔) شاہجہانی کے علامہ کا خطاب اگر ہوا تو ان کے لئے تسلیم ہوا ہے۔ وہ اپنے علم اور حُسن تدبیر سے ادھر معتمد سرکار انگریزی کے اُدھر رُکن سلطنت لکھنؤی کے اور مشیر تدبیر سعادت علی خاں کے تھے۔ ان کی صحبت ایک مجموعہ فضل و کمال کا تھا۔ وہاں سیّد انشاء بھی جایا کرتے تھے۔ وہ بھی ان کی لیاقت اور خاندان کے لحاظ سے پہلوئے عزّت میں جگہ دیتے تھے اور فکر میں تھے کہ کوئی مناسب صورت حال نکالیں۔ ایک دن جوش تقریر میں سیّد انشاء ایک لفظ بول گئے۔ اس کے دو معنی تھے مگر اُردو میں جو معنی ہیں وہ اس قابل نہیں کہ ایسے جلسوں میں ذکر آئے۔ چونکہ یہ خود بھی مزاج شناسی کے ارسطو تھے اس لئے کہنے کو تو کہہ گئے۔ مگر خان علامہ کی نظر تاڑ کر بولے کہ زبان مارواڑی میں بیوقوف کو کہتے ہیں۔ انھوں نے کچھ سوچ کر کہا کہ خیر خاں صاح! انداز معلوم ہو گیا۔ جلد کوئی صورت ہو جائے گی۔ انشاء اللہ تعالٰی دوسرے ہی دن سعادت علی خاں سے ان کی بزرگی اور ان کے ذاتی کمالات کا ذکر کر کے کہا کہ آپ کی صحبت میں ان کا ہونا شغل صغری اور کبریٰ سے بہتر ہو گا۔ وہ سن کر مشتاق ہوئے۔ دوسرے دن خاں صاحب سید انشاء کو لے گئے اور ملازمت ہوتے ہی ایسے شیر و شکر ہوئے کہ پھر نواب کو ان کے سوا کسی کی بات میں مزا ہی نہیں آتا تھا۔

اس میں شک نہیں کہ تہذیب طبعی کی آگ اور شوق انتظام نے نواب کے دماغ کو خشک کر دیا تھا۔ مگر جیتی جان کے لئے شگفتگی کا بھی ایک وقت ضرور ہوتا ہے۔ اور سید انشاء تو وہ شخص تھے کہ ہر بزم میں گلدستہ اور ہر چمن میں پھول، چنانچہ کوئی خاص خدمت نہیں حاصل مگر دربار داری کے ساتھ ہر دم کی مصاحبت تھی۔ اس عالم میں انھوں نے عامہ خلایق خصوصاً اہل کمال اور اہل خاندان کی کاربراری سے نیکی اور نیک نامی کی دولت کمائی کہ جس سے زیادہ کوئی خزانہ نہیں ہو سکتا۔ ہزاروں کو مراتب اعلٰی پر پہنچا دیا۔ مگر آپ شاعر ہی رہے۔ چنانچہ عن قریب ان کے حال سے کچھ اشارے معلوم ہوں گے۔

زمانہ کا دستور ہے کہ صحت میں سے بیماری اور زندگی میں سے موت پیدا کر دیتا ہے۔ اسی مصاحبت سے ہنسی ہنسی میں مخالفت پیدا ہو گئی۔ جس کا انجام یہ ہوا کہ وہ چہکتا ہوا بلبل اپنے گھر کے پنجرے میں بند کیا گیا۔ اور وہاں سے (قتیل کے رقعوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۲۲۹ھ میں وہ موقوف ہو کر خانہ نشین ہوئے تھے مگر معلوم نہیں کہ یہی آخری خانہ نشینی تھی یا بعد اس کے پھر بحال ہو گئے۔)

اس گمنامی کے ساتھ زمین کا پیوند ہوا کہ کسی کو خبر نہ ہوئی۔ بسنت سنگھ نشاط کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۲۳۳ھ میں فوت ہوئے۔

خبر انتقال میر انشاء
دلِ غم دیدہ تا نشاط شنفت

سال تاریخِ اُو زجان اجل
عرفی وقت بود انشاء گفت
(۱۲۳۳ھ)​

ان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ تصنیفات کا ذخیرہ بہت کچھ ہو گا۔ مگر جو کچھ میری نظر سے گزرا ہے، ان میں ایک کلیات ہے اس میں (۱) اردو غزلوں کا دیوان تمام و کمال (۲) دیوان ریختی اور ریختی میں پہلیاں اور مستزاد طلسمات کے نسخے قواعد پشتو (۳) قصائد اردو، حمد، نعت، مدح بزرگان دین، مدح بادشاہ دہلی اور تعریف امراء میں (۴) قصائد بزبان فارسی (۵) عیوان غزل ہائے فارسی تمام ہے۔ مگر مختصر ہے (۶) مثنوی شیر برنج فارسی میں (۷) مثنوی فارسی بے نقط۔ اس کی سرخیوں کے مصرع بھی بے نقط ہیں۔ (۸) شکار نامہ نواب سعادت علی خاں کا بزبان فارسی، ہجوئیں، گرمی، بھڑوں، کھٹملوں مکھیّوں، پسوؤں وغیرہ کی شکایت میں اور متفرق اشخاص کی ہجوئیں۔ (۱۰) مثنوی عاشقانہ (۱۱) ہاتھی اور چنچل پیاری ہتھنی کی شادی (۱۴) متفرق اشعار تھے۔ رباعیاں قطعے فارسی اُردو وغیرہ، تاریخیں۔ جن میں اکثر مادے قابل یاد رکھنے کے ہیں پہہلیاں، چیستانیں (۱۳) دیوان بے نقط (۱۴) مائتہ عامل زبان عربی کی فارسی میں (۱۵) مرغ نامہ اردو میں مرغ بازی کے قواعد مثنوی کے طور پر لکھے ہیں۔ مگر جو اپنے تمسخر کے قواعد ہیں وہ اس میں نہیں بھولے۔

۲ – دریائے لطافت – قواعد اردو۔ منطق، معانی وغیرہ ہیں۔

۳ – ایک داستان۔ نثر اُردو میں ایسی لکھی ہے کہ ایک لفظ بھی عربی فارسی کا نہیں آنے دیا۔ باوجود اس کے اُردو کے رتبہ سے کلام نہیں گرا۔ وہاں وہی چوچلے، وہی چہلیں۔ اس میں بھی چلی جاتی ہیں۔ مقدار میں ۵۰ صفحے کی ہو گی، تھوڑی عبارت نمونہ کے طور پر لکھتا ہوں۔

اب یہاں سے کہنے والا یوں کہتا ہے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے یہ بات اپنے دھیان چڑھی کوئی کہانی ایسی کہیے جس میں ہندی چھٹ اور کسی بولی کی پُٹ نہ ملے۔ باہر کی بولی اور گنواری کچھ اس کے بیچ میں نہ ہو۔ تب میرا جی پھول کر کلی کے روپ میں کھلے۔ اپنے ملنے والوں میں سے ایک کوئی بڑے پڑھے لکھے پُرانے دھرانے، ٹھاگ بڑے دھاگ پہ کھڑاگ لائے۔ سر ہلا کر منہ تھتھا کر، ناک بھوں چڑھا کر گلا پھلا کر، لال لال آنکھیں پتھرا کر کہنے لگے۔ یہ بات ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ ہندوی پن بھی نہ نکلے اور بھا کھا پن بھی نہ تھس جائے جیسے بھلے مانس اچھوں سے اچھے لوگ آپس میں بولتے جاتے ہیں جوں کا توں وہی سب ڈول رہے۔ اور چھاؤں کسی کی نہ پڑے۔ یہ نہیں ہونے کا۔ میں نے ان کی ٹھنڈی سانس کی پھانس کا ٹہوکا کھا کر جھنجھلا کر کہا۔ میں کچھ ایسا بڑا بول بولا نہیں جو رائی کو پربت کر کھاؤں اور جھوٹ سچ بول کر انگلیاں نچاؤں اور بے سری بے ٹھکانے کی الجھی سلجھی تانیں لئے جاؤں۔ مجھ سے نہ ہو سکتا تو بھلا منہ سے کیوں نکالتا۔ جس ڈھب سے ہوتا، اس بکھیڑے کو ٹالتا۔ اب اس کہانی کا کہنے والا آپ کو جتاتا ہے اور جیسا کچھ لوگ اسے پکارتے ہیں کہہ سناتا ہے۔ اپنا ہاتھ منہ پر پھیر کر مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوں۔ اور آپ کو جتاتا ہوں۔ جو میرے داتا نے چاہا تو وہ تاؤ بھاؤ اور راؤ چاؤ اور کود پھاند اور لپٹ جھپٹ دکھاؤں آپ کے دھیان کا گھوڑا جو بجلی سے بھی بہت چنچل اچیلاہٹ میں ہے۔ دیکھتے ہی ہرن کے روپ اپنی چوکڑی بُھول جائے چونکا

گھوڑے پہ اپنے چڑھ کے آتا ہونمیں

کرتب جو جو ہیں سب دکھاتا ہوں میں


اس چاہنے والے نے جو چاہا تو ابھی

کہتا جو کچھ ہوں کر دکھاتا ہوں میں​

غزلوں کا دیوان۔ عجب طلسمات کا عالم ہے۔زبان پر قدرتِ کامل بیان کا لطف محاوروں کی نمکینی، ترکیبوں کی خوش نما تراشیں دیکھنے کے قابل ہیں مگر یہ عالم ہے کہ ابھی کچھ ہیں، ابھی کچھ ہیں، جو غزلیں یا غزلوں میں اشعار بااصول ہو گئے۔ وہ ایسے ہیں کہ جواب نہیں اور جہاں طبیعت اور طرف جا پڑی وہاں ٹھکانا نہیں۔ غزلوں میں غزلیت کے اصول کی پابندی نہیں۔ سبب یہ ہے کہ وہ سخن آفریں ایک ذخیرہ وافر مضامین و الفاظ کا اپنے پاس رکھتاتھا۔ اس سے جو قسم کی مخلوق چاہتا تھا، پیدا کر لیتا تھا۔ جس مشاعرہ میں انھوں نے یہ غزل طرح کی پڑھی ہے :

لگا کے برف میں ساقی صراحی مے لا

جگر کی آگ بجھے جلد جس سے وہ شے لا​

کل پانچ شعر کی غزل تھی۔ جراتؔ اور مصحفی تک سب موجود تھے۔ مگر سب نے غزلیں ہاتھ سے رکھ دیں کہ اب پڑھنا بے حاصل ہے۔ ایک مستزاد کی طرح میں جب انھوں نے مسلسل تین غزلیں پڑھیں تو مشاعرہ میں ایک قیامت برپا ہو گئی تھی۔ مصحفیؔ و جراتؔ جب بھی موجود تھے اور غزلیں اب بھی حاضر ہیں۔ یہ عالم ہے جیسے مرصع زیور کے سامنے تنکوں کا کھیل۔ جراتؔ ایک موقع پر کہتے ہیں :

اب تلک آنکھوں میں ساقی ہے نشہ چھایا ہوا

چنپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا​

اور سید انشاءؔ کہتے ہیں :

برق چشمک زن ہے ساقی ابر ہے آیا ہوا

جام مے دے تو کدھرجاتا ہے مچلایا ہوا

(مقطع نے تو خاتمہ کر دیا :

دل لگایا ہے کہیں انشاء نے شاید دوستو

ان دنوں آتا نظر ہے سخت گھبرایا ہوا​

ریختی کا شوغ رنگ سعادت یار خاں رنگین کا ایجاد ہے۔ مگر سید انشاء کی طبع رنگین نے بھی موجد سے کم سگھڑاپا نہیں دکھایا، یہ ظاہر ہے کہ عیش و نشاط اور صحبتِ اربابِ نشاط ایسی پلید باتوں کے حق میں وہ تاثیر رکھتی ہے جو نباتات کے حق میں کھاد اثر کرتی ہے۔ چنانچہ دلّی کے فاقہ مستوں میں کم اور لکھنؤ میں قرار واقعی ترقی اس کی ہوئی۔ قطع نظر وضع اور لباس کے، جان صاحب کا دیوان اس کا نمونہ موجود ہے۔ اس صورت میں زنانہ مزاجی اور بے ہمتی اور بزدلی جو عام لوگوں میں پیدا ہوئی اس کا ایک محرک اسی ایجاد کو سمجھنا چاہیے۔ اس انداز میں جو پہیلیاں اور طلسمات کے نسخے لکھے ہیں اُن کا انداز بیان عجب لُطف دکھاتا ہے۔

ہندوستان کی مختلف زبانیں اُن کے گھر کی لونڈی ہیں۔ ابھی پنجاب میں کھڑے یں۔ ابھی یورپ میں بیٹھے باتیں کرتے ہیں۔ ابھی برج بھاشی میں، ابھی مرہٹے، ابھی کشمیری۔ ابھی افغان، سب زبانوں میں کچھ نہ کچھ کہا ہے، یہاں پوربی کے دو شعر ہیں وہ لکھتا ہوں کہ قریب الفہم ہیں۔ مطلع و مقطع پوربی زبان میں :

متپھکری میں پھکر بھئی مپھت آئے کے

جھاؤ میاں کو بُھویں پہ جو ٹپکس گھمائے کے


اِنسالہ کھاں میاں بڑے پھاجل جبین ہیں

صدرہ پڑھیں ہیں جن سیتی طلبلم آئے کے​

ان کی الفاظ جو موتی کی طرح ریشم پر ڈھلکتے آتے ہیں۔ اس کا سبب یہی کہہ سکتے ہیں کہ قدرتی فصاحت اور صفائی کلام کے سبب سے ہے اور کلام کا بندوبست جو ارگن باجے کی کساوٹ رکھتا ہے یہ بندش کی چُستی اور استخواں بندی الفاظ کی کوبی ہے مگر عجیب بات یہ ہے کہ ان کی زبان جو فصاحت کا سانچہ ہے اس سے اگر بے معنی الفاظ بھی ترکیب کھا کر نکلتے ہیں تو مزا ہی دیتے ہیں۔ یہ زیادہ تر ان ہجوؤں سے ثابت ہوتا ہے، جو شیخ مصحفی کے معرکوں میں لکھیں۔اور یہاں شدّتِ فحش کے سبب سے قلم انداز ہوئیں۔

قصائد بڑی دھوم دھام کے ہیں۔ الفاظ کی شکوہ طبیعت کی بلند پروازی کی کوئی حد نہیں۔ مگر سیدھے چلتے چلتے ایک ایسی چال بدلتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ وہ یہی بات ہے کہ اپنی زبان دانی کے جوش اور قوتِ بیاں کے مزے میں آ کر کبھی کوکئی شوخ مضمون، کبھی کوئی خوش آئند ترکیب اور نئی تراش ایسی سوجھ جاتی ہے کہ اسے باندھے بغیر نہیں رہ سکتے اور وہاں قصیدہ کی متانت اور وقار کے اصول ہاتھ سے جاتے رہتے ہیں۔ اس میں کبھی تو کلام میں شوخی اور ایک قسم کا بانکپن پیدا ہو جاتا ہے، اور کبھی متبذل ہو جاتا ہے۔ مگر پھر لطف یہ ہے کہ قدرتی لذت جو زبان میں ہے۔ وہ کلام کو بدمزہ نہیں ہونے دیتی۔ اور اسی واسطے جس دربار یا جلسہ میں قصیدہ پڑھتے تھے۔ سبحان اللہ اور واہ وا کہنے کے سوا سننے والوں کو ہوش نہ ہوتا تھا۔ اس بے اعتدالی کا سبب یہ تھا کہ طبیعت میں بہت طاقت تھی مگر اس پر قابو نہ تھا۔ ان قصیدوں میں مزہ وہاں آتا ہے جہاں ممدوح کی تعریف کرتےکرتے دفعتہً کہتے کہ دارائے ایران تجھے ایران میں بیٹھا کہہ رہا ہے۔ اور جھٹ چند شعر فارسی کے اس طرح کہہ جاتے ہیں، گویا ایک آغائے تازہ ولایت آیا اور اپنی چنیں و چناں کے ساتھ شیرہ شیراز کے دو دو گھونٹ سب کو پلا گیا۔ اِس کے برابر گویا ایک عرب العربا جبّہ پہنے عبا اور عمامہ سجے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ پھر شاہ بخار اترکستان سے ترکی میں آواز دیتا ہے اور ساتھ ہی عالی جاہ کابل اپنی افغانی میں یہ کہتا ہے۔ اور برج کی گوپیاں یوں یوں کہتی ہیں اور پنجاب میں جھنگ سیالے کی جٹیاں یوں کہتی ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ غرض اس بیان کی کیفیت اِن کے دیوان کے دیکھنے سے معلوم ہوتی ہے۔ فارسی میں انتہائی درجے کی قدرت رکھتے تھے۔ اس میں جب نظم یا نثر کہتے تو یہی معلوم ہوتا تھا گویا بلبل شیراز سامنے بول رہا ہے۔ مگر قباحت مذکورہ کا پردہ یہاں زیادہ تر کھلتا ہے۔ کیونکہ لفاظی کا لشکر ان کے آگے مسلح حاظر ہے۔ مضمون چاہیں تو آسمان سے تارے اتار لائیں مگر فارسی قصائد میں بھی طبیعت کو روکتے نہیں، قصیدہ کے اصول کو کھول کر محاورہ کی نمکینی اور بول چال کی شوخی سے کلام میں مزہ پیدا کرتے ہیں اور بے شک اس مطلب میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ادائے مطلب اور فصاحت کلام کے لحاظ سے اس زبان پر بھی قدرت کامل رکھتے تھے۔ ایک قسیدہ بے نقط کو بہت سی صنعتوں سے مرصع کر کے زوور طبع دکھایا ہے بلکہ بڑی فخر کے ساتھ اس کا نام طور الکلام رکھا ہے اور اسپر انھیں خود بھی بڑا ناز ہے۔

دیوان فارسی کا یہی حال ہے۔ باتوں ہی باتوں کا مزہ ہے۔ جس غزل کو دیکھو گویا دو ایرانی ہیں کہ کھڑے باتیں کر رہے ہیں اور فقط مسخرا پن۔ مضمون کو دیکھو تو کچھ بھی نہیں یہ سب کچھ ہے۔ مگر لطفِ زبان اور خوبی بیان کی تعریف نہیں ہو سکتی اور اس میں کچھ شبہ نہیں کہ اگر چند ساعت کے لئے اپنے رفیق طبعی یعنی تمسخر سے جُدا ہوتے اور ذرا زبان کو قابو میں رکھتے تو خدا جانے اپنے زمانے کے خاقانیؔ و انوریؔ ہوتے یا سعدی و خسرو، چنانچہ ایک ایرانی تازہ وارد کو کسی موقع پر نظم میں رقعہ لکھ کر بھیجا ہے۔ اس سے قدرت زبان اور لطف بیان کے ساتھ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت گھر سے نکلنا بند تھا۔ رقعہ منظوم :

تو اے نسیم سحر گہ زجانب انشاء
برو بخدمت حاجب علی شیرازی

سلام شوق رساں و بگو بعجز و نیاز
کہ مے ہنر و بکمالِ تو ہر قدر نازی

بلے زنفخہ روح القدس مدد داری
ازاں مسیح زمان و سراسر اعجازی

ہمائے عالمِ قدسی سہیم تو عنقاست
چو طائرانِ بہشت بریں خوش آوازی

قصیدہ و غزل فی البدیہہ ات دیدم
علّو مرتبہ داری بلند پروازی !

کسے بہ پیش تو دیگرچہ لافِ شعر زند
بفکر سعدی شیراز را تو انبازی

بسان رستم دستانی اے نکو کردار
بہ ہر طرف کہ کنی قصدِ رخش مے تازی

ہنوز قید نہ داری چوسرد آزادی
بہر کجاکہ دلت مے کشد سر افرازی

تو سر بمہر و ہمچو نہ نامہ شاہاں!
اگرچہ فقرہ مخصوصِ مطلب زاری

بایں جریمہ کہ حاضرِ بخمت نشدم
توقع اینکہ زچشم خودم نیندازی

بدون حکمِ وزیر المملک اے آغا
چساں کنم حرکت نوکری ست یا بازی

نماز و روزہ معاف است عذر اگر باشد
بگو برائے چہ دیگر بشکوہ پردازی

بعید نیست پے سیر اگر نجانہ من
قدم گذاری و گاہے ز لطف بنوازی​

عربی میں بھی وہ خاموش نہ تھے، چنانچہ یہ قطعے نمونہ دکھاتے ہیں۔

سَکَت ُ الحبیب متانۃً
بقئ التلذذُ سَارِیَا

جُلسائۃ یستحسِنُون
وَیَزعمُونَ محا کِیَا

ربّ علیٰ رَحمَتِک الوافیہ
اسئلک الصحۃ والعافیہ

انت مخیثُ الفقرا ھب لنا
عافیۃُ کافیۃ شافیہ​

عربی فقرے اس خوبصورتی سے تضمین کرتے ہیں جیسے انگوٹھی پر نگینہ، چنانچہ سر دیوان غزل کا مطلع ہے :

ضما برب کریم یاں وہ ہر ایک تیرا ہے مبتلا
کہ اگر آلستُ بِرَبکّمُ تو کہے تو کہدیں ابھی بلٰی

اے عشق مجھے شاہد اصلی دکھا
قعہ خذ بیدی وفقک اللہ تعالٰی

مجھے کیا ملائک عرش سے مجھے عشق تیرا ہے ایخدا
بہت انکو لکھوں تو السّٰلام علی ان اتبع الھدی

بھاتا ہے یہ بھوک پیاس سب کچھ سہنا
اور روزوں میں انتظارِ مغرب رہنا

آپس میں سحر گہی کی چہلیں اور پھر
با الصُّو، غَدا توَیتُ اُن کا کہنا​

آرام و نشاط و عیش کردند ہجوم
ایجاب و قبول جملگی شد معلوم!

با دختر رز پیر مغاں عقدم بست
قَد قُلت قِبَلتُ بالصّدّاق المعلوم

میں کوچہ عشق کی جو کرتا ہوں سیر
آرام میں اور اس میں تو ذاتی ہے بیر

ہرگام مری زباں پہ ہے جاری انشاء
ربّ یسّر ہے اور تمّمِ بالخیر​

مثنوی شیر برنج فارسی زبان میں مولانا روم کی طرز میں لکھی ہے۔ مگر نہیں معلوم ہوتا کہ تمسخر کرتے ہیں تتبع کرتے ہیں۔ کیونکہ زباں کہیں فقط روزمرہ ہے۔ کہیں عالمِ جبروت و لاہوت سے پرے کے الفاظ لفاظی کرتے ہیں اور جا بجا عربی زبان کہیں شعر کہیں مصرعے ہوتے جاتے ہیں۔ مضامین فقط ظرافت کی باتیں اور حکایاتیں ہیں۔ انھیں نظم کر کے معرفت و طریقت میں لاتے ہیں۔

غرض کھیر میں لُون ڈال کر تصوف کو تمسخر کر دیا ہے۔ مگر یہ بچپن کا کلام معلوم ہوتا ہے۔ شکار نامہ سعادت علی خاں کا فارسی میں ہے۔ زبان کی شیرینی اور ترکیب کی چستی اور اس میں طبیعت کی شوخیوں نے جو لطف پیدا کیا ہے دیکھنے سے تعلق ہے۔ اس مقام پر چند شعر لکھے بغیر نہیں رہ سکتا۔

شکار نامہ

اینکہ کنوں مے گذ رد در شمار
بست فزوں از ود صد و یک ہزار

ساختہ در خامہ انشاء وطن
چند ہزار آہوئے مشک ختن

یہ کہ کنوں صید مضامین کنم
بارگئ ناطقہ را زیں کنم

در تمہید کلام

از مدد شیر خدائے و دود
صورتِ عنقائے طرب پرکشود

ذہن و ذکا رقص چو طاؤس کرد
مست شدہ آہوئے صحرا نورد

طائر اقبال بہ نشو و نما
فصلِ گل و باد بہاری و زید

در تعریف حضور پر نور

اشرف خیل و ز رائے زماں
ناظم ملک ہمسر ہندوستاں

صفدر و منصور و سخی و شجاع
بست کمر از پئے قتل سباع

تاختہ از خانہ بعزمِ شکار
کرد برد برج اسدؔ جاں نثار

در تعیریف خیمہ و خرگاہ نوبت و نقارہ و مایغلق بذالِکَ

تا کہ بر و خیمہ زریں طناب
آمدہ در برج حملِ آفتاب

گشت ز نقارہ صدائے بلند
ز ندہ بماں ز ندہ بماض بےگزند

دزُ و ہلِ نقرہ بر آمد بجوش
تابتواں، تابتواں، ہاں خروش

حلّت صید است در آئین من
دین من و دین من و دین من

داشدہ زیں ساں دہنِ کرّنا!
با دیدہ بادیدہ بادُعا

دشمنِ ایں خانہ جگر خوں بود
دوں بود و دوں بود و دوں بود

عیش بروں از حد و اندازہ شد
رسم کہن از سر نو تازہ شد

غلغلہ کوس بہ کیواں رسید
آب شدہ زہرہ و یوسفید

کوہ چو غرّ یدن پیلش شنید
صورتِ خرطوم دے از دو روید

گفت بروں آمدہ از زیر ابر
صور سرافیل پے صید بیر

وقت ہما نست کہ سیمرغ قاف
بگذر و از قِلّہ لاف و گذاف

آنچہ ند یدست فریدوں نجواب
جملہ مہیاست و را در رکاب

چونکہ بد ید ایں ہمہ عزم و شکوہ
لرزہ بر افتاد بر اندام کوہ

تاریخ

فوج ظفر موج بایں عزّ و جاہ
گر در سا نید چو برادجِ ماہ

شو کتش انشاء بخط زر نوشت
فقرہ تاریخ مظفر نوشت

تعریف اسپ

خود چو بر اسپِ عربی برنشست
آمدہ بر فوج غزالاں شکست

اسب چہ اسپ اشہبِ باد صبا
اسپ مگوشہ رخ گلگوں قبا

اسپ بایں شوخی دل چسپ کو
حور بگو اسبِ مگو، اسپ کو

اسپ مداں لمعہ شرق است ایں
اسپ کجا چشمک برق است ایں

پیش ردِ جودتِ طبع سلیم
گام نہد بر برد دوشِ نسیم

زیب دہ کوہ و بیابانِ نجد
قیس اگر بنگر و آید بہ وجد

سیرتِ لیلٰی رسدش در خیال
باہمہ چالاکی و حُسن و جمال

بیندش از نادر کشورستاں
وصف کند باہمہ ایرانیاں​

آگے نادر کی زبانی جو اشعار ہیں وہ ترکی میں کہے ہیں اور پھر مطلب شروع کیا ہے۔ ہجوئیں اُردو میں ہیں۔ خیال کر لینا چاہیے کہ جنھیں بانکپن غزل اور قصیدے میں سیدھا سیدھا نہیں چلنے دیتا۔ انھوں نے وہاں کیسا کچھ رنگ اڑایا ہو گا۔

مثنوی عاشقانہ مختصر ہے اور کوئی بات اس کی قابل اظہار نہیں۔ ایک ہاتھی اور چنچل پیاری بھتنی کی حکایت کہیں انگریزی سے اُن کے ہاتھ آ گئی ہے۔ نظر باز آنکھ خود ایسے مضامین کی تاک میں رہتی تھی یہ تو تیار مال تھا۔ غرض اس کی شادی جس سامان سے کی ہے وہ تماشا دیکھنے کے قابل ہے۔

متفرق اشعار قطعے، خطوط منظوم، رباعیاں، پہیلیاں چیستانیں، لطائف سے دیوان مالا مال ہیں۔ مگر بنیاد سب کی تمسخر پر ہے۔ طالب علم کو بہت کچھ سمجھ لینا چاہیے کہ بہت کچھ اس میں قابل لینے کے ہے۔ اور بہت کچھ مہملات۔

دیوان بے نقط ایک معمولی طبّع آزمائی ہے۔ اس میں کوئی بات قابل تحریر نہیں۔ مثنوی ماتہ عامل زبان عربی کی نظم فارسی میں ہے۔ اگرچہ وہ بڈھے ہو کر بھی بچّوں کے آگے دوڑتے تھے مگر یہ بھی اوائل عمر کی معلوم ہوتی ہے۔ (ایک مختصر مثنوی میں پشتوں زبان کے قواعد نظم کئے ہیں۔)

دریائے لطافت قواعد اردو میں ہے۔ اس کتاب میں بھی اگرچہ انداز کلام میں وہی تمسخر اور شوخی ہے۔ مگر یہ پہلی کتاب قواعد اُردو کی ہے جو ہمارے اہل زبان نے اردو میں لکھی ہے۔ اس میں اوّل اردو بولنے والوں کی مختلف فرقوں کی زبانوں کے نمونے دکھائے ہیں اور ان میں حق زبان دانی اور سخن فہمی کا ادا کیا ہے۔ پھر قواعد بیان کئے ہیں۔ اور ظرافت سے لے کر فحش تک کوئی بات باقی نہیں چھوڑی۔ لیکن طالب فن اس میں سے بھی اکثر نکتے ایسے حاصِل کر سکتا ہے کہ چند روز کے بعد ڈھونڈھے گا اور نہ پائے گا۔

بعد اس کے کئی بابوں میں عروض قافیہ، منطق، معانی، بیان وغیرہ فروعِ بلاغت کو زبانِ اردو میں لائے ہیں۔ یہ مرزا قتل کی تصنیف ہے مگر اس حمام میں سب ننگے تھے۔ ان کے ہاں بھی سوائے شہدپن کے دوسری بات نہیں پھر بھی حق یہی ہے کہ کہ جو کچھ ہے لطف سے خالی نہیں ہے۔عروض میں ان کے اصول اور قواعد لکھے ہیں مگر تقطیع میں مفاعیلن، مفاعیلن کی جگہ کہتے ہیں۔ پری خانم، پری خانم، پری خانم، اور فاعلن، فاعلن فاعلن، چت لگن، چت لگن، چت لگن، چت لگن اور

مفعول، مفاعیلن، مفعول، مفاعیلن

بی جان پری خانم، بی جان پری خانم


اور فائلن، مفاعیلن، فاعلن مفاعیلن

چت لگن پری خانم، چت لگن پری خانم​

اصطلاحیں بھی نئی نئی رکھی ہیں۔ چنانچہ نظم کی قسموں میں مثلث کا نام ٹکڑا اور مُربعّ کا نام چوکڑا رکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ منطق میں بھی اپنی اصلاحیں الگ نکالی ہیں، چنانچہ :

علم --- گیان
نسبت ثبوتہ --- مان لینا
علم حصول --- پر دھیان
نسبت سلبی --- پورا توڑ
علم حضوری --- آپ گیان
بدیہی --- پرگھٹ
قصور --- دھیان
نظری --- گپت
تصدیق --- جون کا توں
تسلسل --- الجھا سُوت
موضوع --- بول
دور --- ہیر پھیر
محمول --- بھرپور
مطابقت --- ٹھیک ٹھیک
رابطہ --- جوڑ
تضمنی --- کہسر
نسبت --- ملاپ
التزامی --- اوپری لگاؤ
قضیہ --- بات

اسی طرح معانی بیان وغیرہ میں۔

ہندی اور ملکی خصوصیتوں کے مضامین کو سوداؔ نے بہت اچھی طرح سے باندھا ہے مگر سید انشاء نے بھی اچھلتے کودتے خوب قدم مارے ہیں اور یہ بات لطف سے خالی نہیں کیونکہ اپنے ملک کے ہوتے، عرب سے نجد، ایران سے بے ستون اور قصر شیریں توران سے جیجون یحون کو ہندوستان میں لانا کیا ضرور ہے۔ ایسی باتوں سے فصاحت میں دشواری اور اشکال پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ سید موصوف کہتے ہیں :

لیا گر عقل نے منھ میں دل بیتاب کا گٹکا
تو جوگی جی دھرا رہ جائیگا سیماب کا گٹکا

صنم خانہ میں جب دیکھا بہت و ناقوس کا جوڑا
لگا ٹھاکر کے آگے ناچنے طاؤس کا جوڑا

لے پارے سے جو ہڑتال کر کے راکھ کا جوڑا
تو نابنے سُرجی اگلیں کوئی نّوے لاکھ کا جوڑا

نہیں کچھ بھید سے خالی یہ تلسی داس جی صاحب
لگایا ہے جو اک بھونرے سے تمنے آنکھ کا جوڑا

لپٹکر کرشن جی سے رادھکا ہنسکر لگیں کہنے
ملا ہے چاند سے اے لو اندھیرے ماگھ کا جوڑا

یہ سچ سمجھو کہ انشاء ہے جگت سیٹھ اس زمانہ کا
نہیں شعر و سخن میں کوئی اس کے راکھ کا جوڑا

اے عشق اجی آؤ مہاراجوں کے راجہ ڈنڈوت ہے تم کو!
کر بیٹھے ہو تم لاکھوں کروڑوں ہے کے سر چٹ اک آن میں چٹ پٹ

یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر
اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر

ہے نور بصر مردمک دیدہ میں پنہاں مانند کنہیا
سو اشک کے قطروں سے پڑا کھیلے ہے جھرمٹ اور انکھیں ہیں پنگھٹ

دل ستم زدہ بیتابیوں نے لوٹ لیا
ہمارے قبلہ کو وہابیوں نے لوٹ لیا

سُنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھے کا
تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا

یوں چلے مژگاں سے اشک خونفشاں کی میدنی
جیسے بہرائچ چلے بالے میاں کی میدنی

اور مقطع کی اکڑ تکڑ دیکھنے کے قابل ہے۔

رسّمانہ دیکھ انشاء کو قشوں شاہ میں
سب یہ کہتے ہیں کہ آئی سیستاں کی میدنی

پھبن، اکڑ، چھب، نگاہ، سج دھج، جمال و طرز خرام آٹھوں
نہ ہوویں اس بُت کے گر پجاری تو کیوں ہو میلے کا نام آٹھوں​

غرض کل تصنیفات کی ہیئت مجموعی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ نئے نئے تصرف اور ایجادوں کے لحاظ سے سید انشاء فن انشاء کی قلمرو میں بادشاہ علی الاطلاق تھے اور اس اعتبار سے انھیں اردو کا امیر خسرو کہیں تو بے نہیں بلکہ قصیدہ طور الکلام میں جہا صنائع مختلفہ کی ذیل میں انھوں نے ایک مصرع لکھا ہے کہ تین زبانوں میں پڑھا جاتا ہے، وہاں فخر کی مونچھوں پر خوب تاؤ دیئے ہیں اور کہا ہے کہ امیر خسرو نے تین لفظ کا ایک جملہ ایسا لکھا تھا اور فخر کیا تھا۔ مجھے ایسا پورا مصرع ہاتھ آیا، یہ فقط ممدوح کی مدح کی برکت ہے۔ اگرچہ آج یہ صنعتیں بے کار ہیں۔ مگر اس احسان کا شکریہ کس زبان سے ہو کہ ہمارے زبان میں نئی نئی تشبیہیں، شگفتہ استعماروں کے رستے کھولے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ان میں فارسی اضافت کی گرہ کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھولا ہے۔ غزلوں میں اس کے اشارے معلوم ہوں گے۔

اس میں کچھ کلام نہیں کہ جو جو تصرف یا ایجاد کئے ان میں بعض جگہ سینہ زوری بھی ہے۔ مگر خوش نمائی اور خوش ادائی میں کچھ شبہ نہیں۔ درحقیقت ان کی تیزی طبع نے عالمِ وجود میں آنے کے لئے بھی تیزی دکھائی۔ اگر وہ سو برس بعد پیدا ہوتے تو ہمارے زبان کا فیشن نہایت خوبصورتی سے بدلتے۔ دیکھو وہ قصیدہ جو انھوں نے جارج سوم کی تہنیت جشن میں کہا ہے۔

قصیدہ در تہنیت جشن

بگیاں پھولوں کی تیار کرائے بوئے سمن
کہ ہوا کھانے کو نکلیں گے جوانانِ چمن

عالم اطفال نباتات پہ ہو گا کچھ اور
گورے کالے سبھی بیٹھیں گے نئے کپڑے پہن

کوئی شبنم سے چھڑک بالوں پہ اپنے پوڈر
کُرسی ناز پہ جلوہ کی دکھا دے گا پھبن

شاخِ نازک سے کوئی ہاتھ میں لیکر اک گیت
ہو الگ سب سے نکالے گا نرالا جو بن

نسترن بھی نئی صورت کا دکھا دیگا رنگ
کوچ پر ناز کی جب پاؤں رکھے گا بن ٹھن

اپنے گیلاس شگوفہ بھی کریں گے حاضر
آ کے جب غنچہ گل کھولیں گے بوتل کے دہن

اہلِ نظارہ کی آنکھوں میں نظر آویں گے
باغ میں نرگش شہلا کے ہوائے چتون

اور ہی جلوے نگاہوں کے لگیں گے دینے
اودی بانات کی کُرسی سے شکوہِ سوسن

پتے مِل مِل کے بجاویں گے فرنگی طنبور
لالہ لاویگا سلامی کو بنا کر پلٹن

کھینچ کر تار رگِ ابر بہاری سے کئی
خود نسیم سحر آوے گی بجاتی ارگن !

اپنی سنگینیں چمکتی ہوئی دکھلا دیں گے
آ پرے گی جو کہیں نہر پہ سورج کی کرن

نے نوازی کے لئے کھول کر اپنی منقار
آ کے دکھلا دے گی بلبل بھی جو ہے اس کا فن

اردلی کے جو گراں ڈیل ہیں سب ہونگے جمع
آن کر اپنا بگل پھونکے گا جب سکھدرشن

آئیگا نذر کو شیشہ کی گھڑی لے کے حباب
یاسمیں پتوں کی سپنیں میں چلے گی بن ٹھن

نکہت آوے گی نِکل کھول کلی کا کمرا
ساتھ ہوئیگی نزاکت بھی جو ہے اسکی بہن

حوض صندوق فرنگی سے مشابہ ہونگے
اس میں ہوویں گے پریزاد بھی سب عکس فگن​

ایک جگہ گھوڑے کی تعریف میں کہتے ہیں۔

ہے اس آفت کا سبک سیر کہ راکب اسکا
حاضری کھائے جو کلکتہ تو لنڈن میں ٹفن​

ان کا پڑھنا بھی ایک انداز خاص رکھتا تھا۔ جس سے شعر کی شان اور لطفِ کلام دوبالا ہو جاتا تھا۔ یہاں تک کہ اکثر اشخاص مشاعرہ میں اپنی غزل اُن سے پڑھوایا کرتے تھے۔ کیوں کہ اُن کی زبان آتش تاثیر کی چقماق تھی۔ اس سے نکل کر گرمی سخن ایک سے دو چند بلکہ وہ چند ہو جاتی تھی۔ بے شک انھیں میر و مرزا کے صاف کئے ہوئے رستے ہاتھ آئے مگر ان رستوں میں اُچھلتے کودتے ایسے بے باک اور بے لاگ جاتے ہیں، جیسے کوئی اچھا پھکیت منجھے ہوئے ہاتھ تلوار کے پھینکتا جاتا ہے۔

دیوان دیکھنے سے اِن کے حالات و عادات کی تصویر سامنے کھینچ جاتی ہے۔ جبکہ وہ مشاعرہ میں آتے تھے، یا دربار کو جاتے تھے، ایک طرف آداب معقولیت سے سلام کیا۔ ایک طرف مسکرا دیا۔ ایک طرف منھ کو چڑھا دیا۔ کبھی مقطّع مرد معقول، کبھی دلی کے بانکے، کبھی آدھی داڑھی اڑا دی۔کبھی چار ابرو کی صفائی بنا دی۔

کلیات کو دیکھو تو یہی حالت اشعار کی ہے اور اس میں شک نہیں کہ تفریح و تضحیک کے اعتبار سے کسی جلسہ میں ان کا آنا بھانڈ کے آنے سے کم نہ تھا۔ پس مصحفی نے ان کی ہجویات کے ضمن میں کچھ جھوٹ نہیں کہا۔

مصرعہ : واللہ کہ شاعر نہیں تو بھانڈ ہے بھڑوے​

اگرچہ جس محدود دائرہ میں ہمارے فارس و ہند کے شعراء پابہ زنجیر پھر رہے ہیں، یہ بے چارے بھی دوڑتے پھرتے ہیں۔ پھر بھی وہ شعرائے رائج الوقت کے اصول مفروضہ میں عاشقانہ مضامین کے پابند نہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اوّل تو اکثر غزلیں اور قصائد ان کے سنگلاخ زمین میں ہوتے تھے۔ پھر اس میں قافئے ایسے کڈھب لیتے تھے کہ عاشقانہ مضمون کم آ سکتے تھے۔ اسی واسطے قانون کلام یہ رکھا تھا کہ کیسا ہی قافیہ ہو اور کیسا ہی مضمون جس برجستہ پہلو سے بندھ جائے چھوڑنا نہیں چاہیے۔ ساتھ اس کے یہ ہے کہ شاعر کو زیادہ تر کام عوام سے ہوتا ہے جنھیں مضامین عشقیہ کے بعد کچھ لطف ہے تو ظرافت میں ہے۔ اس لئے ان کی طبیعت جو اسی آسمان کی زہر ہ ہےہر آن نیا جلوہ دیتی ہے۔ چنانچہ پابند اُن رسوم و قیود کے اپنے گھر بیٹھ کر جا چاہیں سو کہیں۔ وہ جب یاروں کے جلسہ میں یا مشاعرہ کے معرکے میں آ کر فانوس جادو روشن کرتے تھے تو تحسین اور واہ وا سے دھواں دھار ہو کر محفل بے لون ہو جاتی تھی۔ حق یہ ہے کہ وہ اپنی طرز کے آپ بانی تھے۔ اور آپ ہی اس کا خاتمہ کر گئے۔

لوگ کہتے ہیں کہ سیّد انشاء کا کلام ہر ایک مقام پر قابل سند نہیں۔ یہ بات درست ہے مگر ان کی بے اعتدالیاں کچھ جہالت کے سبب سے نہ تھیں۔ بلکہ عمداً تھیں۔ یا بے پروائی کے سبب سے تھیں کہ اپنی طبع وقار اور جامعیتِ استعداد کے سامنے تو قواعد اور اہلِ قواعد کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ سچ ہے کہ ان کے جوش کمال نے تیز کے تیزآب سے اصول اور قواعد کو پانی پانی کر دیا۔ الفاظ اور محاورات میں بہت سے تصّرت کئے۔ یہ تصّرف اگر صرف محدود مقاموں میں ہوتے تو شکایتیں نہ ہوتیں۔ کیوں کہ اس زبان آور سے زیادہ قادر زبان اور زبان داں کون ہے۔ خصوصاً جب کہ استعداد علمی سے مسلح ہو۔ لیکن افراط نے ہمیں بھی خاموش کر دیا ہے، اور وہ نشہ کمال کا مست کسی کے کہنے کی پرواہ بھی نہ کرتا تھا۔ بلکہ جب کوئی شامت کا مارا اگر گرفت کر بیٹھتا تھا تو کبھی سند سے کبھی دلائل جا و بے جا سے اور ساتھ ہجوؤں کے توپ خانوں سے چاند ماری کا نشانہ بن جاتا تھا۔ بہر حال ان کے کلام سے واقف ھال اور طالبِ کمال بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اکثر اچھوتے ایجاد ہیں کہ گل نو بہار کی طرح سر پر رکھنے کے قابل ہیں۔ بہت سی تھوڑی تبدیلی یا تراش سے انوکھے ہو جاتے ہیں، بہت سے وہ ہیں جن پر سوا اس کے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ

مصرعہ :خطائے بزرگاں گرفتن خطا است​

لوگ کہتے ہیں کہ سید انشاء کا کلام رندانہ (اس کا سبب یہ تھا کہ ان کے بزرگوں کو سرکار سے شہدوں کی تقسیم و وظائف کی خدمت سپرد تھی۔ ان کے بھائی صاحب دلّی میں آئے تو وہ بھی ایک پارے کا کنٹھا گلے میں پہنتے تھے اور وضع بھی اسی قسم کی رکھتے تھے، چنانچہ میر انشاء اللہ خاں نے آزادوں کے انداز میں ایک مستزاد کہہ کر دادِ زباندانی کی دی ہے اور غزلوں میں اسی طرز کا پرتو دکھایا ہے۔ دریائے لطافت میں شہدے کی تحقیق سید انشاء خود فرماتے ہیں۔ شہدہ شخصے راگویند کہ از برہنگی سروپا کشیدہ بر دیگر بر دوش و سر خطاب ہائے او ابے اوبے، بچا۔ ایسے تیسے چند الفاظ فحش لکھے ہیں وغیرہ وغیرہ عارنداشتہ باشدد، گر لک روپیہ یا اشرفی یا قطعہ ہائے جواہر در مکانے گذاشتہ باشد و شہدہ دراں تنہا بر دو نگہبانے ہم بناشد ہرگز دست بہیچ چیز نخواہد بردو انبوہ ایں فرقہ متصل مسجد جامع دارالخلافہ خصوصاً چاوڑی یافتہ می شود۔ بلکہ کمال شہدہ ہمیں است کہ اور اشہدہ جما مسجدگویند برائے شہدہ ہانا مہائے عجیب و لہجہ غریب بود ۔۔۔ گرگنج جّما بدھوا ملوا۔ روسن، چراگ و ہموا، راجے خاں، نہال بیگ میر آسوری عینی میر عاشوری۔ بڑے خوجی شیخ رانجھے ابو المالی یعنی ابو المعالی دھول حمد کیئو خاں، ایں است اسما کے متبرک حالا طرز گفتار باید شنید" چونکہ انکی گفتگو فحش تھی اسلئے احتراز کیا گیا۔ غرض شہدے بھی عجیب چیز ہیں، ذرا ان کا نام آ گیا تھا، دیکھئے ۵ صفحے خراب ہو گئے۔)ہے اور جو اس میں ہزل ہے نہ بقدر نمک ہے بلکہ غذا کی مقدار سے بڑھی ہوئی ہے۔ یہ بات بھی درست ہے۔ مگر اس کا سبب یہ ہے کہ وقت حاکم جابر ہے اور پسند عام اس کا واضح قانون ہے۔ اس وقت شاہ و امراء سے لے کر گدا اور غرباتک انھیں باتوں سے خوش ہوتے تھے اور قدر دانی یہ کہ ادنٰی ادنٰی (ایک شعر پر سیّد انشاء اور شیخ مصحفی میں شکر رنجی ہو گئی اور طبیعتوں کی شوخی نے زبانوں کی بیباکی کے ساتھ ملکر بڑے بڑے معرکے کئے۔ اسوقت آصف الدولہ شکار میں تھے چنانچہ انھوں نے اپنے لکھنؤ میں نہ ہونے پر ہزاروں افسوس کئے اور بڑے اشتیاق سے ان ہجوؤں کو منگا کر سُنا اور انعام بھیجے۔ فی الحقیقۃ ایک ایک مصرع انکا ہنسی اور قہقہوں کی منتر ہے لیکن آج اگر انھیں کوئی لکھ بھی دے تو عدالت یا انصاف میں مجرم ہو کر جوابدہی کرنا پڑتی ہے۔) نظموں پر وہ کچھ دیتے تھے۔ جو آجکل کے مصنفوں کی کتابوں پر نصیب نہیں ہوتا۔ سید انشاء اگر یہ نہ کرتے تو کیا کرتے۔ پیٹ کو کاٹ کر کہاں پھینک دیتے۔ ہنگامہ ہستی کے جوانمرد اسے بھی ایک قسم کا کمال سمجھتے ہیں کہ کسی رستہ میں درماندہ نہ رہیں۔ جو پتھر سدّ راہ ہو اسے ٹھوکر مار کر ہٹائیں۔ اور آگے نکل جائیں۔ انصاف کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ جو کچھ اکمل ہزار فن کر گیا ہے۔ ہر ایک کا کام نہ تھا۔ نواب مصطفٰے خاں شیفتہ کا گلشن بے خار جب دیکھتا ہوں تو خار نہیں۔ کٹار کا زخم دل پر لگتا ہے۔ سید موصوف کے حال میں لکھتے ہیں "ہیچ صنف رابطریقہ راسخہ شعرانہ گفتہ" یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اس رستوں میں قدم کیوں رکھا۔ جو ایسے کیچڑ میں دامن آلودہ ہوئے لیکن شہرستان تجارب کے سیر کرنے والے جانتے ہیں کہ جب رواج عام کا راجہ ہولی کھیلتا ہے تو بڑے بڑے معقول وضعدار اشخاص اس کی چھینٹیں فخر سمجھ کر سر و دستار پر لیتے ہیں۔ پس وہ اور ان کے معاصر ملک چھوڑ کر کہاں نکل جاتے؟ یہیں رہنا تھا اور انھیں لوگوں سے لے کر گزران کرنی تھی اور لطف یہ تھا کہ اس میں بھی آن بان اور عظمت خاندان قائم تھی۔ اُن کے آقا بھی اُن سے اپنایت کے طریقے سے پیش آتے تھے اور انہی چہیتے چاہنے والوں کی فرمائشیں ہوتی تھیں، جو نہ دھری جاتی تھیں اور نہ اُٹھائی جاتی تھیں۔ اور وہ کچھ چھوٹے لوگ نہ تھے جو سمجھائے سے سمجھ جائیں یا ٹالے سے ٹل جائیں۔ کبھی تو شاہ عالم بادشاہ دہلی تھے۔ کبھی مرزا سلیمان شکوہ تھے۔ کبھی سعادت علی خاں والیِ اودھ وغیرہ وغیرہ چنانچہ اکثر غزلیں ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عالم میں سعادت علی خاں کی زبان سے ایک مصرع نکل گیا، اس کی غزل کا پورا کرنا ان کا کام تھا۔ ایک دفعہ کسی شخص کی پگڑی بے ڈھنگی بندھی تھی، سعادت علی خاں نے کہا کہ

مصرعہ : پگڑی تو نہیں ہے یہ فراسیس کی ٹوپی​

(تمام غزل دیکھو ان کی غزلوں میں)

سعادت علی خاں نواڑے میں لیٹے ہوئے میر انشاء اللہ خاں کی گود میں سر دھرا ہوا سرور کے عالم میں دریا کی سیر کرتے چلے جاتے تھے۔ لبِ دریا ایک حویلی پر لکھا دیکھا۔ حویلی علی نقی بہادر کی۔ کہا کہ انشاء دیکھو۔ کسی نے تاریخ کہی مگر نظم نہ کر سکا۔ بھئی تم نے دیکھا بہت خوب مادہ ہے۔ اسے رُباعی کر دو۔ اسی وقت عرض کی۔

نہ عربی نہ فارسی نہ ترکی

نہ سم کی نہ تال کی نہ سُر کی


یہ تاریخ کہی ہے کسی لُر کی

حویلی علی نقی خاں بہادر کی​

تائید اس کی اس روایت سے ہوتی ہے کہ جب شاہ نصیر دہلوی لکھنؤ میں گئے۔ اور زمین سنگلاخ میں گلزار لگا کر مشاعروں کو رونق دی تو سید انشاء سے بھی ملے جو کہ دلّی والوں کے رواج کار کا بیڑا اُٹھائے بیٹھے تھے اور کہا کہ بھئی انشاء اللہ خاں میں فقط تمہارے خیال سے یہاں آیا ہوں ورنہ لکھنؤ میں میرا کون بیٹھا ہے جس کے پاس میں آتا۔ اس وقت بہت رات گئی تھی۔ میر انشاء اللہ خاں نے کہا کہ شاہ صاحب یہاں کے دربار کا عالم کچھ اور ہے کیا کہوں لوگ جانتے ہیں کہ میں شاعری کر کے نوکری بجا لاتا ہوں مگر میں خود نہیں جانتا کہ کیا کر رہا ہوں؟ دیکھو صبح کا گیا گیا شام کو آیا تھا، کمر کھول رہا تھا، جو چوبدار آیا کہ جناب عالی پھر یاد فرماتے ہیں۔ گیا تو دیکھتا ہوں کہ کوتھے پر فرش ہے چاندنی رات ہے۔پہیئے دار چھپر کھٹ میں آپ بیٹھے ہیں، پھولوں کا گہنا سامنے دھرا ہے۔ ایک گجرا ہاتھ میں ہے اسے اچھالتے ہیں اور پاؤں کے اشارے سے چھپرکٹ آگے بڑھتا جاتا ہے، میں نے سلام کیا۔ حکم ہوا کہ انشاء کوئی شعر تو پڑھو۔ اب فرمائیے ایسی حالت میں کہ اپنا ہی قافیہ تنگ ہو۔ شعر کیا خاک یاد آئے۔ خیر اس وقت یہی سمجھ میں آیا، وہیں کہہ کر پڑھ دیا۔

لگا چھپرکٹ میں چار پہیّے اُچھالا تو نے جو لے کے گجرا

تو موج دریائے چاندنی میں وہ ایسا چلتا تھا جیسے بجرا​

یہی مطلع سُن کر خوش ہو گئے۔ فرمائیے اسے شاعری کہتے ہیں؟ اسی طرح کی اور تقریبیں انھیں پیش آتی تھیں کہ بیان آئندہ سے واضح ہو گا۔ غرض اس معاملہ میں میاں بے تاب کا قول لکھ رکھنے کے قابل ہے۔ کہ سیّد انشاء کے فضل و کمال کو شاعری نے کھویا۔ اور شاعری کو سعادت علی خاں کی مصاحبت نے ڈبویا۔

ایک دن نواب صاحب کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ اور گرمی سے گھبرا کر دستار سر سے رکھ دی تھی۔ منڈا ہوا سر دیکھ کر نواب کی طبیعت میں چہل آئی۔ ہاتھ بڑھا کر پیچھے سے ایک دھول ماری ۔۔۔۔۔۔۔ آپ نے جلدی سے ٹوپی سر پر رکھ لی۔ اور کہا، سبحان اللہ، بچپن میں بزرگ سمجھایا کرتے تھے وہ بات سچ ہے کہ ننگے سر کھانا کھاتے ہیں تو شیطان دھولیں مارا کرتا ہے۔

سعادت علی خاں کہ ہر امر میں سلیقہ اور صفائی کا پابند تھا اس نے حکم دیا کہ اہلِ دفتر خوش خط لکھیں۔ اور فی غلطی ایک روپیہ جُرمانہ۔ اتفاقاً اعلٰی درجے کے اہل انشاء میں ایک مولوی صاحب تھے۔ انھوں نے فرد حساب میں اجناس کو اجنا لکھ دیا۔ سعادت علی خاں تو ہر شے پر خود نظر رکھتے تھے۔ ان کی بھی نگاہ پڑ گئی۔ مولویوں کو جواب دینے میں کمال ہوتا ہے۔ انھوں نے کچھ قاموس، کچھ صراح سے اجنا کے معنی بتائے، کچھ قواعد نحو سے ترخیم میں لے گئے۔ نواب نے انھیں اشارہ کیا۔ انھوں نے مارے رباعیوں اور قطعوں کے اُتّو کر دیا۔

اجناس کی فرد پہ اجنا کیسا؟
یاں ابرِ لغات کا گرجنا کیسا؟

گو ہوں اجنا کے معنے جو چیز اُگے
لیکن یہ نئی اُپچ اپجنا کیسا؟​

اُن مولوی صاحب کا نام مولوی سجن تھا۔ چنانچہ اس کا اشارہ کرتے ہیں۔

ترخیم کے قاعدے سے سجنا لکھیئے
اور لفظ خر و جنا کو خجنا لکھیئے

گر ہم کو اجی نہ لکھئے ہووے لکھنا
تو کر کے مرخم اس کو اجنا لکھئے

اجناس کے بدلے لکھئے اجنا کیا خوب
قاموس کی رعد کا گرجنا کیا خوب

ازروئے لغت نئی اپج کی لی ہے
اس تان کے بیج کا اپجنا کیا خوب​

پوربی لہجہ میں

اجناس کا موقعن میں اجنا آیا
سلمائے علوم کا یہ سجنا آیا

اجنا چیزیست کاں برویدز زمیں
یہ تخم لغت کا لوُ اپجنا آیا

رات بہت گئی تھی۔ اور ان کے لطائف و ظرافت کی آتشبازی چھٹ رہی تھی۔ یہ رخصت چاہتے تھے۔ اور موقع نہ پاتے تھے۔ نواب کے ایک مصاحب باہرے کے رہنے والے اکثر اہلِ شہر کی باتوں پر طعن کیا کرتے تھے اور نواب صاحب سے کہا کرتے تھے کہ آپ خواہ مخواہ سید انشاء کے کمال کر بڑھاتے چڑھاتے ہیں، حقیقت میں وہ اتنے نہیں۔ اس وقت انھوں نے بقاؔ کا یہ مطلع نہایت تعریف کے ساتھ پڑھا :-

دیکھ آئینہ جو کہتا ہے کہ اللہ رے میں

اس کا میں دیکھنے والا ہوں بقاؔ واہ رے میں​

سب نے تعریف کی۔ نواب نے بھی پسند کیا۔ انھوں نے کہا کہ حضور سید انشاء سے اس مطلع کو کہوائیں۔ نواب نے ان کی طرف دیکھا۔ مطلع حقیقت میں لاجواب تھا۔ انھوں نے بھی ذہن لڑایا، فکر نہ کام نہ کیا۔ انھوں نے پھر تقاضا کیا۔ سید موصوف نے فوراً عرض کی کہ جناب عالی مطلع تو نہیں ہوا، مگر شعر حسب حال ہو گیا ہے، حکم ہو تو عرض کروں۔

ایک ملکی کھڑا دروازہ پہ کہتا تھا یہ رات

آپ تو بہتیرے جا پاڑہ رہے باہرے میں​

بہت سے لطائف اِن کے بباعث شدت بے اعتدالی کے قلم انداز کرنے پڑے جو کچھ کہ لکھتا ہوں، یہ بھی لائق تحریر نہیں سمجھتا۔ لیکن اس نظر سے بے جا نہیں کہ جو لوگ خار حنظل سے گلِ عبرت چنتے ہیں۔ انھیں اس میں سے ایک مشہور مصنف کی شوخیِ طبع کا نمونہ معلوم ہو گا۔ اور دیکھیں گے کہ اس صاحبِ کمال کو زمانہ شناسی اور اہل زمانہ سے مطلب برآری کا کیسا ڈھب تھا۔ ایک دن نواب نے روزہ رکھا اور حکم دیا، کوئی آنے نہ پائے۔ سید انشاء کو ضروری کام تھا۔ یہ پہنچے، پہرہ دار نے کہا کہ آج حکم نہیں، آگے آپ مالک ہیں۔ باوجود انتہائے مرحمت کے یہ بھی مزاج سے ہشیار رہتے تھے۔ تھوڑی دیر تامل کیا، آخر کمر کھول دستار سر سے بڑھا قُبا اتار ڈالی اور دوپٹہ عورتوں کی طرح سے اوڑھ کر ایک ناز و انداز کے ساتھ سامنے جا کھڑے ہوئے۔ جونہی اُن کی نظر پڑی، آپ انگلی ناک پر دھر کر بولے۔

میں ترے صدقے نہ رکھ اے مری پیاری روزہ

بندی رکھ لے گی ترے بدلے ہزاری روزہ​

نواب بے اختیار ہنس پڑے، جو کچھ کہنا سننا تھا وہ کہا اور ہنستے چلے آئے۔

اِن کے حالات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے عامہ خلائق خصوصاً اہل دہلی کی رفاقت اور رواج کار کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔ چنانچہ لکھنؤ میں میر علی صاحب ایک مرثیہ خوان تھے کہ علم موسیقی میں انھوں نے حکماء کا مرتبہ حاصل کیا تھا۔ مگر اپنے گھر ہی میں مجلس کر کے پڑھتے تھے۔ کہیں جا کر نہ پڑھتے تھے۔ نواب نے ان کے شہرہ کمال سے مشتاق ہو کر طلب کیا۔ انھوں نے انکار کیا اور کئی بار پیغام سلام کے بعد یہ بھی کہا کہ اگر وہ حاکم وقت ہیں تو میں بھی سیادت کے اعتبار سے شہزادہ ہوں۔ انھیں میرے ہاں آنے سے عذر کیا ہے؟ نواب نے کہا کہ سیَّد میرے ہاں ہزاروں سے زیادہ ہیں، میر صاحب نے اگر فخر پیدا کیا تو یہی کہ سید تھے اب ڈوم بھی ہو گئے خیر انھیں اختیار ہے۔ میر علی صاحب نے یہ سُن کر خیالات چند در چند سے فوراً دکن کا ارادہ کیا۔ سید انشاء جو شام کو گھر آئے تو دیکھا کچھ سامانِ سفر ہو رہا ہے۔ سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ میر علی صاحب لکھنؤ سے جاتے ہیں۔ چونکہ اپ کے بھتیجے بھانجے بھی ان کے شاگرد ہیں وہ بھی استاد کی رفاقت کرتے ہیں۔ میر علی صاحب کے جانے کا سبب پوچھا تو یہ معلوم ہوا۔ اسی وقت کمر باندھ کر پہنچے۔ سعادت علی خاں نے متحیر ہو کر پوچھا کہ خیر باشد! پھر کیوں آئے؟ انھوں نے ایک غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ ہے۔

دولت بنی ہے اور سعادت علی بنا

یارب بنا بنی میں ہمیشہ بنی رہے​

پھر کہا حضور! غلام جو اس وقت رخصت ہو کر چلا تو دل نے کہا کہ اپنے دولھا کی دلھن (عروس سلطنت) کو ذرا دیکھوں! حضور! واقعی کہ بارہ ابھرن سولہ سنگار سے سجی تھی۔ سر پر جُھومر۔ وہ کون؟ مولوی دلدار علی صاحب ، کانوں میں جھمکے۔ وہ کون؟ دونوں صاحبزادے، گلے میں نولکھا ہار، وہ کون؟ خان علامہ، غرض اسی طرح چند زیوروں کے نام لے کر کہا کہ حضور غور جو کرتا ہوں تو ناک میں نتھ نہیں دل دھک سے ہو گیا کہ اللہ سہاگ کو قائم رکھے، یہ کیا نواب نے پوچھا کہ پھر وہ کون؟ کہا حضور نتھ امیر علی صاحب! بعد اس کے کیفیت مفصل بیان کی۔ نواب نے ہنس کر کہا کہ ان کی دُور اندیشیاں بے جا ہیں۔ میں ایسے صاحبِ کمال کو فخر لکھنؤ سمجھتا ہوں، غرض اس شہرت بے اصل کے لئے ترقی کا پروانہ اور ۵۰۰ روپیہ کا خلعت لے کر وہاں سے پھرے۔

جان بیلی صاحب کہ اس عہد میں ریزیڈنٹ اودھ تھے۔ اگرچہ سیّد انشاء کا نام اور شہرہ عام سنتے تھے۔ مگر دیکھا نہ تھا۔ جب سید انشاء نواب سعادت علی خاں کے پاس ملازم ہوئے تو ایک دن صاحب کے آنے کی خبر ہوئی۔ نواب نے کہا انشاء آج تمہیں بھی صاحب سے ملائیں گے۔ عرض کی حضور کی ہر طرح پرورش ہے مگر فدوی کے باب میں کچھ تقریب ملاقات کی ضرورت نہیں۔ غرض جس وقت صاحب ممدوح آئے، نواب اور وہ آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے، سیّد انشاء نواب کے پیچھے کھڑے ہو کر رومال ہلاتے تھے۔ باتیں کرتے کرتے صاحب نے ان کی طرف دیکھا۔ انھوں نے ایک چہرہ کی لی۔ انھوں نے آنکھیں نیچی کر لیں۔ مگر دل میں حیران ہوئے کہ اس آدمی کی کیسی صورت ہے؟ یہ خیال کرتے ہیں پھر نظر پری۔ اب کی دفعہ انھوں نے ایسا چہرہ بدلا کہ اس سے بھی عجیب وہ شرما کر اور طرف دیکھنے لگے، پھر جو دیکھا تو انھوں نے ایسا منھ بنایا کہ اس سے بھی الگ تھا۔ آخر نواب سے پوچھا کہ یہ مصاحب آپ کے پاس کب ملازمت میں آئے، میں نے آج ہی انھیں دیکھا ہے۔ نواب نے کہا کہ ہاں آپ نے نہیں دیکھا۔ سید انشاء اللہ خاں یہی ہیں۔ جان بیلی صاحب بہت ہنسے۔ ان سے ملاقات کی۔ پھر ان کی جادوبیانی نے ایسا تسخیر کیا کہ جب آتے پہلے پوچھتے کہ سیّد انشاء کجا است؟ جان بیلی صاحب کے ساتھ علی نقی خاں میر منشی ریذیڈنسی بھی آیا کرتے تھے۔ ان کی عجیب لطف کی چوٹیں ہوتی تھیں۔ ایک دن اثنائے گفتگو میں کسی کی زبان سے نکلا۔

مصرعہ : شاید کہ پلنگ خفیہ باشد​

انھوں نے کہا کہ گلستاں کے ہر شعر میں مختلف روائتیں ہیں، اور لطف یہ ہے کہ کوئی کیفیت سے خالی نہیں، چنانچہ ہو سکتا ہے۔

مصرعہ : شاید کہ پلنگ خفیہ باشد​

سعادت علی خاں نے سیّد انشاء کی طرف دیکھا۔ انھوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ حضور! میر منشی صاحب بجا فرماتے ہیں۔ غلام نے بھی ایک نسخہ گلستاں میں یہی دیکھا تھا۔

تامرد سخن نگفیہ باشد

عیب و ہنرش نہفیہ باشد


در بیشہ گمال مبر کہ خالی ست

شاید کہ پلنگ خفیہ باشد​

بلکہ وہ نسخہ بہت صحیح اور محشی تھا اور اس میں گفیہ اور نہفیہ کے کچھ معنے بھی لکھے تھے میر منشی صاحب! اپ کو یاد ہیں؟ وہ نہایت شرمندہ ہوئے۔ جب وہ رخصت ہوتے تو سیّد انشاء کہا کرتے، میر منشی صاحب کا اللہ بیلی۔

ایک دن اسی جلسہ میں کچھ ایسا تذکرہ آیا۔ سعادت علی خاں نے کہا، ہجر بافتح بھی درست ہے۔ جان بیلی صاحب نے کہا کہ خلاف محاورہ ہے۔ سعادت علی خاں بولے کہ خیر لغت کے اعتبار سے جب درست ہے تو استعمال میں کیا مضائقہ، اتنے میں سید انشاء آ گئے۔ جان بیلی صاحب نے کہا کہ کیوں سید انشاء ہجر اور ہجر میں تم کیا کہتے ہو۔ انھیں یہاں کی کبر نہ تھی، بے ساختہ کہہ بیٹھے کہ ہجر بالکسر! مگر سعادت علی خاں کی تیوری تاڑ گئے۔ اور فوراً بولے کہ حضور جب ہی تو جامی فرماتے ہیں۔

شب وصل است و طے شد نامہ ہجر

سَلَامُ ھِیٰی حَتّے مَطلعِ الفَجر​

یہ سنتے ہی سعادت علی خاں شگفتہ ہو گئے اور اہلِ دربار ہنس پڑے۔ مرزا سلیمان شکوہ کا مکان لب دریا تھا، معلوم ہوا کہ کل یہاں ایک اشنان کا میلہ ہے۔ سید انشاء نے کہ رنگت کے گورے، بدن کے فربہ، صورت کے جامہ زیب تھے۔ پنڈتان کشمیر کا لباس درست کر کے سب سامان پوجا پاٹ کا تیار کیا۔ صبح کو سب سے پہلے دریا کے کنارے ایک مہنت دھرم مورت بن کر جا بیٹھے اور خوب زور شور سے اشلوک پڑھنے اور منتر چلنے شروع کر دیئے۔ لوگ اشنان کے لئے آنے لگے۔ مگر عورت مرد، بچہ، بوڑھا جو آتا، الفربہ کواہ مخواہ مرد آدمی دیکھ کر انھیں کی طرف جھکتا۔ یہ انھیں پوجا کرواتے تھے۔ تلک لگاتے تھے۔ جن دوستوں سے یہ راز کہہ رکھا تھا۔ انھوں نے مرزا سلیمان شکوہ کو خبر کی۔ وہ مع جلسہ اسی وقت لبِ بام آئے دیکھا تو فی الحقیقت اناج، آٹا، پیسے، کوڑیوں کے ڈھیر لگے ہیں۔ وہ بھی اس قدر کہ سب سے زیادہ۔ اس میں تفریح طبع یا لیاقت ہر فن کے اظہار کے ساتھ یہ نکتہ تھا کہ حضور خانہ زاد کو وبال دوش نہ سمجھیں، نہ اس شاعری کا پابند جانیں، جس کوچہ میں جائے گا۔ اوروں سے کچھ اچھا ہی نکلے گا۔ فائق تخلص ایک فلک زدہ شاعر تھا۔ خدا جانے کس بات پر خفا ہوا کہ ان کی ہجو کہی اور خود لا کر سنائی۔ انھوں نے بہت تعریف کی، بہت اُچھلے، بہت کودے اور پانچ روپے بھی دئے۔ جب وہ چلا تو بولے ذرا ٹھہرئے گا۔ ابھی آپ کا حق باقی ہے۔ قلم اُٹھا کر یہ قطعہ لکھا اور حوالہ کیا۔

فائق بے حیا چو ہجوم گفت

دل من سوخت سوخت سوختہ بہ


سلہ اش پنچ روپیہ دادم

دہن سگ بہ لقمہ دوختہ بہ​

دلّی میں حافظ احمد یارؔ ایک معقول صحبت یافتہ نامور حافظ تھے اور سرکار شاہی میں حافظان قرآن میں نوکر تھے۔ اگرچہ دنیا میں ایسا کون تھا جسے سے سید انشاء یارانہ نہ برتیں، مگر حافظ احمد یار کے بڑے یار تھے۔ ان کا سجع کہا تھا۔ مصرعہ "اللہ حافظ احمد یار" حافظ صاحب ایک دن ملنے گئے۔ رستہ میں مینھ آ گیا اور وہاں پہنچتے تک موسلا دھار برسنے لگا، یہ جا کر بیٹھے ہی تھے جو حرم سرا سے ننگے مننگے ایک کھاروے کی لنگی باندھے آپ دوڑے آئے۔ انھیں دیکھتے ہی اُچھلنے لگے۔ ہاتھ پھیلا کر گرد پھرتے تھے اور کہتے جاتے تھے۔

بھر بھرچھاجوں برست نُور

رد بَلیَّاں دُسمن دور​

حافظ مذکور جب رخصت ہوتے تھے تو ہمیشہ کہا کرتے تھے۔ مصرعہ "اللہ حافظ احمد یار"۔ ایسے ایسے معاملے ہزاروں تھے کہ دن رات بات بات میں ہوتے رہتے تھے۔

نہایت افسوس کے قابل یہ بات ہے کہ سعادت علی خاں کے ہاتھوں سید انشاء کا انجام اچھا نہ ہوا۔ اس کے مختلف سبب ہیں۔ اوَّل تو یہ کہ اگرچہ اپنی ہمہ رنگ طبیعت کے زور سے انھوں نے انھیں پرچا لیا تھا۔ مگر درحقیقت ان کے اور ان کے معاملہ کا مصداق اِن کا مطلع تھا۔

رات وہ بولے مجھے سے ہنس کر چاہ میاں کچھ کھیل نہیں

میں ہوں ہنسوڑ اور تو ہے مقطع میرا تیرا میل نہیں​

مثلاً اکثر میلوں تماشوں میں چلنے کے لئے کچھ احباب کا تقاضا کچھ ان کی طبیعت اصلی کا تقاضا، غرض انھیں جانا ضرور، اور سعادت علی خاں کی طبع کے بالکل مخالف۔ اکثر ایسا ہوا کہ وہ اپنے کاغذات دیکھ رہے ہیں۔ مصاحبوں کے ساتھ یہ بھی حاضر ہیں۔ اس میں ایک آدھ لطیفہ بھی ہوتا جاتا ہے، انھوں نے عرض کی حضور غلام کو اجازت ہے؟ وہ بولے کہ ہوں! کہاں؟ انھوں نے کہا کہ حضور آج آٹھوں کا میلہ ہے، انھوں نے کہا لاحول ولاقوۃ۔ سید انشاءؔ بولے کہ مناسب تو یہ تھا کہ حضور بھی تشریف لے چلتے۔ نواب نے کہا انشاء ایسے ناروا مقاموں میں جانا تمھیں کس نے بتایا ہے! عرض کی، حضور وہاں تو جانا ایک اعتبار سے فرض عین ہے۔ اور ایک نظر سے واجب کفائی ہے۔ ایک لحاظ سے سنت ہے۔ پھر سب کی توجیہیں الگ الگ بیان کیں۔ آخر اسی عالم مصروفیت میں سنتے سنتے دق ہو کر نواب نے کہہ دیا۔ قصہ مختصر کرو اور جلدی سدھارو۔ اسی وقت مونچھوں پر تاؤ دیکر بولے کون ہے آج سوا سید انشاء کے جو کچھ کہے۔ اُسے عقل سے نقل سے آیت سے روایت سے ثابت کر دے۔ ایسی باتیں بعض موقع پر نواب کو موجب تفریح ہوتی تھیں۔ بعض دفعہ بمقضہائے طبیعت اصلی مکدر ہو جاتے تھے۔ خصوصاً جب کہ رخصت کے وقت خرچ مانگتے تھے۔ کیونکہ وہ شاہ عالم نہ تھا۔ سعادت علی خاں تھا۔

گر جاں طلبی مضائقہ نیست

زر مے طلبی سخن دریں است​

غضب یہ ہوا کہ ایک دن سرور بار بعض شرفائے خاندانی کی شرافت و نجابت کے تذکرے ہو رہے تھے۔ سعادت علی خاں نے کہا کہ کیوں بھئی ہم بھی نجیب الطرفین ہیں۔ اسے اتفاق وقت کہو یا یاوہ گوئی کا ثمرہ سمجھو۔ سیّد انشاء بول اٹھے کہ حضور بلکہ انجب، سعات علی خاں حرم کے شکم سے تھے وہ چپ اور تمام دربار درہم برہم ہو گیا۔ اگرچہ انھوں نے پھر اور (معتبر لوگوں کی زبانی معلوم ہوا کہ جب گُنّا بیگم دختر قزلباش خاں امید کے حسن و جمال، سلیقے، سگھڑاپے، حاضر جوابی اور موزونی طبع کی شہرت ہوئی تو نواب شجاع الدولہ نوجوان تھے، اسی سے شادی کرنی چاہی۔ بزرگوں نے حسبِ آئین بادشاہ سے اجازت مانگی۔ فرمایا کہ اس کے لئے ہماری تجویز کی ہوئی ہے۔ ایک خاندانی سید زادی لڑکی کو حضور نے بہ نظر ثواب خود بیٹی کر کے پالا تھا، اس کے ساتھ شادی کی۔ اور اس دھوم دھام سے کہ شاید کسی شہزادی کی ہوئی ہو، یہی سبب تھا کہ شجاع الدولہ اور تمام خاندان ان کی بڑی عظمت کرتےتھے۔ دلہن بیگم صاحبہ ان کا نام تھا اور آصف الدولہ کی والدہ تھیں۔ سعادت علی خاں کو بچپن میں منگلو کہتے تھے کہ منگل پیدا ہوئے تھے۔ بیگم کے دل میں جو خیالات ان کے باب میں تھے اکثر ظاہر بھی ہو ہی جاتے تھے، مگر زیرکی اور دانائی کے آثار بچپن ہی سے عیاں تھے۔ نواب شجاع الدولہ کہا کرتے تھے کہ بیگم اگر منگلو کے سر پر تم ہاتھ رکھو گی تو تمہارے دوپٹہ کا پھریرا لگائے گا۔ اور نربدا کے اس پار گاڑے گا۔)

باتیں بنا بنا کر بات کو مٹانا چاہا۔ مگرکمانِ تقدیر سے تیر نکل چکا تھا، وہ کھٹک دل سے نہ نکلی کہ

اب نواب کے انداز بدلنے لگے اور اس فکر میں رہنے لگے کہ کوئی بہانہ ان کی سخت گیری کے لئے ہاتھ آئے۔ یہ بھی انواع و اقسام کے چٹکلوں سے ان کے آئینہ غیات کو چمکاتے۔ مگر دل کی کدورت صفائی کی صورت نہ بننے دیتی تھی۔ ایک دن سید انشاء نے بہت ہی گرم لطیفہ سنایا، سعادت علی خاں نے کہا کہ انشاء جب کہتا ہے ایسی بات کہتا ہے کہ نہ دیکھی ہو نہ سنی ہو، یہ مونچھوں پر تاؤ دے کر بولے کہ حضور کے اقبال سے قیامت تک ایسے ہی کہے جاؤں گا کہ نہ دیکھی ہو نہ سنی ہو۔ نواب تو تاک میں تھے۔ چیں بچیں ہو کر بولے کہ بھلا زیادہ نہیں فقط دو لطیفے روز سنا دیا کیجیے۔ مگر شرط یہی ہے کہ نہ دیکھے ہوں نہ سنے ہوں۔ نہیں تو خیر نہ ہو گی۔ سیّد انشاء سمجھ گئے کہ یہ انداز کچھ اور ہیں۔ خیر اس دن سے دو لطیفے روز تو انھوں نے سنانے شروع کر دیئے مگر چند روز میں یہ عالم ہو گیا کہ دربار کو جانے لگتے تو جو پاس بیٹھا ہوتا اسی سے کہتے کہ کوئی نقل کوئی چٹکلا یاد ہو تو بتاؤ، نواب کو سنائیں۔ وہ کہتا کہ جناب بھلا آپ کے سامنے اور ہم چٹکلے کہیں۔ یہ کہتے کہ میاں کوئی بات چڑیا کی چڑنگل کی جو تمھیں یاد ہو کہہ دو، میں نون مرچ لگا کر اسے خوش کر لوں گا۔ اسی اثناء میں ایک دن ایسا ہوا کہ سعادت علی خاں نے انھیں بلا بھیجا۔ یہ کسی اور امیر کے ہاں گئے ہوئے تھے۔ چوبدار نے آ کر عرض کی کہ گھر نہیں ملے۔ خفا ہو کر حکم دیا کہ ہمارے سوا کسی اور کے ہاں نہ جایا کرو۔ اس قید بے زنجیر نے انھیں بہت دق کیا۔ زیادہ مصیبت یہ ہوئی کہ تعالی اللہ خاں نوجوان بیٹا مر گیا۔ اس صدمہ سے حواس میں فرق آ گیا۔ یہاں تک کہ ایک دن سعادت علی خاں کی سواری ان کے مکان کی طرف سے نکلی، کچھ غم و غصہ کچھ دل بے قابو۔ غرض سرراہ کھڑے ہو کر سخت و سُست کہا۔ سعادت علی خاں نے جا کر تنخواہ بند کر دی، اب جنون میں کیا کسر رہی۔

سعادت یار خاں رنگین اس کے بڑے یار تھے اور دستار بدل بھائی تھے۔ چنانچہ سیّد انشاء خود کہتے ہیں۔

عجب رنگینیاں ہوتی ہیں کچھ باتوں میں اے انشاء

بہم مل بیٹھتے ہیں جب سعادت یار خاں اور ہم​

خاں موصوف کہا کرتے تھے کہ لکھنؤ میں سید انشاء کے وہ رنگ دیکھے جن کا خیال کر کے دُنیا سے جی بیزار ہوتا ہے۔ ایک تو وہ اوج کا زمانہ تھا کہ سعادت علی خاں کی ناک کے بال تھے۔ اپنی کمال لیاقت اور شگفتہ مزاجی کے سبب سے مرجع خلائق تھے، دروازے پر گھوڑے، ہاتھی، پالکی نالکی کے ہجوم سے رستہ نہ ملتا تھا۔ دوسری وہ حالت کہ پھر جو میں لکھنؤ گیا تو دیکھا کہ ظاہر درست تھا مگر درخت اقبال کی جڑ کو دیمک لگ گئی تھی۔ میں ایک شخص کی ملاقات کو گیا۔ وہ اثنائے گفتگو میں دوستان دنیا کی ناآشنائی اور بے وفائی کی شکایت کرنے لگے۔ میں نے کہا، البتہ ایسا ہے، مگر پھر بھی زمانہ خالی نہیں۔ انھوں نے زیادہ مبالغہ کیا۔ میں نے کہا کہ ایک ہمارا دوست انشاء ہے کہ دوست کے نام پر جان دینے کو موجود ہے۔

وہ خاموش ہوئے اور کہا کہ اچھا زیادہ نہیں۔ آج آپ ان کے پاس جائیے اور کہیے ہمیں ایک تربوز بازار سے لا کر کھلا دو۔ موسم کا میوہ ہے، کچھ بڑی بات بھی نہیں ہے، میں نے کہا کہ بھلا یہ بھی فرمائش ہے۔ وہ بولے بس یہی فرمائش ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ خود لا کر کھلائیں بلکہ چار آنے کے پیسے بھی آپ مجھ سے لے جائیں۔ میں اسی وقت اُٹھ کر پہنچا۔ انشاء عادت قدیم کے بموجب دیکھتے ہی دوڑے صدقہ قربان گئے۔ جم جم آئیے۔ نِت نِت آئیے۔ بلائیں لینے لگے۔ میں نے کہا یہ ناز و انداز ذرا طاق میں رکھو۔ پہلے ایک تربوز تو لا کر کھلاؤ۔ گرمی نے مجھے جلا دیا۔ انھوں نے آدمی کو پکارا۔ میں نے کہا کہ آدمی کی سہی نہیں۔ تم آپ جاؤ اور ایک اچھا سا شہدی تربوز دیکھ کر لاؤ۔ انھوں نے کہا کہ نہیں آدمی معقول ہے۔ اچھا ہی لائے گا۔ ------------------------------------------------------------------------ میں نے کہا نہیں کھاؤں گا تو تمہارا ہی لایا ہوا کھاؤں گا۔ انھوں نے کہا تو دیوانہ ہوا ہے! یہ بات کیا ہے۔ تب میں نے داستان سُنائی، اس وقت انھوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہا بھائی وہ شخص سچا اور ہم تم دونوں جھوٹے، کیا کروں؟ ظالم کی قید میں ہوں سِوا دربار کے گھر سے نکلنے کا حکم نہیں۔ تیسرا رنگ میاں رنگین بیان کرتے ہیں کہ میں سوداگری کے لئے گھوڑے لر کر لکھنؤ گیا اور سرا میں اُترا۔ شام ہوئی تو معلوم ہوا کہ قریب ہی مشاعرہ ہوتا ہے۔ کھانا کھا کر میں بھی جلسہ میں پہنچا۔ ابھی دو تین سو آدمی آئے تھے۔ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ حقے پی رہے تھے۔ میں بھی بیٹھا ہوں، دیکھتا ہوں کہ ایک شخص میلی کچیلی روئی دار مرزئی پہنے، سر پر ایک میلا سا پھنٹیا، گھٹنا پاؤں میں، گلے میں پیکوں کا توبڑا ڈالے ایک ککڑ کا حقہ ہاتھ میں لئے آیا اور سلام علیکم کہہ کر بیٹھ گیا۔ کسی کسی نے اس سے مزاج پرسی بھی کی۔ اس نے تو اپنے توبڑے میں ہاتھ ڈال کر تمباکو نکالا اور اپنی چلم پر سُلفا جما کر کہا، کہ بھئی ذرا سی آگ ہو تو اس پر رکھ دینا۔ اسی وقت آوازیں بلند ہوئیں، اور گڑگڑی سٹک پیچوان سے لوگ تواضع کرنے لگے۔ وہ بے دماغ ہر کو بولا کہ صاحب! ہمیں ہمارے حال پر رہنے دو۔ نہیں تو ہم جاتے ہیں۔ سب نے اس کی بات کے لئے تسلیم اور تعمیل کی۔ دم بھر کے بعد پھر بولا کہ کیوں صاحب ابھی مشاعرہ شروع نہیں ہوا۔لوگوں نے کہا، جناب لوگ جمع ہوتے جاتے ہیں، سب صاحب آ جائیں تو شروع ہو۔ وہ بولا کہ صاحب ہم تو اپنی غزل پڑھے دیتے ہیں۔ یہ کہہ کر توبڑے میں سے ایک کاغذ نکالا اور غزل پڑھنی شروع کر دی۔

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں

نہ چھیڑ اے نکہت بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

تصّور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی پر
غرض کچھ زور دھن میں اس گھڑی میخوار بیٹھے ہیں

بسان نقشِ پائے رہرواں کوئے تمنّا میں
نہیں اتھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں

یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں سے سایہ دیوار بیٹھے ہیں

کہاں صبر و تحمل آہ ننگ و نام کیا شے ہے
میاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم بیکار بیٹھے ہیں

بھلا گردش فلک کی چین دیتی ہے کسے انشاء
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں

وہ تو غزل پڑھ، کاغذ پھینک سلام علیک کہہ کر چلے گئے۔ مگر زمین و آسمان میں سناٹا ہو گیا اور دیر تک دلوں پر ایک عالم رہا۔ جس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ غزل پڑھتے میں میں نے بھی پہچانا۔ حال معلوم کیا تو بہت رنج ہوا۔ اور گھر پر جا کر پھر ملاقات کی۔ چوتھی دفعہ لکھنؤ گیا تو پوچھتا ہوا گھر پہونچا۔ افسوس جس دروازے پر ہاتھی جُھومتے تھے وہاں دیکھا کہ خاک اڑتی ہے اور کُتّے لوٹتے ہیں۔ ڈیوڑھی پر دستک دی، اندر سے کسی بڑھیا نےپوچھا کہ کون ہے بھائی؟ (وہ ان کی بی بی تھیں) میں نے کہا کہ سعادت یار خاں دلّی سے آیا ہے۔ چونکہ سید انشاء سے انتہائی درجہ کا اتحاد تھا۔ اس عفیفہ نے پہچانا۔ دروازہ پر آ کر بہت روئیں اور کہا کہ بھیّا ان کی تو عجب حالت ہے۔ اے لو میں ہٹ جاتی ہوں۔ تم اندر آؤ اور دیکھ لو۔ میں اندر گیا دیکھا کہ ایک کونے میں بیٹھے ہیں۔ تن برہنہ ہے۔ دونوں زانوؤں پر سر دھرا ہے۔ آگے راکھ کے ڈھیر ہیں۔ ایک ٹوٹا سا حقہ پاس رکھا ہے، یا تو وہ شان و شوکت کے جمگھٹ دیکھے تھے۔ وہ گرمجوشی اور چہلوں کی ملاقاتیں ہوتی تھیں یا یہ حالت دیکھی، بے اختیار دل بھر آیا۔ میں بھی وہیں پر بیٹھ گیا۔ اور دیر تک رویا۔ جب جی ہلکا ہوا تو میں نے پکارا کہ سید انشاء، سر اٹھا کر اس نظرِ حسرت سے دیکھا جو کہتی تھی کیا کروں، آنکھوں میں آنسو نہیں، میں نے کہا، کیا حال ہے، ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ شکر ہے، پھر اسی طرح سر کو گھٹنوں پر رکھ لیا کہ نہ اُٹھایا۔

بعض فلاسفہ یونان کا قول ہے کہ مدّتِ حیات ہر انسان کی سانسوں کے شمار پر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ہر شخص جس قدر سانس یا جتنا رزق اپنا حصّہ لایا ہے۔ اسی طرح ہر شے کہ جس میں خوشی کی مقدار اور ہنسی کا اندازہ بھی داخل ہے وہ لکھوا کر لایا ہے۔ سید موصوف نے اس ہنسی کی مقدار کو جو عمر بھر کے لئے تھی، تھوڑے وقت میں صرف کر دیا۔ باقی یا تو خالی رہا یا غم کا حصہ ہو گیا۔

غزلیات

جھڑکی سہی ادا سہی چین جبیں سہی
یہ سب سہی پر ایک نہیں کی نہیں سہی

مرنا مرا جو چاہے تو لگ جا گلے سے ٹک
اٹکا ہے دم مرا یہ دم واپسیں سہی

گر نازنین کے کہنے سے مانا بُرا ہو کچھ
میری طرف تو دیکھیے میں نازنین سہی

آگے بڑھے جو جاتے ہو کیوں کون ہے یہاں
جو بات ہم کو کہنی ہے تم سے نہیں سہی

منظور دوستی جو تمھیں ہے ہر ایک سے
اچھا تو کیا مضائقہ انشاء سے کیں سہی

  • -*-*-*-*


یہ نہیں برق اک فرنگی ہے
رعد و باراں قشون جنگی ہے

کوئی دُنیا سے کیا بھلا مانگے
وہ تو بے چاری آپ ننگی ہے

واہ دلّی کی مسجد جامع
جس میں براق فرش سنگی ہے

حوسلہ ہے فراخ رندوں کا
خرچ کی پر بہت سی تنگی ہے

لگ گئے عیب سارے اس کے ساتھ
یوں کہا جس کر مردِ بنگی ہے

ڈر و وھشت کی دھوم دھام سے تم
وہ تو اک دیونی و بنگی ہے

جوگی جی صاحب آپ کی بھی واہ
دھرم مورت عجب کو ڈھنگی ہے

آپ ہی آپ ہے پکار اُٹھتا
دل بھی جیسے گھڑی فرنگی ہے

چشم بد دُور شیخ جی صاحب
کیا ازار آپ کی اوٹنگی ہے

شیخ سعدیِ وقت ہے اِنشاء
تو ابوبکر سعدِ زنگی ہے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


خیال کیجئے کیا آج کام میں نے کیا
جب ان نے دی مجھے گلای سلام میں نے کیا

کہا یہ صبر نے دل سےکہ لو خدا حافظ
کہ حق بندگی اپنا تمام میں نے کیا

جنوں یہ آپ کی دولت ہوئی نصیب مجھے
کہ ننگ و نام کر چھوڑا یہ نام میں نے کیا

لگا یہ کہنے کہ خیر، اختلاط کی کوبی
حوالے یار کے خالی جو جام میں نے کیا

جھڑک کے کہنے لگے لگ چلے بہت اب تم
کبھی جو بُھول کے ان سے کلام میں نے کیا

کیا زبانی دل کر بیاں، کہ کہتا ہے
صنم کو اپنے غرض اب تو رام میں نے کیا

کہیں نہ مانیو، بہتان ہے یہ سب اِس پر
ہنسی کے واسطے یہ اتہام میں نے کیا

تمہارے واسطے تم اپنے دل میں غور کرو
کبھی کسی سے نہ ہو جو مدام میں نے کیا

مقیم کعبہ دل جب ہوا تو زاہد کو
روانہ جانب بیت الحرام میں نے کیا

مزا یہ دیکھیے گا شیخ جی رُکے اُلٹے
جو ان کا بزم میں کل اِحترام میں نے کیا

عجب طرح کے مزے چاندنی میں دیکھ رات
قرار جا کے جر برپشتِ بام میں نے کیا

ہوس یہ رہ گئی صاحب نے پر کبھی نہ کہا
کہ آج سے تجھے انشاء غلام میں نے کیا

دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا
جب دھم سے آ کہوں گا صاحب سلام میرا

ہمسایہ آپ کے میں لیتا ہوں اک حویلی
اس شہر میں ہو اگر چندے مقام میرا

جو کچھ کہ عرض کی ہے سو کر دکھاؤنگا میں
واہی نہ آپ سمجھیں یونہی کلام میرا

اچھا مجھے ستاؤ جتنا کہ چاہو میں بھی
سمجھوں گا گر ہے انشاء اللہ نام میرا

میں غش ہوا کہا جو ساقی نے مجھ سے ہنسکر
یہ سبز جام تیرا اور سُرخ جام میرا

پوچھا کِسی نے مجھ کو اُن سے کہ کون ہے یہ
تو بولے ہنس کے یہ بھی ہے اِک غلام میرا

محشر کی تشنگی سے کیا خوف سیّد انشاء
کوثر کا جام دے گا مجھ کو امام میرا

  • -*-*-*-*-*-*-*


ہیں زور حُسن سے وہ نہایت گھمنڈ پر
نامِ خدا نگاہ پڑے کیوں نہ ڈنڈ پر

تعویذ لعل ہی کے نہ پھریئے گھمنڈ پر
اک نیلا ڈورا باندھیے اس گورے ڈنڈ پر

یا رب سدا سہاگ کی مہندی رچا کرے
پتے نچیں۔ رہے آفت ارنڈ پر

دو تین دن تو ہو چکے اب پھر چلو وہیں
فیروز شہ کی لاٹھ کے اس چوتھے کھنڈ پر

وہ پہلوان سادہ لب جو پہ ڈنڈ پیل
بولا کہ کوئی غش ہو تو ایسے بھنڈ پر

گلبرگ تر سمجھ کے لگا بیٹھی ایک چونچ
بلبل ہمارے زخم جگر کے کھرنڈ پر

انشاءؔ بدل کے قافیئے رکھ چھیڑ چھاڑ کے
چڑھ بیٹھ ایک اور بچھڑے اکنڈ پر

  • -*-*-*-*-*-*-*


یہ جو مہنت بیٹھے ہیں رادھا کے کنڈ پر
اوتار بن کے گرتے ہیں پریوں کے جھنڈ پر

اے موسمِ خزاں لگے آنے کو تیرے آگ
بلبل اداس بیٹھی ہے اک سوکھے ٹنڈ پر

شیو کے گلے سے پاربتّی جی لپٹ گئیں
کیا ہی بہار آج ہے برہما کے رنڈ پر

راجہ جی ایک جوگی کے چیلے پہ غش ہیں آپ
عاشق ہوئے ہیں واہ عجب لنڈ منڈ پر

انشاء نے سن کے قصّہ فرہاد یوں کہا
کرتا ہے عشق چوٹ تو ایسے ہی منڈ پر

غزل آزادوں کے لہجہ میں

جو چاہے تو مجھ سے ہنسوڑے کی خیر
تو یوں دیکھ اس گھوڑے جوڑے کی خیر

کداوے نشہ کے مرے رخش کو
میاں ساقی اس سلفے کوڑے کی خیر

دکھائی مجھے سیر باغِ ارم
الٰہی ہو اس سبزہ گھوڑے کی خیر

ہنسایا جو میں نے تو بولے نہیں
نظر آتی کچھ اس نگوڑے کی خیر

لگا بیٹھ انشاء کو ٹھوکر تو ایک
ارے اپنے سونے کے توڑے کی خیر

مستزاد

کو صُولت اسکندر و کُو حشمتِ دارا
اے صاحب فطرت

پڑھ فَاعتَبرُو بَاُولِی الاَبصَار کا آیا
تاہو تجھے عبرت

مستانہ جو میں نے قدح بھنگ چڑھایا
در عالمِ وحشت

تب خجر پکارا کہ ھنیاً و مَرّیاً
اب دیکھ حلاوت

ہے جی میں فقیروں کی طرح کھینچ لنگوٹا
اور باندھ کے ہمّت​

جا کنج خرابات میں ٹک گھونٹیے سبزا
یوں کیجیے عبادت

اے حضرتِ عشق آئیے سائیں اجی مولا
یاں کیجیے عنایت

مرشد مرے مالک مرے ہادی مرے داتا
دیجیے مجھے نعمت

ماتھے پہ مرے خطِ الفت اللہ کا کھینچو
سونپو مجھے بستر

تم مونڈگر ہ پیر، یہ بندہ ہوا چیلا
جی سے کرے خدمت

میں خاک نشیں ہو گاگر دہِ فقراء سے
کیا سمجھے ہو مجھ کو

رومال چھڑی لیکے جو ٹک کھینچوں ادا
دکھلاؤں کرامت

گر سیر کناں دیر میں جا نکلوں تو بولوں
ناقوس کو سُن کر

ہاں برہمن بتکدہ عشق است صدارا
ہے تجھ سے بھی الفت

خوش رہتے ہیں چار ابرو کی بتلا کے صفائی
مانند قلندر

نہ ہم کو غم و زد نہ اندیشہ کالا
ہے خوب فراغت

درویش بلا نوش بلا چٹ ہیں میاں دوست
پینک میں جو آویں

افعی کو سہل کر کریں افیون کا گھولا
ہیں ایسے ہی آفت

گاڑھے ہیں ہم اس سے بھی کہ خشکے کو ہلا کر
للکارے تھا یوہیں

دیتا ہوں ہلا کنگرہ عرش معّلٰی
رکھتا ہوں یہ طاقت

آزادوں کے لہجہ میں غزل تو نے سُنائی
از بہر تفنن

اب اپنی تو بولی کے کچھ اشعار کہہ انشاء
ہو جس میں ظرافت

ہے نام خدا دا چھڑے کچھ زور تماشا
یہ آپ کی رنگت

گات ایسی عضب قہر پھبن اور جھمکڑا
اللہ کی قدرت

میں نے جو کہا ہوں میں ترا عاشق شیدا
اے کانِ ملاحت

فرمانے لگے ہنّس کے سُنو اور تماشا
یہ شکل یہ صورت

الحاد و تصوف میں جو تھا فرق بہم یاں
اصلا نہ رہا کچھ

پردہ جو تعین کو محبت نے اٹھایا !
کثرت ہوئی وحدت

تاثیر ہے کیا خاک میں اس نجد کی کہدے
تو مجھ کو تو بارے

ہر پھر کے جو آ نکلے ہے یاں ناقہ لیلٰی اے جذب محبت

کعبہ کا کروں طوف کہ بت خانہ کو جاؤں
کیا حکم ہے مجھ کو

ارشاد مرے حق میں بھی کچھ ہووے گا آیا
اے پیر طریقت

ہوں پرتوِ روح القدس اس عہد میں میں بھی
عیسیٰ کی طرح سے

یوں چاہیے بے ساختہ رہبانِ کلیسا
میری کرے بیعت

آئے جو مرے گھر میں وہ شب راہ کرم سے
میں مونددی کنڈی

منھ پھیر لگے کہنے تعجب سے کہ یہ کیا؟
ایں تیری یہ طاقت

لوٹا کریں اس طور مزے غیر ہمیشہ
ٹک سوچو تو دل میں

ترسا کرے ہر وقت یہ بندہ ہی تمہارا
اللہ کی قدرت

دیوار چمن پھاند کے پہنچے جو ہم اُن تک
اک تاک کی اوجھل

ترسا ہوں یہ فرمانے لگے کوٹ کے ماتھا
اے وائے فضیحت

خورشید چھپا شام ہوئی شیخ جی صاحب
اب دیکھتے کیا ہو

چڑیوں نے لیا آ کے درختوں پہ بسیرا
چوں چوں کرو حضرت

بے برق کی زنجیر کو ٹک سونڈ میں اپنی
اے ابر کے ہاتھی

سیندورا لگا ماتھے پہ اس رنگ شفق کا
باعظمت و شوکت

چل آٹھوں کے میلے کی ذرا دید کریں ہم
ہے سیر کی جاگہ

سم بیٹھ چڑھا یاروں کے پھر میل رکددا
مت رعت کی سن دھت

شب محفل ہولی میں جو وارد ہوا زاہد
رندوں نے لپٹ کر

داڑھی کو دیا اس کی لگا بذر فطونا
اور بجنے لگی گت

تب مغبچے کہنے لگے ٹک پر بلونا چو
رکھ ناک پر اُنگلی

اور آئے جی آئے سے بُرا مانے سو بھڑوا
ہے موسمِ عشرت

کشمیری معلم کو جو اک طفل نے ناگہ
انگور کے دانے

لا کر دیئے اور اُن سے کہا کھایئے میوا
ہے قسم ولایت

لہجہ میں تکشمر کے مقطع ہو یہ بولے
شاگرد سے اپنے

چل سامنے سے میرے اتار کر ینیں لے جا
نیمیں نہیں لذّت

میسیاتھ انگر ناک ہے بر رو جیسے تجھ کو
سو کوڑی کے دس ہیں

بابا یہ تاکیا ہے چھٹا زانت ہے اس کا
کانا نہ لیے مت

اب اور ردیف اور قوانی میں غزل پرھ
لیکن اسی ڈھب سے

تا شاعروں کے آگے ہو اس بزم میں انشاء
ظاہر تری شوکت

لینے جو بلائیں لگے ہم آپ کی چٹ پٹ
تو بول اٹھے جھٹ

چل جا اے رے واؤ زیر رو سے پرے ہٹ
ہے یہ بھی بناوٹ

اِن آنکھوں کو میں حلقہ زنجیر کرونگا
ایسا ہی بلا ہوں

چھوڑوں ہوں کوئی اپ کے دروازہ کی چوکھٹ
جب تک نہ کھلے پٹ

مر جائے لہو چھانٹ نہ گونگا ہو وہ کیونکر
جو شخص کہ دیکھے

سُرخی تری آنکھوں کی اور ابرو کی کھچاوٹ
سرمہ کی گھلاوٹ

ہے معدنِ انوار آلہی دلِ عاشق
سوچو تو عزیزو

اس چھوٹی سی جاگہ میں یہ وسعت یہ سماوٹ
اللہ رے جمگھٹ

کیا پھبتی ہے اے نامِ خدا چھڑے آہا
ہونٹوں پہ تمہارے

اک بوسہ کے صدمے سے دھواں دھار نلاہٹ
مسی کی ادواہٹ

میں روپ بدل اور ہی چپکے سے جو پہنچا
بیٹھے تھے جہاں وہ

سُن کہنے لگے میرے دبے پاؤں کی آہٹ
ہے ایک تو نٹ کھٹ

تھی گرم یہ کچھ مجلس مے رات کہ ساقی
سب کہتے تھے زاہد

ہے توبہ شکن آج صراحی کی غٹاغٹ
بھلّہ رے جماوٹ

اے وائے رے بالیدگی اور چنپئی رنگت
یہ گات یہ سج دھج

اور جامہ شبنم کی وہ چولی کی پھساوٹ
بازو کی گلاوٹ

مت چھیڑو مجھے دیکھو ابھی کہنے لگو گے
اچھا کیا تم نے

چولی مری ٹکڑے ہوئی دامن بھی گیا پھٹ
لگ جائے گی یہ رٹ

ہے نور بصر مردمک دیدہ میں پنہاں
یوں جیسے کنہیا

سو اشک کے قطروں سے پڑا کھیلے ہے جھرمٹ
اور آنکھیں ہیں پنگھٹ

اے عشق اجی آؤ مہاراجوں کے راجہ
ڈنڈوٹ ہے تم کو

کر بیٹھے ہو تم لاکھوں کروڑوں ہی کے سرچٹ
اک آن میں جھٹ پٹ

پھرتا ہے سماں آنکھوں میں اب تک وہی انشاء
ہے ظالم ارے کیوں

باہم وہ لپٹ سونے میں آ جانی رکاوٹ
وہ پیار کی کروٹ

وہ سیج بھری پھولوں کی مخمل کے وہ تکیئے
کمخواب کی پوشش

پردے وہ تمامی کے وہ سونے کا چھپرکھٹ
اور اس کی سجاوٹ

ہے یہ اس مہ جبین کی تصویر
یا کسی حُورِ عین کی تصویر

بن گئی دُودِ آہِ مجنوں میں
ایک محمل نشین کی تصویر

اپنے داغ جگر میں سُوجھی ہے
مجھ کو اس نازنین کی تصویر

دیکھ لے اس کی چین پیشانی
ہے یہ خاقان چین کی تصویر

نظر آتی ہے اشک انشاء میں
جبرئیلِ امین کی تصویر

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


مل گئے سینے سے سینے پھر یہ کیسا اضطراب
مر مٹے پر بھی گیا اپنے نہ دل کا اضطراب

کیوں پڑی تھلکیں نہ آنکھیں آنسوؤں کے بوجھ سے
ہے دلِ صد پارہ کو سیماب کا سا اضطراب

روح کا یہ حال ہے یاں قافلہ سے پڑ کے دُور
کر رہی ہو جس طرح محمل میں لیلےٰ اضطراب

پوچھتے کیا ہو کہ تیرے دل میں کیا ہے مجھے سے پوچھ
اور کیا یاں خاک ہو گی جوش ہے یا اضطراب

دم لگا گھٹنے اجی میں کیا کہوں کل رات کو
تم نہ آئے تو کیا یاں جی کیا کیا اضطراب

کیا غضب تھا پھاند کر دیوار آدھی رات کو
دھم سے میرا کودنا اور وہ تمہارا اضطراب

تھا وہ دھڑکا پر مزے کیساتھ صدقے اسکے جی
پھر کرے اپنے نصیب اللہ ویسا اضطراب

اسکی چاہت میں جوانی اپنی جو تھی چل بسی
ہے پر ابتک جی کو اک جیسے کا تیسا اضطراب

پیر و مرشد کا یہ مصرع حسب حال انشاء کے ہے
مر مٹے پر بھی گیا اپنے نہ دل کا اضطراب

پگڑی تو نہیں ہے یہ فراسیس کی ٹوپی
یاں وقت سلام اُترے ہے ابلیس کی ٹوپی

ہے شیخ کے سر ایسی ہے تلبیس کی ٹوپی
جس سے کہ پڑی کانپے ہے ابلیس کی ٹوپی

دیتے ہیں کلہ اپنے مریدوں کو جا صوفی
کہتے ہیں یہی تھی سر جرجیس کی ٹوپی

سو چکٹی ہوئی ہے یہ مُتعفِّن کہ جہاں میں
ایسی تو نہ ہو گی کِسی سائیس کی ٹوپی

ہُد ہُد کو کوشی تب ہوئی جس دم نظر آئی
ہاتھوں میں سلیمان کے بلقیس کی ٹوپی

کل سوزنِ عیسیٰ میں پر و خطّ شعاعی
خورشید نے سی حضرتِ ادریس کی ٹوپی

کیوں واسطے جراب کے میری نہ ہو حاضر
غلماں کی اور حورِ فراویس کی ٹوپی

پریوں کے گھروں میں وہی چوری کے مزے لیں
جن پاس ہو جنّوں کی جواسیس کی ٹوپی

ممکن ہو تو دھر دیجیے بنا کر ترے سر پر
زربفت مہ و زہرہ و برجیس کی ٹوپی

انگریز کے اقبال کی ہے ایسی ہی رسّی
آویختہ ہے جس میں فراسیس کی ٹوپی

انشاء مرے آغا کی سلامی کو جھکے ہے
سکانِ سرا پردہ تقدیس کی ٹوپی

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


مجھے کیوں نہ آوے ساقی نظر آفتاب اُلٹا
کہ پڑا ہے آج خم میں قدحِ شراب اُلٹا

عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب اُلٹا

چلے تھے حرم کو رہ میں ہوے اک صنم کے عاشق
نہ ہوا ثواب حاصل یہ مِلا عذاب اُلٹا

یہ شبِ گذشتہ دیکھا وہ خفا سے کچھ ہیں گویا
کہیں حق کرے کہ ہووے یہ ہمارا خواب اُلٹا

ابھی جھڑ لگا دے بارش کوئی مست بھر کے نعرہ
جو زمیں پہ پھینک مارے قدحِ شراب اُلٹا

یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا

ہوئے وعدہ پر جو جھوٹے تو نہیں ملاتے تیور
اے لو دیکھا کچھ تماشا یہ سنو عتاب اُلٹا

کھڑے چُپ ہو دیکھتے کیا مرے دل اُجڑ گئے کو
وہ گنہ تو کہدو جس سے یہ دہِ خراب اُلٹا

غزل اور قافیوں میں نہ کہے سو کیونکہ انشاءؔ
کہ ہوا نے خود بخود آورقِ کتاب اُلٹا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


مجھے چھیڑنے کو ساقی نے دیا جو جام اُلٹا
تو کیا بہک کے میں نے اسے اک سلام اُلٹا

سحر ایک ماش پھینکا جو مجھے دکھا کے اُن نے
تو اشارہ میں نے تاڑا کہ ہے لفظ شام اُلٹا

یہ بلا دھواں نشہ ہے مجھے اس گھڑی تو ساقی
کہ نظر پڑے ہے سارا در و صحن و بام اُلٹا

بڑھوں اس گلی سے کیونکر کہ وہاں تو میرے دلکو
کوئی کھینچتا ہے ایسا کہ پڑے ہے گام اُلٹا

درمیکدہ سے آئی مہک ایسی ہی مزے کی
کہ پچھاڑ کھا گرا واں دل تشنہ کام اُلٹا

نہیں اب جو دیتے بوسہ تو سلام کیوں لیا تھا
مجھے اپ پھیر دیجیے وہ مرا سلام اُلٹا

لگے کہنے اب مولّع تجھے ہم کہا کریں گے
کہیں ان کے گھر سے بڑھکر جو پھرا غلام اُلٹا

مجھے کیوں نہ مار ڈالے تری زلف الٹ کے کافر
کہ سکھا رکھا ہے تو نے اسے لفظ رام اُلٹا

نرے سیدھے سادے ہم تو بھلے آدمی ہیں یارو
ہمیں کج جو سمجھے سو خود ولدالحرام اُلٹا

تو جو باتوں میں رکے گا تو یہ جانونگا کہ سمجھا
مرے جان و دل کے مالک نے مرا کلام اُلٹا

فقط اس لفافہ پر ہے کہ خط آشنا کو پہنچے
تو لکھا ہے اس نے انشاء یہ ترا ہی نام اُلٹا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


پر تو سے چاندنی کے ہے صحنِ باغ ٹھنڈا
پھولوں کی سیج پر آ کر دے چراغ ٹھنڈا

شفقت سے ہاتھ تو دھر ٹک میرے دل پہ تا ہو
یہ آگ سا دہکتا سینہ کا داغ ٹھنڈا

مے کی صراحی ایسی لا برق میں لگا کر
جس کے دھوئیں سے ساقی ہووے دماغ ٹھنڈا

تجنیس جس دنی کی ہو جوشِ چشم یارو
ہم نے مدام پایا اس کا اوجاغ ٹھنڈا​

ہیں ایک شخص لاتے خس کی شراب انشاء
دھو دھا گلاب سے تو کر رکھ ایاغ ٹھنڈا