آب حیات/شیخ غلام ہمدانی مصحفی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

مصحفی تخلص، غلام ہمدانی نام، باپ کا نام ولی محمد۔ امروہہ کے رہنے والے تھے۔ آغاز جوانی تھا جو دلّی میں آ کر رہے۔ طالب علمی کی طبیعت میں موزونیت خداداد تھی۔ اس میں قوت بہم پہونچائی۔ ابتدا سے غربت اور مسکینی اور ادب کی پابندی طبیعت میں تھی۔ ساتھ اس کے خوش خلقی اور خوش مزاجی تھی۔ جس نے بزرگان دہلی کی صحبتوں تک رسائی دی تھی۔ مشاعرہ بھی کیا کرتے تھے۔ انہی سامانوں کا سبب تھا کہ سب شاعر اور معزز اشخاص اس میں شامل ہوتے تھے۔ دلی کا اس وقت یہ عالم تھا کہ خود وہاں کے گھرانے گھر چھوڑ چھوڑ کر نکلے جاتے تھے اس لئے انھیں بھی شہر چھوڑنا پڑا۔ یہاں وطن نہ تھا۔ مگر دلی میں خدا جانے کیا ہے کہ خود کہتے ہیں۔

دلّی کہیں ہیں جس کو زمانہ میں مصحفی میں رہنے والا ہوں اُسی اجڑے دیار کا​

اسی طرح اپنے کلام میں اکثر جگہ دلّی کے رہنے کا فخر کیا کرتے ہیں۔ غرض آصف الدولہ کا زمانہ تھا کہ لکھنؤ پہونچے اور مرزا سلیمان شکوہ کی سرکار میں (جو دلّی والوں کا معمولی ٹھکانا تھا) ملازم ہوئے چنانچہ اکثر غزلوں میں بھی اس کے اشارے ہیں۔ ایک شعر اُن میں سے ہے۔

تخت طاؤس پہ جب ہووے سلیماں کا جلوس مورچھل ہاتھ میں ہیں بالِ ہما کا لے لوں​

غرض وہاں کثرتِ مشق سے اپنی اُستادی کو خاص و عام میں مسلم الثبوت کیا۔ علمیت کا حال معلوم نہیں۔ مگر تذکروں سے اور خود ان کے دیوانوں سے ثابت ہے کہ زبان فارسی اور ضروریات شعری سے باخبر تھے۔ اور نظم و نثر کی کتابوں کو اچھی طرح دیکھ کر معلومات وسیع اور نظر بلند حاصل کی تھی۔

شوق کمال کا یہ حال تھا کہ لکھنؤ میں ایک شخص کے پاس کلیات نظیری تھا۔ اس زمانہ میں کتاب کی قدر بہت تھی۔ مالک اس کا بہ سبب نایابی کے کسی کو عاریتًہ بھی نہ دیتا تھا۔ اُن سے اتنی بات پر راضی ہوا کہ خود آ کر ایک جزو لے جایا کرو وہ دیکھ لو تو واپس کر کے اور لے جایا کرو۔ ان کا گھر شہر کے اس کنارہ پر تھا ور وہ اس کنارہ پر۔ چنانچہ معمول تھا کہ ایک دن درمیان وہاں جاتے اور جزو بدل کر لے آتے۔ ایک دفعہ جب وہاں سے لاتے تو پڑھتے آتے، گھر پر آ کر نقل یا خلاصہ کرتے اور جاتے ہوئے پھر پڑھتے جاتے۔ ہو لوگوں کے حال پر افسوس ہے کہ آج چھاپہ کی بدولت وہ کتابیں دوکانوں پر پڑی ہیں، جو ایک زمانے میں دیکھنے کو نصیب نہ ہوتی تھی۔ مگر بےپروائی ہمیں آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھنے دیتی۔ تعجب ہے ان لوگوں سے جو شکایت کرتے ہیں کہ پہلے بزرگوں کی طرح اَب یہ لوگ صاحبِ کمال نہیں ہوتے، پہلے جو لوگ کتاب دیکھتے تھے تو اس کے مضمون کو اس طرح دل و دماغ میں لیتے تھے جس سے اس کے اثر دلوں میں نقش ہوتے تھے، آج کل کے لوگ پڑھتے بھی ہیں تو اس طرح صفحوں سے عبور کر جاتے ہیں گویا بکریاں ہیں کہ باغ میں گھس گئی ہیں، جہاں منھ پڑ گیا ایک ایک بکٹّا بھی بھر لیا۔ باقی کچھ خبر نہیں۔ ہوس کا چرواہا اِن کی گردن پر سوار ہے اور دبائے لئے جاتا ہے۔ یعنی امتحان پاس کر کے ایک سند لو اور کوئی نوکری لیکر بیٹھ رہو اور افسوس یہ ہے کہ نوکری بھی نصیب نہیں۔

محاوزات قدیم میں انھیں میر سوزؔ، سودا اور میرؔ کا ایک آخری ہم زبان سمجھنا چاہیے۔ وہ سید انشاءؔ اور جرأت کی نسبت دیرینہ سال تھے یا تو بڑھاپے نے پرواز کی باز و ضعیف کر دئے تھے یا قدامت کی محّبت نئی شے کے حُسن کو حسین کر کے نہ دکھاتی تھی۔ جیسے آزاد ناقابل کہ ہزار طرح چاہتا ہے۔ مگر اس کا دل نئی شائستگی سے کسی عنوان اثر پذیر نہیں ہوتا۔ شیخ موصوف نے لکھنؤ میں صدہا شاعر شاگرد کئے مگر یہ اب تک کسی تذکرہ سے ثابت نہیں ہوا کہ وہ خود کس کے شاگرد تھے (سراپا سخن میں لکھا ہے کہ امانی کے شاگرد تھے)۔ انھوں نے بڑی عمر پائی (بڑھاپے نے بہرا بھی کر دیا تھا، چنانچہ ساتویں دیوان میں ہے "مصحفی آپ کو دانستہ بنایا ہے اصم۔ رنج نا مجھ نہ پہنچے سخن بدگو سے۔ عمر نے جب عشرہ ہشتم میں رکھا ہے قدم، مصحفی کیا ہو سکے گا مجھ ناتواں درار سے۔ آٹھواں دیوان اس کے بعد لکھا تو ۸۰ کے قریب مرے ہونگے۔) اور اپنے کلام میں اشارے بھی کئے ہیں۔ بڑھاپے میں پھر شادی کی تھی۔ طبیعت کی رنگینی نے مسّی کی مدد وے دانتوں کو رنگین کیا تھا۔ چنانچہ سید انشاء نے ان کی ہجو میں سب اشارے کئے ہیں۔ غزض جب تک زندہ رہے لکھنؤ میں رہے، اور وہیں ۱۲۴۰ھ میں فوت ہوئے۔ سید انشاء، جرات، میر حسن وغیرہ شعراء اور ان کے ہمعصروں کے۔

عام تذکرے گواہی دیتے ہیں کہ ان کی تصنیفات میں چھ دیوان اُردو کے تمام و کمال ہیں، جن میں ہزاروں غزلیں اور بہت سے قصیدے اور بیات اور رباعیاں اور معمولی قضمیتیں ہیں، چنانچہ ایک قصیدے کے دعائیہ میں کہتے ہیں۔

مصحفی آج دُعا مانگے ہے تجھ سے یارب

ایکہ ہے ذات تری سب پہ غفور اور رحیم


یہ جو دیوان چھیوں اس کے ہیں مانند سہیل

بزم شاہاں میں لباس ان کا رہے جلد ادیم​

دو (۲) تذکرے شعرائے اردو کے، ایک تذکرہ فارسی کا، اور ایک دیوان فارسی لکھا مگر راقم کے پاس جو ان کے دیوان ہیں، ان میں سے ایک پر دیوان ہفتم لکھا ہے۔ اور ایک دیوان اور ہے۔ اس میں سید انشاء کے جھگڑے بھی ہیں۔ یہ آٹھواں ہو گا کہ سب سے اخیر ہے۔

دیوان ان کی استادی کو مسلم الثبوت کرتے ہیں۔ انواع و اقسام کی صدہا غزلیں نہایت سنگلاخ زمینوں میں لکھی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ کثرت مشق سے کلام پر قدرت کامل پائی ہے۔ الفاظ کو پس و پیش اور مضمون کو کم و بیش کر کے اس دردبست کے ساتھ شعر میں کھپایا ہے کہ جو حق اُستادی کا ہے ادا ہو گیا ہے۔ ساتھ اس کے اصلی محاورہ کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ایسے موقع پر کچھ کچھ سوداؔ کا سایہ پڑتا ہے۔ جہاں سادگی ہے۔ وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میر سوزؔ کے انداز پر چلتے ہیں۔ اسی کوچہ میں اکثر شعر میر صاحب کی بھی جھلک دکھاتے ہیں۔ مگر جو ان کے جوہر ہیں وہ انہی کے ساتھ ہیں۔ یہ اس ڈھنگ میں کہتے ہیں تو پھسینڈے ہو جاتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ طبیعت رواں تھی۔ پر گوئی کے سبب سے وہ لطف کلام پیدا نہ ہوا۔ غزلوں میں سب رنگ کے شعر ہوتے تھے۔ کسی طرز خاص کی خصوصیت نہیں۔ بعض تو صفائی اور برجستگی میں لاجواب ہیں۔ بعض میں یہی معمولی باتیں ہیں جنھیں ڈھیلی ڈھالی بندشوں میں باندھ کر پُھسر پُھسر برابر کہتے چلے گئے ہیں۔ اس کا سبب یا تو پُرگوئی ہے جس کی تفصیل آگے آتی ہے، یا دلّی اور امروہہ کا فرق ہے۔

قصہیدے خوب ہیں، اور اکثر ان میں نہایت مشکل زمینوں میں ہیں، کچھ حمد و نعت، کچھ مرزا سلیمان شکوہ اور حکام لکھنؤ کی شان میں ہیں۔ ان میں بڑے بڑے الفاظ بلند مضمون، فارسی کی عمدہ ترکیبیں، ان کی درست نشستیں جو جو اس کے لوازم ہیں، سب موجود ہیں۔ البتہ بندشوں کی چُستی اور جوش و خروش کی تاثیر کم ہے، شاید کثرت کلام نے اُسے دھیما کر دیا۔ کیوں کہ دریا کا پانی دو پہاڑوں کے بیچ میں گھٹ کر بہتا ہے تو بڑے زور شور سے بہتا ہے۔ جہاں پھیل کر بہتا ہے وہاں زور کچھ نہیں رہتا، یا شاید ضروری فرمائشیں اتنی مہلت نہ دیتی ہوں گی کہ طبیعت کو روک کر غور سے کام سرانجام کریں۔

فارسی دیوان ہند کے شعرائے رائج الوقت سے کچھ زیادہ نہیں۔ تذکرے خوب لکھے ہیں اور چونکہ استادوں کے زمانے سے قریب تھے اور سن رسیدہ لوگوں کی صحبت کے مواقع حاصل تھے۔ اس لئے اچھے اچھے حالات بہم پہنچائے ہیں اور ان میں سے اپنے کل شاگردوں کی بھی فہرست دی ہے۔ اکثر واقعات کی تاریخیں لکھی ہیں اور خوب لکھی ہیں۔

غرض شعر کی ہر شاخ کو لیا ہے اور جو قواعد و ضوابط اس کے اُستادوں نے باندھے ہیں، اُن کا حق حرف بحرف بلکہ لفظ بلفظ پورا ادا کیا ہے۔ ہاں اپنے ہم عصروں کی طرح طبیعت میں چلبلاہٹ اور بات میں شوخی نہیں پائی جاتی، کہ یہ کچھ اپنے اختیار میں نہیں، خداداد بات ہے، سیّد انشاء ہمیشہ قواعد کے رستہ سے ترچھے ہو کر چلتے ہیں۔ مگر وہ ان کا ترچھا پن بھی عجب بانکپن دکھاتا ہے، یہ بھی مطلب کو بہت خوبی اور خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں۔ مگر کیا کریں کہ وہ امروہہ پن نہیں جاتا، ذرا اکڑ کر چلتے ہیں تو ان کی شوخی بڑھاپے کا ناز بے نمک معلوم ہوتا ہے۔ سید انشاء سیدھی سادی باتیں بھی کہتے ہیں تو اس انداز سے کرتے ہیں کہ کہتا اور سنتا گھڑیوں رقص کرتا ہے اور چٹخارے بھرتا ہے۔ ان کا یہ حال ہے کہ اُصول سے ناپ کر اور قواعد سے تول کر بات کہتے ہیں۔ پھر بھی دیکھو تو کہیں پھیکے ہیں، اور کہیں سیٹھے ہیں۔ سچ کہا ہے کہنے والے نے کہ فصاحت اور بلاغت کے لئے کوئی قاعدہ نہیں، جس کی زبان میں خدا مزہ دے دے۔ ہزار اُصول و قواعد کی کتابیں اس پر قربان ہیں۔

شعر میگویم بہ از آبِ حیات

من ندا نم فاعلاتن فاعلات​

ایک سقنی کو دیکھ کر شیخ صاحب کی شوخی کے منھ میں پانی بھر آیا ہے۔ اس غزل کے چند شعر کہ ظریفانہ انداز میں ہیں ملاحظہ فرمائیے۔

پانی بھرے ہے یارو یاں قرمزی دو شالا

لنگی کی سج دکھا کر سقنی نے مار ڈالا


کاندھے پہ مشک لے کر جب قد کو خم کرے ہے

کافر کا نشہ حسن ہو جائے ہے دوبالا


دریائے خون میں کیونکر ہم نیم قد نہ ڈوبیں

لنگی کے رنگ ہی سے جب تا کمر ہو لا لا (*)​

(*) عبرۃ اگرچہ غزل مذکور ہزل ہے مگر قابل عبرۃ یہ امر ہے کہ نامی آدمی کے ساتھ لگ کر گمنامی بھی نام پاتی ہے۔ چنانچہ جبتک شیخ مصحفیؔ کا نشان ناموری بلند رہیگا اسی میں کھاردے کی لنگی کا پھریرا بھی لہراتا رہیگا۔)

یہ سب کچھ صحیح ہے مگر جس شخص کا قلم آٹھ دیوان لکھ کر ڈال دے، اس کی استادی میں کلام کرنا انصاف کی جان پر ستم کرنا ہے۔

اِن کی مشاقی اور پُرگوئی کو سب تذکروں میں تسلیم کیا گیا ہے۔ سن رسیدہ لوگوں کی زبانی سنا کہ دو تین تختیاں پاس دھری رہتی تھیں۔ جب مشاعرہ قریب ہوتا تو ان پر اور مختلف کاغذوں پر طرح مشاعرہ میں شعر لکھنے شروع کرتے تھے اور برابر لکھے جاتے تھے۔ لکھنؤ شہر تھا، عین مشاعرہ کے دن لوگ آتے، ۸ سے عِ تک اور جہاں تک کسی کا شوق مدد کرتا وہ دیتا۔ یہ اس میں سے ۹، ۱۱، ۲۱ شعر کی غزل نکال کر حوالہ کر دیتے تھے۔ ان کے نام کا مقطع کر دیتے تھے اور اصل سبب کمزوری کا یہ تھا کہ بڑھاپے میں شادی بھی کی تھی، چنانچہ سب سے پہلے تو ایک سالا تھا وہ شعر چن کر لے لیتا۔ پھر سب کو دے لے کر جو بچتا وہ خود لیتے اور ان میں لون مرچ لگا کر مشاعرہ میں پڑھ دیتے۔ وہی غزلیں دیوانوں میں لکھی چلی آتی ہیں۔ بلکہ ایک مشاعرہ میں جب شعروں پر بالکل تعریف نہ ہوئی تو انھوں نے تنگ ہو کر غزل زمین پر دے مارے اور کہا کہ روئے فلاکت سیاہ جس کی بدولت کلام کی یہ نوبت پہنچی ہے کہ اب کوئی سنتا بھی نہیں۔ اس بات کا چرچا ہوا تو یہ عقدہ کھلا کہ ان کی غزلیں بکتی ہیں۔ اچھے شعر تو لوگ مول لے جاتے ہیں جو رہ جاتے ہیں وہ ان کے حصہ میں آتے ہیں۔

پانی پت کے ایک شخص اس زمانہ میں چکلہ داری کے سبب سے لکھنؤ میں رہتے تھے۔ ان کے ہاں شیخ مصحفی بھی آیا کرتے تھے، ایک دن کاغذ کا جزو ہاتھ میں لئے آئے اور الگ بیٹھ کر کہنے لگے۔ سامنے ایک ورق رکھا تھا۔ اسے دیکھ دیکھ کر اس طرح لکھتے جاتے تھے جیسے کوئی نقل کرتا ہے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا ہے۔ جس کی آپ نقل کر رہے ہیں، لائیے میں لکھ دوں۔ انھوں نے کہا کہ ایک شخص نے کچھ مضمون مثنوی میں لکھوانے کے لئے فرمائش کی تھی، اس کا تقاضا مدت سے تھا، کچھ تو مجھے یاد نہ رہتا تھا، کچھ فرصت نہ ہوتی تھی۔ آج اس نے بہت شکایت کی اور مطلب لکھ کر دے دیا۔ وہ نظم کر رہا ہوں۔ اس سے روانی طبع اور مشقِ سخن کو قیاس کرنا چاہیے۔

ایک مشاعرہ میں میر تقی مرحوم بھی موجود تھے۔ شیخ مصحفی نے غزل پڑھی۔

تنہا وہ ہاتھوں کی حنا لے گئی دل کو

مکھڑے کے چھپانے کی ادا لے گئی دل کو​

جب یہ شعر پڑھا۔

یاں لعل فسوں ساز نے باتوں میں لگایا

دے پیچ اُدھر زلف اڑا لے گئی دل کو​

تو میر صاحب قبلہ نے بھی فرمایا کہ بھئی ذرا اس شعر کو پھر پڑھنا۔ اِن کا اتنا کہنا ہزار تعریفوں کے برابر تھا۔ شیخ موصوف اس قدر الفاظ کو تمغا اپنے کمال کا سمجھے بلکہ کئی دفعہ اٹھ اٹھ کر سلام کئے اور کہا کہ میں اس شعر پر اپنے دیوان میں ضرور لکھوں گا کہ حضرت نے دوبارہ پڑھوایا تھا۔ وہ اپنی غزلوں میں ملکی خصوصیتوں کے مضمون بھی لیتے ہیں۔ مگر نہ اپنے ہمعصر سید انشاء کی طرح بہتات سے نہ جراتؔ کی طرح کمی سے۔ چنانچہ کہتے ہیں۔

دیکھا نہ میں نے ہند میں جب خشکہ پیشاوری
لینے برنج اے مصحفیؔ روح اپنی پیشاور گئی

نہ کیونکہ سیر کرے شہر دو کے سینوں میں
جو خال چشم کہ برسوں رہا ہو مینوں میں

کیوں نہ دل نظارگی کا جائے لوٹ
لکھنؤ میں حُسن کی بندھتی ہے پوٹ

تختہ آبِ چمن کیوں نہ نظر آئے سپاٹ
یاد آئے مجھے جس دم وہ نگنبور کا گھاٹ​

بعض جگہ اپنے وطن کا محاورہ یاد آ جاتا ہے اور کہہ دیتے ہیں۔

تیغ نے اس کی کلیجا کھا لیا
اس نے آتے ہی مجھے منگوا لیا

چمن میں چل کے کر اے مصحفی تو نالہ و آہ
جو جی چلا ہو ترا امتحان بلبل کو

نہ میں صحرا میں نہ گلشن میں نکل جاؤں گا
خوگر شہر ہوں یا خاک میں رل جاؤں گا​

انھیں عادت تھی اکثر جگہ معاصرین پر چوٹ کر جاتے ہیں۔ چنانچہ کہا ہے۔

کچھ میں جرات نہیں ہوں مصحفی سحر بیاں
میر و مرزا سےلڑانے یہ غزل جاؤں گا

اور تو ثانی کوئی اس کا نہیں
مصحفی کا ہے قتیل البتہ چوٹ​

اکثر غزلوں کے مقطع میں اپنے فخر اور ملکِ سخن کی بادشاہی کا دعویٰ اور مشاعرے کا اپنے دم قدم سے قائم ہونا اور سب شعراء کو اپنا خوشہ چیں کہدینا ایک بات تھی۔ اور یہ دعوےٰ کچھ بے جا بھی نہ تھا۔ مگر سیّد انشاء اور جراءت وہاں پہنچے تو نتیجہ بہت بُرا ظاہر ہوا، چنانچہ ان معرکوں کے بعض حالات مناسب حال لکھتا ہوں۔ اگرچہ ان میں بھی اکثر باتیں خلاف تہذیب ہیں۔ مگر فن زبان کے طلبگاروں کا خیال اس معاملہ میں کچھ اور ہے۔ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ نظم اردو میں چند خیالات معمولی ہیں اور بس۔ عام مطالب کے ادا کرنے میں قوت بیانیہ کا اثر نہایت ضعیف ہے۔ ہاں ہجو کا کوچہ ہے کہ اس میں چٹیک جو شاعر کے دل کو لگی ہوتی ہے تو وہ تاثیر کلام سے مل کر سوتے دلوں کی بغل میں فوراً گدگدی کر جاتی ہے۔ بیان میں صفائی اور زبان میں گرمی و طراری پیدا کرنی چاہو تو ایسے کلاموں کا پڑھنا ایک عمدہ اوزار زبان کے تیز کرنے کا ہے۔ مرزا رفیع کی ہجوئیں ان کی کلیات میں موجود ہیں۔ مگر شیخ مصحفی و سیّد انشاء کی ہجوئیں فقط چند بڈھوں کی زبان پر رہ گئی ہیں۔ جن کی نظم حیات عنقریب نثر ہوا چاہتی ہے۔ علاوہ برآں اس صورتِ حال کا حال دکھانا بھی واجب ہے کہ وہ کیا موقع ہوتے تھے جو انھیں ایسی حرکاتِ ناروا پر مجبور کرتے تھے۔ یہ روائتیں بھی مختلف ہیں اور مختلف زبانوں پر پریشان ہیں لیکن افسوس یہ ہے کہ انھوں نے ان ہجوؤں فحش اور گالیوں سے انتہائے درجہ کی کثافتیں بھری ہیں۔ خیر ہمیں چاہیے کہ تھوڑی دیر کے لئے شہد کی مکھی بن جائیں۔ جہاں رسیلا پھول دیکھیں جا بیٹھیں۔ جالے اور میلے میلے پتوں سے بچیں۔ جب رس لے چکیں فوراً اڑ جائیں۔ اب ان کے اور سید انشاء کے معرکوں کا تماشا دیکھو۔ واضح ہو کہ اول تو مرزا سلیمان شکوہ کی غزل کومصحفی بنایا کرتے تھے۔ جب سیّد انشا پہنچے تو ان کے کلام کے سامنے ان کے شعر کب مزا دیتے تھے۔ غزل سیّد موصوف کے پاس آنے لگی۔ چند روز کے بعد شیخ صاحب کی تنخواہ میں تخفیف ہوئی۔ اس وقت انھوں نے کہا۔

چالیس برس کا ہی ہے چالیس کے لائق
تھا مرد معّمر کہیں دس بیس کے لائق

اے وائے کہ پچیس سے اب پانچ ہیں اپنے
ہم بھی تھے کنہی روزوں میں پچیس کے لائق

استاد کا کرتے ہیں امیر اب کے مقرر
ہوتا ہے جو درماہہ کہ سائیس کے لائق

چارہ کے لگانے سے ہوا دو کا اضافہ
پھر وہ نہ جلے جی میں کہ ہو تیس کے لائق​

پھر بھی آمد و رفت جاری تھی، اکثر غزلوں میں دونوں باکمال طبع آزمائی کرتے تھے اور کچھ چھیڑ چھاڑ ہوتی رہتی تھی۔ مگر اس طرح کہ کوئی سمجھے کوئی نہ سمجھے۔ ایک دن شیخ مصحفی نے مرزا سلیمان شکوہ کے جلسہ میں یہ غزل پڑھی۔

زہرہ کی جو آئی کفِ ہاروت میں انگلی
کی رشک نے جادیدہ ماروت میں اُنگلی

بن دودھ انگوٹھے کیطرح چوسے ہے کودک
رکھتی ہے تصرف عجب اک قوت میں اُنگلی

غرفہ کے ترے حال پہ ازبہرِ تاسف
ہر موج سے تھی کل دہن حوت میں اُنگلی

مہندی کے یہ چھّلے نہیں پوروں پہ بنائے
ہے اُسکی ہر اک حلقہ یاقوت میں اُنگلی



ناچی ہے تری عالمِ لاجوت میں اُنگلی

شہتوت ہے یا صانع عالم نے لگا دی
شیریں کی یہ شاخ شجر توت میں اُنگلی



حائک کی گرفتار ہوں جوں سوت میں اُنگلی

تھا مصحفیؔ مائل گریہ کہ پس از مرگ
تھی اسکی دھری چشم پہ تابوت میں اُنگلی

اسی طرح میں سیّد انشاء کی غزل کا مطلع تھا۔

دیکھ اس کی پڑی خاتمِ یاقوت میں اُنگلی
ہاروت نے کی دیدہ ماروت میں اُنگلی

اور بعض اور شخصوں کی بھی غزلیں تھیں۔ چنانچہ جب مصحفی چلے گئے تو یاروں میں ان کے بعض اشعار پر بہت چرچے ہوئے اور غزل کو اُلٹ کر بڈھے بیچارے کے کلام کو خراب کیا۔ چند شعر اس کے خیال میں ہیں جو فحش قبیح کے سبب سے خیال میں رکھنے کے قابل بھی نہیں۔ مقطع البتہ صاف ہے، اس لیے لکھتا ہوں۔

تھا مصحفی کانا جو چھپانے کو پس از مرگ

رکھے ہوئے تھا آنکھ پہ تابوت میں انگلی​

یہیں سے فساد کی بنیاد قائم ہوئی اور طرفین سے ہجوئیں ہو کر وہ خاکہ اڑا کہ شائستگی نے کبھ آنکھیں بند کر لیں اور کبھی کانوں میں انگلیاں دے لیں۔

غرض اس غزل کی خبر شیخ مصحفیؔ کو پہنچی، وہ پرانا مشاق، لکھنؤ بھر کا استاد کچھ چھوٹا آدمی نہ تھا۔ باوجود بڑھاپے کے بگڑ کھڑا ہوا اور غزل فخریہ کہی۔ اب خواہ اسے بڑھاپے کی سستی کہو، خواہ طبیعت کا امروہا پن کہو، خواہ آئیں متانت کی پابندی سمجھو، غرض اپنی وضع کو ہاتھ سے نہ دیا اور اپنے انداز میں خوب کہا۔ غزل فخریہ :

مُدت سے ہوں میں سر خوش صہبائے شاعری
ناداں ہے جسکو مجھ سے ہے دعوائے شاعری

میں لکھنؤ میں زمزمہ سبحانِ شعر کو
برسوں دکھا چکا ہوں تماشائے شاعری

بھپتا نہیں ہے بزم امیرانِ دہر میں
شاعر کو میرے سامنے غوغائے شاعری

اک طرفہ خر سے کام پڑا ہے مجھے کہ ہائے
سمجھے ہے اپ کو وہ مسیحائے شاعری

ہے شاعروں کی اب کے زمانے کی یہ مواش
پھرتے ہیں بیچتے ہوئے کالائے شاعری

لیتا نہیں جو مول کوئی مفت بھی اسے
خفّت اٹھا کے آتے ہیں گھر وائے شاعری

اے مصحفیؔ زگوشہ خلوت بروں خرام
خالی ست از برائے تو خود جائے شاعری

ہر سفلہ رازبان و بیان تو کہ رسد
آرے توئی فغانی و بابائے شاعری

مجنوں منم چراد گرے رنج مے برد
در حصَّہ من آمدہ لیلائے شاعری​

اس کے علاوہ اور غزلیں بھی کہیں کہ جن میں اس قسم کے اشارے کنائے ہیں۔ چونکہ سید انشاء صاحب عالم کے ہاں ہر صحبت میں صدر نشین تھے، انھیں خیال ہوا کہ مصحفی میرا بھی یار ہے۔ مبادا اُسے کچھ خیال ہو، خود پالکی میں سوار ہو کر پہنچے اور کہا کہ جلسہ میں اس طرح گفتگو ہوئی ہے۔ بھئی تمھیں میری طرف سے کچھ ملال نہ ہو۔ شیخ مصحفی نے نہایت بے پروائی سے کہا کہ نہیں بھئی مجھے ایسی باتوں کا خیال بھی نہیں۔ اور اگر تم کہتے تو کیا تھا۔ اخیر کا فقرہ سیّد انشاء کو کھٹکا، آتے ہی یاروں کو اور بھی چمکا دیا۔ ادھر سے انھوں نے کچھ اور کہا۔ ادھر سید انشاء نے بحر طویل میں یہ شعر کہے :-

ہجو در بحرِ طویل​

بخداوندی ذاتے کہ رحیم است و کریم است و علیم است و حلیم است و حکیم است و عظیم است و سلیم است و قدیم است و شریف است و لطیف است و خبیر است و بصیر است و نصیر است و کبیر است و رؤف است و غفور است و شکور است و دود است و مراخلق نمود است و بود خالق آفاق، قسم میخورم اکنوں کہ مرا ہیچ زہجو تو سروکار بنود است ولے از طرفت گشت۔ شروع اینہمہ اوقل مزخرف شنوائے مردک ناداں اندروہنت شاشہ عالم غزل، پوچ تو مثنوی ہرزہ کہ مجموعہ دشنامِ غلاظ است و شداد است گذشت از نظرآں لحظہ بنا چار ترا ہجو نمودم کہ ولم خون شد و جوشیدو بلرزیدویہ پیچید و طپید و جگر آتش شدہ درسینہ سوزانِ من خستہ دل مضطر و حیراں۔ اندر و ہنت شاشہ عالم اگراز نطفہ ابلیس۔ نباشی دل ہمچومن سید نخراشی کہ از اولادِ حسین است و نجیب الطرفین است و شریف است و نظیف است و لطیف است و فصیح است و بلیغ است و بود محسنِ برحق کہ بجز لطف و کرم بخشی و تعریف کمال وصف پیش کسے گاہ بیان ہیچ نکردہ است و ترابود ثنا خواں الخ

انہی دنوں میں مشاعرہ میں غزل کی طرح ہوئی۔ اس میں ان سب صاحبوں نے غزلیں کہیں، مصحفیؔ نے بھی آٹھ شعر کی غزل لکھی۔

سر مشک کا ہے تیرا تو کافور کی گردن
نے موے پری ایسے نہ یہ حور کی گردن

مچھلی نہیں ساعد میں ترے بلکہ نہاں ہے
دو ہاتھ میں ماہی سقنقور کی گردن

یوں مرغ دل اس زلف کے پھندے میں پھنسا ہے
جوں رشتہ صیاد میں عصفور کی گردن

دل کیوں کہ پری حور کا پھر اس پہ نہ پھیلے
صانع نے بنائی تری بلّور کی گردن

اک ہاتھ میں گردن ہو صراحی کی مزا ہے
اور دوسرے میں ساقی مخمور کی گردن

ہر چند میں جھک جھک کے کئے سیکڑوں مجرے
پر خم نہ ہوئی اس بتِ مغرور کی گردن

کیا جانئے کیا حال ہوا صبح کو اُس کا
ڈھلکی ہوئی تھی شب ترے رنجور کی گردن

یوں زُلف کے حلقے میں پھنسا مصحفی اے وائے
جوں طوق میں ہووے کسی مجبُور کی گردن​

سید انشاءؔ نے اس غزل پر اعتراض کئے اور ایک قطعہ بھی نظم کیا۔ ان کی غزل اور قطعہ درج ہوتا ہے۔

سیّد انشاء کی غزل جواب میں

توڑ دوں گا خم بادہ انگور کی گردن
رکھ دوں گا وہاں کاٹ کے اک حور کی گردن

خود دار کی بن شکل الفہائے اناالحق
نت چاہتے ہیں اک نئی منصور کی گردن

کیوں ساقی خورشید جبیں کیا ہی نشے ہوں
سب یونہی چڑھا جاؤں مے نور کی گردن

اچھلی ہوئی ورزش سے تری ڈنڈ پہ مچھلی
ہے نامِ خدا جیسے شقنقور کی گردن

تھا شخص جو گردن زدنی اس سے یہ بولے
اب دیجیے جو دینی ہے منظور کی گردن

آئینہ کی گر سیر کرے شیخ تو دیکھے
سرخرس کا منھ خوک کا لنگور کی گردن

یوں پنجہ مژگاں میں پڑا ہے یہ مرا دل
جوں چنگلِ شہباز میں عصفور کی گردن

تب عالم مستی کا مزا ہے کہ پڑی ہو
گردن پہ مری اس بت مخمور کی گردن

بیٹھا ہو جہاں پاس سلیماں کے آصف
واں کیوں نہ جھکے قیصر و فغفور کی گردن

بھینچے ہے بغل اپنی میں اس زور سے جو عشق
تو توڑنے پر ہے کسی مجبُور کی گردن

اے مست یہ کیا قہر ہے خشتِ سرخم سے
کیوں تو نے صراحی کی بھلا چور کی گردن

محفل میں تری شمع بنی موم کی مریم
پگھلی پڑی ہے اسکی وہ کافور کی گردن

اے دیو سفید سحری کاش تو توڑے
اک مُکّے سے خور کے شبِ دیجور کی گردن

جب کشتہ الفت کو اٹھایا تو الم سے
بس ہل گئی اُس قاتل مغرور کی گردن

بیساختہ بولا کہ ارے ہتھ تو ٹک دو
ڈھلکے نہ مرے عاشق مغفور کی گردن

حاسد تو ہے کیا چیز کرے قصد جو انشاء
تو توڑ دے جھٹ بلعم باعور کی گردن​

قطعہ در ہجو مشتملبر بر اعتراضات

سُن لیجئے گوشِ دل سے مرے مشفقا یہ عرض
مانند بید غصّہ سے مت تھر تھرائیے

بلّور گو درست ہو، لیکن ضرور کیا
خواہی نخواہی اس کو غزل میں کھپائیے

دستور و نور و طور یہ ہیں قافیے بہت
اس میں جو چاہیے تو قصیدہ سنائیے

یہ تو غضب ہے کہیے غزل آٹھ بیت کی
اور اس میں روپ ایسے انوکھے دکھائیے

کیا لطف ہے کہ گردن کافور باندھ کر
مردے کی باس زندوں کو لا کر سنگھائیے

یوں خاطر شریف میں گزرا کہ بزم میں
کچلا ہوا شریقہ غزل کو بنائیے

ایسے نجس کثیف قوافی سے نظم میں
دندان ریختہ پہ پھپھوندی جمائیے​

(مصحفیؔ مسی ملا کرتے تھے اس لئے دانت سیاہ تھے۔ وہ بھی کچھ ہلتے تھے، کچھ گر پڑے تھے اور بڑھاپے نے اور بھی شکل بگاڑ دی تھی۔ اُسے انھوں نے خراب کیا ہے۔)

بخرے میں آپ ہی کے یہ آئی ہے شاعری
بس منھ ہی منھ میں رکھئے اسے مت سرائیے

گردن کا دخل کیا ہے سقنقور میں بھلا
سانڈے کی طرح آپ نہ گردن ہلائیے

مشفق کڑی کمان کو کرڑی نہ بولئے
چّلا کے مفت تیر ملامت نہ کھائیے

اردو کی بولی ہے یہ بھلا کھائیے قسم
اس بات پر اب آپ ہی مصحف اٹھائیے

استاد گرچہ ٹھہرے ہیں صاحب یوہیں سہی
لیکن ڈھکی ہیی رکھئے بس اس کو چھپائیے

جھٹ لکھئے روپ رام کٹارا کو ایک خط
بھّلو کی مہر سے سند اس کی منگائیے

اپنی کمک کے واسطے جا بھرت پور میں
رنجیت سنگھ جاٹ کو ہمراہ لائیے

یا گرد و پیش کے قصباتی جو لوگ ہیں
اک پلوا باندھئے انھیں جلدی بلائیے

مخلص کا التماس پذیرا ہو سوچ کر
کہنے سے ایسے ریختہ کے باز آئیے

سرکار کی یہاں نہیں گلنے کی دال کچھ
روٹی جو کھانی ہووے تو پنجاب جائیے

ستلج بیاس راوی و جہلم کی سیر کر
چناب والے لوگوں کو یہ کچھ سنائیے

خشکا گدھے کو دیجیے لوزینہ گاؤ کو
واں جا کے بین بھینس کے آگے بجائیے

اس رمز کا یہاں شنوا کون ہے بھلا
اب بھیرویں کا پٹہ کوئی آپ گائیے​

مصحفی نے اس کا جواب اس غزل کی طرح میں دیا۔

قطعہ جواب شیخ مصحفیِ کیطرف سے

اے آنکہ معارض ہو مری تیغ زباں سے
تو نے سپر غدر میں مستور کی گردن

ہے آدم کاکی کہ بنا خاک کا پتلا
گر نور کا سر ہووے تو ہو نور کی گردن

میں لفظ سقنقور مجرد نہیں دیکھا
ایجاد ہے تیرا یہ شقنقور کی گردن

لنگور کو شاعر تو نہ باندھے گا غزل میں
کس واسطے باندھے کوئی لنگور کی گردن

گردن تو صراحی کے لئے وضے ہے نادان
بے جا ہے خم بادہ انگور کی گردن

اس سے بھی میں گزرا غلطی اور یہ سنیئے
باندھے ہے کوئی خوشہ انگور کی گردن

کافور سے مطلگ ہے مرا اس کی سفیدی
ٹھنڈی تو میں باندھی نہیں کافور کی گردن

یہ لفظ مشدّد بھی درست آیا ہے تجھ سے
خم ہوتی ہے کوئی مری بلّور کی گردن

اتنی نہ تمیز آئی تجھے ربط بھی کچھ ہے
ہر قافیہ میں تو نے جو منظور کی گردن

یوں سینکڑوں گردن تو گیا باندھ تو کیا ہے
سُوجھی نہ تجھے حیف کہ مزدور کی گردن

جو گردنیں میں باندھی ہیں لا تجھ کو دکھا دوں
تو مجھ دکھا دے شبِ دیجور کی گردن

گردن کے تئیں چاہیے اک شکل کشیدہ
خم کر کے سمجھ ٹک سرِ مغرور کی گردن

مضمون تو میرا ہی ہے گو اور طرح سے
باندھے تو گماں اپنے میں رنجور کی گردن

گر قافیہ پیمائی ہی منظور تھی تجھ کو
تو باندھی نہ کس واسطے مقدور کی گردن

لاکھوں ہی معانی کو کیا قتل پر افسوس
سوجھی نہ تجھے دشنہ و ساطور کی گردن

منصف ہو تو پھر نام لے دعوی کا ہرگز
یہ بوجھ اٹھا سکتی نہیں مور کی گردن

منظور ہی کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو باللہ
باندھی نہ گر اب خانہ زنبور کی گردن

ٹوٹے ہوئے نیچے کی طرح میرے قلم سے
جاتی ہے پچک شاعر مغرور کی گردن

انصاف تو کر دل میں کہ اک تیغ میں کیسے
میں کاٹ دی دعوے کی ترے زور کی گردن

کھڑاگ پہ گایا پہ ترے ہاتھ نہ آئی
افسوس کہ اس تان پر طنبور کی گردن

سوجھا نہ تجھے ورنہ بناتا تو اسی دم
ناسور کی پتی کو بھی ناسور کی گردن

انصاف کیا اس کا میں اب شہہ کے حوالے
جھکتی ہے جہاں مار سے لے مور کی گردن

وہ شاہِ سلیماں کہ اگر تیغ عدالت
ٹک کھینچیں تو دو ہوں وہیں فغفور کی گردن

جس سر پہ ٹک اپنا وہ رکھے دستِ نوازش
اُس سر کے لئے تکیہ ہو پھر حور کی گردن

اس در کا جو سجدہ انھیں منظور نہ ہوتا
ملٹی نہ فرشتوں کو کبھی نور کی گردن

اے مصحفیؔ خامش سخن طول نہ کھچ جائے
سیاں کو نہ ہی بہتر سرِ پُرشور کی گردن​

ان دونوں قطعوں کے پڑھنے سے معلوم ہو گا کہ دونوں باکمال ادائے مطلب پر کس قدر قدرت رکھتے تھے۔ بے شک عام لطفِ بیان اور خاص طنزوں کے نشتر سیّد انشاء کی ترجیح کے لئے سفارش کریں گے۔

مگر بڈھے دیرینہ سال نے جو اسی غزل کی زمین میں مطالب مطلوبہ کو ادا کر دیا یہ قدرت کلام شاید اسے پیچھے نہ رہنے دے۔

شیخ مصحفی کے شاگردوں میں منتظر اور گرم دو بڑے چلتے طپنچے تھے۔ وہ نواب صاحب کی سرکار میں توپ خانہ وغیرہ کی خدمت رکھتے تھے۔ انھوں نے زبان سے تدبیروں سے، معرکوں سے استاد کی استادی کے مورچے باندھے۔ ایک مثنوی لکھ کر گرم طمانچہ نام رکھا۔ میر انشاء اللہ خاں نے جب مشاعرہ میںیہ گردن کی غزل پڑھی اور اس میں یہ شعر پڑھا۔

آئینہ کی گر سیر کرے شیخ تو دیکھے

سرخرش کا منھ خوک کا لنگورکی گردن​

مقطع میں بلعم یا عور کا اشارہ بھی اُن کی کہن سالی پر چوٹ کرتا ہے، کیونکہ وہ حضرتِ موسیٰ کے عہد میں ایک عابد تھا جو بڑھاپے اور ریاضت سے اس قدر تحلیل ہو گیا تھا کہ شاگرد پوٹلی میں باندھ کر کبھی بغل میں مارے پھرتے تھے، کبھی کندھے پر ڈال لیتے تھے اور جہاں چاہتے تھے لیجاتے تھے۔ منتظر نے بھی اپنی غزل میں سید موصوف پر چوٹیں کیں۔ ان میں سے ایک مصرع یاد ہے۔

مصرعہ : باندھی دُمِ لنگور میں لنگور کی گردن​

کیوں کہ سید انشاء اکثر دوپٹا گلے میں ڈالے رہتے تھے۔ اس طرح کہ ایک سرا آگے اور دوسرا سرا پیچھے پڑا رہتا تھا، چنانچہ سید انشاء نے اسی وقت ایک شعر اور کہا۔

سفرہ پہ ظرافت کے ذرا شیخ کو دیکھو

سر لُون کا منھ پیاز کا امچور کی گردن​

بڈھے بے چارے کا سر بھی سفید ہو گیا تھا۔ گوری رنگت بڑھاپے میں خون جم کر سرخ ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ بہت جواب و سوال زبانی بھی طے ہوئے۔ مگر ان کا اب پتہ لگنا ممکن نہیں۔ استاد مرحوم فرماتے تھے کہ منجملہ اور اعتراضوں کے مصحفی کی غزل میں ماہی سقنقور میں جوی بہ تشدید پڑھی جاتی ہے۔ سید انشاء نے اس پر بھی تمسخر کیا اور شیخ مصحفی نے یہ شعر سند میں دیا کہ ۔

مائیم و فقیری و سئیہ روئی کونین

رخسار سفید امرارانہ شناسیم​

سید انشاءؔ پر جو اعتراض ہے کہ فقط سقنقور کیوں کہا؟ شیخ مصحفیؔ کا کہنا بیجا ہے، کیوں کہ سقنقور ایک جانور کا نام ہے اور یہ لفظ اصل میں یونانی ہے۔ مچھلی کو اس سے کچھ خصوصیت نہیں۔

سید انشاء کی طبیعت کی شوخی اور زبان کی بے باکی محتاج بیان نہیں چنانچہ بہت سی زٹل اور فحش ہجوئیں کہیں کہ جن کا ایک مصرع ہزار قمچی اور چابک کا طرتھا تھا۔ بڈھا بے چارا بھی اپنی شیخی کی جریب اور عصائے غرور کے سہارے سے کھڑا ہو کر جتنا کمر میں بوتا تھا مقابلہ کرتا۔ جب نوبت حد سے گزر گئی تو اس کے شاگردوں سے بھی لکھنؤ بھرا پڑا تھا۔ منتظر اور گرم سب کو لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور جو کچھ ہو سکا، شاگردوں کو حق ادا کیا۔ ایک دن سب اکٹھے ہوئے، شہدوں کا سوانگ بھرا اور ایک ہجو کہہ کر اس کے اشعار پڑھتے ہوئے سیّد انشاؔ کی طرف روانہ ہوئے اور مستعد تھے کہ زد و کشت سے بھی دریغ نہ ہو، سیّد انشاء کو ایک دن پہلے خبر لگ گئی۔ اب ان کی طبع رنگین کی شوخی دیکھئے کہ مکان کو فرش فروش جھاڑ فانوس سے سجایا، اور امرائے شہر اور یاروں کو بلایا۔ بہت سی شیرینی منگا کر کوان لگائے، کشتیوں میں گلوریاں چنگیزوں میں پھولوں کے ہار سب تیار کئے۔ جب سنا کہ حریف کا مجمع قریب آ پہونچا۔ اس وقت یہاں سے سب کو لے کر استقبال کو چلے، ساتھ خود تعریفیں کرتے۔ سبحان اللہ واہ وا سے داد دیتے اپنے مکان پر لائے، سب کو بٹھایا اور خود دوبارہ پڑھوایا، آپ بھی بہت اُچھلے کودے، شیرینیاں کھلائیں، شربت پلائے، پان کھلائے، ہار پہنائے، ہنس بول کر عزّت و احترام سے رخصت کیا۔

لیکن سیّد انشاء نے جو اس کا جواب حاضر کیا وہ قیامت تھا، یعنی ایک انبوہ کثیر برات کے سامان سے ترتیب دیا۔ اور عجیب و غریب ہجوئیں تیار کر کے لوگوں کو دیں۔ کچھ ڈنڈوں پر پڑھتے جاتے تھے، کچھ ہاتھیوں پر بیٹھے تھے، ایک ہاتھ میں گڈا، ایک میں گڑیا، دونوں کو لڑاتے تھے، زبانی ہجو پڑھتے جاتے تھے جس کا ایک شعر یہ ہے۔

سوانگ نیا لایا ہے دیکھنا چرخ کہن

لڑتے ہوئے آئے ہیں مصحفی و مصحفن​

ان معرکوں میں مرزا سلیمان شکوہ بلکہ اکثر امراء نے سید انشا کا ساتھ دیا۔ حریف کے سوانگ کو کوتوال سے کہہ کر ایک دفعہ رکوا دیا۔ اس بات نے شیخ مصحفی کو بہت شکستہ خاطر کر دیا۔ چنانچہ اکثر غزلوں میں رنگ جھلکتا ہے۔ ان میں سے ایک غزل کا مقطع و مطلع لکھتا ہوں۔


جاتا ہوں ترے در سے کہ توقیر نہیں یاں

کچھ اس کے سوا اب مری تدبیر نہیں یاں


اے مصحفی بے لطف ہے اس شہر میں رہنا

سچ ہے کہ کچھ انسان کی توقیر نہیں یاں​

ان جھگڑوں میں بعض شعروں پر مرزا سلیمان شکوہ کو شبہ ہوا کہ ہم پر بھی شیخ مصھفی نے چوٹ کی۔ اس کے عذر میں انھوں نے کہا۔

قصِیدہ در معذرت اتہام انشاءؔ بجناب مرشد زادہ شہزادہ مرزا سلیمان شکوہ بہادر

قسم بذات خدائے کہ ہے سمیع و بصیر
کہ مجھ سے حضرتِ شہ میں ہوئی نہیں تقصیر

سوائے اسکے کہ حال اپنا کچھ کیا تھا میں عرض
سو وہ بطور شکایت تھی اند کے تقریر

گر اس سے خاطر اقدس پہ کچھ ملال آیا
اور اس گنہ سے ہوا بندہ واجب التغدیر

عوض روپوں کے ملیں مجھ کو گالیاں لاکھوں
عوض دو شالہ کے خلعت بشکل نقش حریر

سلف میں تھا کوئی شاعر نواز ایسا کب؟
جو ہے تو شاہ سلیمان شکوہ عرش سریر

مزاج میں یہ صفائی کہ کر لیا باور
کسی کے حق میں کسی نے جو کچھ کہ کی تقریر

مصاحب ایسے اگر کچھ کسی سے لغزش ہو
تو اس کے رفع کی ہرگز نہ کر سکیں تدبیر

وگر کریں تو پھر ایسی کہ نارِ طیش و غضب
مزاج شاہ میں ہو مشتعل بصد تشویر

سوتابِ ذرہ کہاں! نورِ آفتاب کہاں
کہاں وہ سطوت شاہی کہاں غرور فقیر

مقابلہ جو برابر کا ہو تو کچھ کہیے
کہاں و بہقی و دیبا کہاں پلاس و حصیر

میں ایک فقیر غریب الوطن مسافر نام
رہے ہے آٹھ پرہ جس کو قوت کی تدبیر

مرا دہن ہے کہ مدح حضور اقدس کو
اُلٹ کے پھیر بحرفِ ذمیمہ دوں تفسیر

یہ افترا ہے بنایا ہوا سب انشاءؔ کا
کہ بزم و رزم میں ہے پائے تخت کا وہ مشیر

مزاج شاہ ہو یوں منحرف تو مجھ کو بھی
یہ چاہیے کہ کروں شکوہ اسکا پیش وزیر

اگر وزیر بھی بولے نہ کچھ خدا لگتی
تو جاؤں پیش محمد کہ ہے بشیر و نذیر

شفیعِ روزِ جزا پادشاہ اَداد نے
نہ کردہ جرم پہ جس نے نہیں لکھی تقدیر

کہوں یہ اس سے کہ اے جرم بخش پُر گنہاں
تری غلامی میں آیا ہے داد خواہ فقیر

خطا ہو میری جو پہلے تو کر اسیر مجھے
وگر عدو کی پنہا اس کو طوق اور زنجیر

اگرچہ بازی انشائے بے حمیت کو
رہا خموش سمجھ کر میں بازی تقدیر

ولے غضب ہے بڑا یہ کہ اب وہ چاہے ہے
خیال میں بھی نہ کھینچوں میں ہجو کی تصویر

سو میں ملک نہیں ایسا بشر ہوں تا کے چند
کہے سے اس کے کروں گا نہ ماجرا تحریر

کیا میں فرض کہ میں آپ اس سے درگزرا
پھرے گا مجھ کوئی گرم و منتظر کا ضمیر

اور ان پہ بھی جو کیا میں نے تازیانہ منع
تو ہو سکے ہے کوئی ان کی وضع کی تدبیر

ہزار شہدوں میں بیٹھیں ہزار جا پہ ملیں
پھریں ہمیشہ نئے جمع ساتھ اپنے کثیر

نہ مانیں تیغ سیاست، نہ قہر سلطانی
نہ سمجھیں قتل کا وعدہ نہ ضربت شمشیر

مزاج ان کا ٹھٹول اس قدر پڑا ہے کہ وہ
ہنسی سمجھتے ہیں اس بات کو نہ جرم کبیر

پھر اس پہ یہ بھی ہے یعنی کہ اس مقام کے بیچ
جو ہووے منشی تو کچھ نثر میں کرے تسطیر

فکیف جن کو خدا نے کیا ہو موزوں طبع
اور اپنے فضل سے بخشی ہو شعر میں توقیر

یہ کوئی بات ہے سو سن کے وہ خموش رہیں
ہوا ہے مصلحتًہ گو کہ تصفیریہ اخیر

مگر یہ بات میں مانی کہ سوانگ کا بانی
اگر میں ہوں تو مجھے دیجیے بدترین تعزیر

میں آپ فاقہ کش اتنا مجھے کہاں مقدور
کہ فکر اور کروں کچھ بغیر آشِ سیر

مرے حواس پریشاں بایں پریشانی
ہو جیسے لشکر بشکستہ کی خراب میسیر

گر اس پہ صلح کی ٹھہری رہے تو صلح سہی
اگر ہو پھیر شرارت یشرہوں میں بھی شریر

جو اب ایک کے یاں دس ہیں اور دس کے سو ۱۰۰
نگاہ کرتے تھے اوّل بایں قلیل و کثیر

حصول یہ ہے کہ جب کوتوال تک قضیا
گیا ہو از پے تہدید شاعران شریر

تو کوتوال ہی بس ان سے اب سمجھ لے گا
یہ دمبدم کی شکایت کی ہے عبث تحریر

یہ وہ مثل ہے کہ جس طرح سارے شہر کے بیچ
بلند قامتی اپنی سے مہتم ہو بعیر

سو مُہتم مجھے ناداں نے ہجو شہ سے کیا
قباحت اس کی جو شہ سمجھے اس کو دے تعزیر

ولے مزاج مقدس جو لااُبالی ہے
نہیں خیال میں آتا خیال حرف حقیر

جو کچھ ہوا سو ہوا مصحفیؔ بس اب چپ رہ
زیادہ کر نہ صداقت کا ماجرا تحریر

خدا پہ چھوڑ دے اس بات کو وہ مالک ہے
کرے جو چاہے، جو چاہا کیا بہ حکم قدیر

سیّد انشاء پھرتے چلتے دلّی میں آئے تھے اور کچھ عرصہ رہے تھے اور جو لوگ ان معرکوں میں ان کے فریق تھے ان میں سے اکثروں نے دلّی کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ چنانچہ ایک موقع پر شیخ مصحفی نے یہ قطعہ کہا جس کے چند شعر ساتویں دیوان میں ہیں۔

بعضوں کا گماں یہ ہے کہ ہم اہل زباں ہیں
دلّی نہیں دیکھی ہے زباں داں یہ کہاں ہیں

پھر تسپہ ستم اور یہ دیکھو کہ عروضی
کہتے ہیں سدا آپکو اور لاف زناں ہیں

سیفی کے رسالہ پہ بنا انکی ہے ساری
سو اس کے بھی گھر بیٹھے وہ آپ ہی نگراں ہیں

اک ڈیڑھ ورق پڑھ کے وہ جامی کا رسالہ
کرتے ہیں گھمنڈ اپنا کہ ہم قافیہ داں ہیں

نہ (۹) حرف جو وہ قافیہ کے لکھتے ہیں اس میں
دانا جو انھیں سُنتے ہیں یہ کہتے ہیں ہاں ہیں

تعقید سے واقف نہ تنافر سے ہیں آگاہ
نہ (۹) حرف یہی قافیہ کے در و زباں ہیں

کرتے ہیں کبھی ذکر وہ ایطائے خفی کا
ایطائے جلی سے کبھی پھر حرف زناں ہیں

اوّل تو ہے کیا شعر میں ان باتوں سے حاصل
بالفرض جو کچھ ہو بھی تو یہ سب پہ عیاں ہیں

حاصل ہے زمانہ میں جنھیں نظم طبیعی
نطم ان کی کے اشعار بہ از آبِ روا ں ہیں

پرواہ انھیں کب ہے ردیف اور روی کی
کب قافیہ کی قید میں اتش نفساں ہیں

مجھ کو تو عروض آتی ہے نہ قافیہ چنداں
اک شعر سے گرویدہ مرے پیرو جواں ہیں

​اس قطعہ کے مطلع پر خیال کرو کہ دلّی اس وقت کیا شے تھی۔ چند روز وہاں رہ جانا گویا زبان دانی کا سرٹیفکٹ ہوتا تھا۔ خیر اب شیخ صاحب کے اقسام سخن سے لطف حاصل کرنا چاہیے۔ باوجودیکہ شیخ مصحفیؔ بہت سن رسیدہ تھے۔ مگر سید انشاء کے مرنے کا انھیں افسوس کرنا پڑا۔ چنانچہ ایک غزل کے مقطع میں کہا ہے۔

مصحفی کس زندگانی پر بھلا میں شاد ہوں
یاد ہے مرگِ قتیلؔ و مردن انشاؔ مجھے

کیا کیا فساد کیا کیا شور و شر ہوئے
کیسے کیسے خاکے ڈرے انجام یہ کہ خاک

شیخ مصحفی کا قصیدہ نعت میں

حنا سے ہے یہ تری سُرخ اے نگار انگشت
کہ ہو نہ پنجہ مرجاں کہ نینہار انگشت

ضعیف اتنا ہوا ہوں کہ میرے ہاتھوں میں
نہیں یہ پنجہ طاقت سے بھلہ دار انگشت

ہلال و بدر ہوں یک جا عرق فشانی کو
رکھے جبیں پہ جو تو کر کے تابدار انگشت

فراق ہو کراں سے میں یہ ہوا باریک
کہ ہو گئیں مری سوزن صفت ہزار انگشت

زبسکہ زشت ہے دنیا میں ہاتھ پھیلانا
رکھے ہے سمٹی ہوئی اپنی پشت خار انگشت

وہ جب لگائے ہے فندق تو دیکھ دیکھ مجھے
رکھے ہے منھ میں تاسف کی روزگار انگشت

شمار داغ سے کب اتنی مجھ کو فرصت ہے
کہ رکھ سکوں بسر و چشم اشکبار انگشت​

چند شعر کے بعد گریز کرتے ہیں۔

بیان ضرور ہے اب دست و تیغ کا اسکی
نکل گئی سپرِ مہ سے جس کی پار انگشت

محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربی معجزوں کا جس کے کبھی
نہ کر سکے فلکِ پیر کا شمار انگشت

چمن میں اسکی رسالت کا جب کچھ آئے ہے ذکر
علم کرے ہے شہادت کی شاخسار انگشت

وظیفہ جس کا پرھے ہے یہ دانہ شبنم
دعا میں جس کی کھولے ہوئے چنار انگشت

اگر ہو مہرہ گہوارہ سنگ فرش اس کا
نہ چوسے اپنی کبھی طفل شیر خوار انگشت

اٹھا دے گر کفِ افسوس ملنے کی وہ رسم
نہ ہووے پھر کبھی انگشت سے دو چار انگشت

کرے جو وصف وہ اس تاج انبیا کے رقم
قلم کی جوں نے نرگس ہو تاجدار انگشت

غزلیات

دن جوانی کے گئے موسمِ پیری آیا
آبرو خواب ہے اب وقت حقیری آیا

تابہ و طاقت رہے کیا خاک کے اعضا کے تئیں
حاکمِ ضعف سے فرمان تغیری آیا

سبق نالہ تو بلبل نے پڑھا مجھ سے ولے
نہ اُسے قاعدہ تازہ صفیری آیا

شاعری پر کبھی اپنی جو گئی اپنی نظر
دضمیر اپنے میں اس وقت ضمیری آیا

درد پڑھنے جو اٹھا صبح کو سب سے پہلے
مکتبِ عشق میں ہونے کو وہ میری آیا

اسکے در پر میں گیا سوانگ بنائے تو کہا
چل بے چل دور ہو کیا لے کے فقیری آیا

پوچھ مت معرکہ عشق کا ہنگامہ کہ واں
قیس مارا گیا وامق باسیری آیا

اے سلیماں ہو مبارک تجھے یہ شاہی تخت
تیرا آصف بھی بسامان وزیری آیا

چشم کم سے نہ نظر مصحفی خستہ پہ کر
وہ اگر آیا تو مجلس میں نظیری ایا​

غزل مذکورہ ذیل سید انشاء کی غزل پر ہے۔

پیری سے ہو گیا یوں اس دل کا داغ ٹھنڈا
جس طرح صبح ہوتے کر دیں چراغ ٹھنڈا

سیر گرم سیر گلشن کیا خاک ہوں کہ اپنا
نزلہ سے ہو رہا ہے آپ ہی دماغ ٹھنڈا

بلبل کے گرم نالے جب سے سنے ہیں اس نے
دیوار گلستاں پر بولے ہے زاغ ٹھنڈا

کیا کیا خوشامدی نِت پنکھا لگے ہلانے
کشتی سے جب ہوا وہ کر کے فراغ ٹھنڈا

صرصر سے کم نہیں کچھ وہ تیغ تیز جس نے
لاکھوں کا کر دیا ہے دم میں چراغ ٹھنڈا

کشمیری ٹولے میں ہم جاتے تھے روز لیکن
جی آج ٹک ہوا ہے کر کے سراغ ٹھنڈا

گرمی کی رُت ہے ساقی اور اشک بلبلوں نے
چھڑکاؤ سے کیا ہے سب صحن باغ ٹھنڈا

ایسے میں اک صراحی شورے لگی منگا کر
لبریز کر کے مجھ کو بھر دے ایاغ ٹھنڈا

کیا ہم ٹکڑ گدا ہیں جو مصحفیؔ یہ سوچیں
ہے گرم اس کا چولھا اس کا اجاغ ٹھنڈا​

جراءت اور سیّد انشاء کے مستزاد بھی دیکھو کہ مشاعرہ کے معرکے میں پڑھے گئے تھے۔

غزل مستزاد

خوشبوئی سے جن کی ہو خجل عمبر سارا
ہم مشک کی نگہت

بال اُلجھے ہوئے ہیں وکہ ریشم کا ہے لچّھا
اللہ ری نزاکت

پاؤں میں کفک اور لگے ہاتھوں میں مہندی
از خونِ مُحبّان​

چہرہ وہ پری کہئے جسے نُور کا بقعہ
رنگ آگ کی صورت

تلوار لئے ابروئے کج قتل پہ مائل
لب خون کے پیاسے

پھولوں کی چھڑی ہاتھ میں اور کان میں بالا
چتون میں شرارت

مسّی کی دھڑی اک تو جمی ہونٹوں پہ کافر
اور ترشی سے پونچھے

پھر تس پہ ستم ان کا وہ پائوں کا مکھوڑا
جوں خون کی ہو رنگت

پاؤں میں انی دار پڑی کفش زری کی
دل جس سے ہو زخمی

اور سر پر شرارت سے بندھا بالوں کا جوڑا
سچ دھج سو اک آفت

خونخوار نگہ عربدہ جو آپ سو کیفی
سرشار نشہ میں

اک ہاتھ میں ساغر تو پھر اک ہاتھ میں مینا
مستوں کی سی حالت

آیا مرے گھروی مرے دروازہ پہ دستک
میں گھر سے نکل کر

دیکھوں تو سرِ کوچہ اک آشوب ہے پیدا
آئی ہے قیامت

تب میں نے کہا اس سے کہ اے مایہ خوبی
کیا جی میں یہ ایا

اس وقت جو آیا تو مرے پاس اکیلا
سمجھا نہ قباحت

تو سُن کے لگا کہنے کہ اے مصحفیؔ سُن بات
گھر سے مرے مجھ کو

لایا ہے ترا جاذبہ ہی کھینچ کے اِس جا
تھی کس کو یہ قدرت

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


سر شام اس نے منھ سے جو رُخِ نقاب اُلٹا
نہ غروب ہونے پایا وہیں آفتاب اُلٹا

جو کسی نے دیکھنے کو اسے لا کے دی مصّور
نہ حیا کے مارے اُس نے ورقِ کتاب اُلٹا

میں حساب بوسہ جی میں کہیں اپنے کر رہا تھا
وہ لگا مجھے سے کرنے طلب اور حساب اُلٹا

مہ چاردہ کا عالم میں دکھاؤں گا فلک کو
اگر اس نے پردہ منھ سے شبِ ماہتاب اُلٹا​

جو خفا ہوا میں جی میں کسی بات پر شبِ وصل
سحر اٹھ کے میرے آگے وہی اُسنے خواب اُلٹا

بسوال بوسہ اُسنے مجھے روک کے دی جو گالی
میں ادب کے مارے اُسکو نہ دیا جواب اُلٹا

کہیں چشم مہر اس پر تو نہ پڑ گئی ہو یارب
جو نکلتے صبح گھر سے وہ پھرا شتاب اُلٹا

میں ہوا ہوں جس پر عاشق یہ شنگرف ماجرا ہے
کہ مرے عوض لگا ہے اُسے اضطراب اُلٹا

کسی مست کی لگی ہے مگر اس کے سر کو ٹھوکر
جو پڑا ہے میکدہ میں یہ خمِ شراب اُلٹا

یہ مقامِ آفریں ہے کہ بزور مصحفیؔ نے
انہی قافیوں کو پھر بھی بصد آب و تاب اُلٹا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


جو پھرا کے اس نے منھ کو بقضا نقاب اُلٹا
اِدھر آسمان اُلٹا اُدھر آفتاب اُلٹا

نہ قفس میں ایسے مجھ کو تو اسیر کیجو صیاد
کہ گھڑی گھڑی وہ ہووے دمِ اضطراب اُلٹا

مرے حال پر مغاں نے یہ کرم کیا کہ سُن سُن
مرے پی کے سر پہ رکھا قدح شراب اُلٹا

ترا تشنہ لب جہاں سے جو گیا لحد پہ اسکی
پس مرگ بھی کسی نے نہ سبوئے آب اُلٹا

مری آہ نے جو کھولی بعبوق آہ کی برق
وہیں برق رعد لے علم سحاب اُلٹا

جو خیال میں کسو کے شبِ ہجر سو گیا ہو
نہ ہو صبح کو آلہی کبھی اس کا خواب اُلٹا

مرے دم الٹنے کی جو خبر اسکو دی کسی نے
وہیں نیم رہ سے قاصد بصد اضطراب اُلٹا

جو علی کا حکم نافذ نہ فلک پہ تھا تو پھر کیوں
بگہ غروب آیا نکل آفتاب اُلٹا

اب اسی میں توسہِ غزلہ جو کہے تو کام بھی ہے
نہیں مصحفی مزا کیا جو دور و کتاب اُلٹا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


یہ دم اسکے وقت رخصت بصد اضطراب اُلٹا
کہ بسوئے دل مژہ سے وہیں خونِ ناب اُلٹا

سر لوح اسکی صورت کہیں لکھ گیا تھا مانی
اُسے دیکھ کر نہ میں نے ورق کتاب اُلٹا

میں عجب یہ رسم دیکھی مجھے روزِ عید قربان
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا

یہ عجب ہے مری قسمت کہ جو دل کسی کو دوں میں
وہ مرے ہی سر سے مارے اسے کر خراب اُلٹا

یہ نقاب پوش قاتل کوئی زور ہے کہ جس نے
کئے خون سینکڑوں اور نہ ذرا نقاب اُلٹا

جو بوقت غسل اپنا وہ پھرالے واں سے منھ کو
تو پھراتے ہی منھ اُسکے لگے بہنے آب اُلٹا

میں لکھا ہے خط تو قاصد پہ یہ ہو گا مجھ پہ احساں
انھیں پاؤں پھر کے تو آ جو ملے جواب اُلٹا

ترے آگے مہرتاباں ہے زمیں پہ سر بسجدہ
یہ ورق ہے گنجفہ کا نہیں آفتاب اُلٹا

نہیں جائے شکوہ اس سے ہمیں مصحفیؔ ہمیشہ
کہ زمانہ کا رہا ہے یوہیں انقلاب اُلٹا​

غزل ہائے مرقومہ ذیل پر شاہ نصیر کی بھی غزل دیکھو۔

صاف چولی سے عیاں ہے بدن سُرخ ترا
نہیں چُھپتا تہِ شبنم چمن سُرخ ترا

یہی عالم ہے اگر اس کا تو دکھلا دے گا
بارشِ خوں کا سماں پیرہن سُرخ ترا

وائے ناکامی کہ عاشق کو ترے موت آئی
قابل بوسہ ہوا جب دہن سُرخ ترا

تا کمر خون شہیدوں کے بہے گلیوں میں
جب سے پاجامہ بنا گلبدن سُرخ ترا

خون سے آلودہ ہو آتا ہے تو اے اشک سفید
نام ہم کیوں نہ رکھیں یاسمن سُرخ ترا

آتشِ تیز میں ٹھہرا ہے کہیں یوں بھی سپند
کہہ رہا ہے یہی خالِ ذقن سُرخ ترا

مصحفی خوش ہو کہ مانگے گا ترے قاتل سے
خوں بہا روز قیامت کفن سُرخ ترا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


کیسہ مالی سے ہوا گل بدن سُرخ ترا
طالب آب نہ ہو کیوں چمنِ سُرخ ترا

یہی پوشاک کا ہے رنگ تو اے گل ہو گا
تشنہ خون چمن پیرہن سُرخ ترا

کیوں نہ ہو مردہ ہوس زندہ بنے جب اے شوخ
پان سے بیربُہیٹّی دہن سُرخ ترا

مجھ سے انکار ستم فائدہ اے گرگ فلک
واں ہے بچہ خوری پر دہن سُرخ ترا

کاش اے کشتہ تو محشر میں اُٹھے ہو کے فقیر
گیروا مٹی میں ہووے کفن سُرخ ترا

لب پان کوردہ کی اس گل کے جو سرخی دیکھی
رنگ اڑ جائے گا اے ناردن سُرخ ترا

سر پہ تابش میں تو رکھے تو دِل عاشق میں
آگ بھڑکائے نہ کیوں بادزن سُرخ ترا

مصحفیؔ چاہیے کیا اس کو دلیلِ قاطع
سبز ہے خود بہ تخلص سخن سُرخ ترا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


اک تو تھا آتشِ سوزاں بدن سُرخ ترا
شعلہ بر شعلہ ہوا پیرہن سُرخ ترا

پان کھانے کی ادا یہ ہے تو ایک عالم ہے
خوں رُلا دے گا مری جاں دہن سُرخ ترا

گوئے خورشید شفق رنگ کو دیتا ہے فشار
پنجہ رشک سے سیب ذقن سُرخ ترا

شمع گلگوں غمِ پروانہ میں خوں اتنا نہ رو
طشتِ آتش تو بنا ہے لگن سُرخ ترا

سُرخ عیار سے تو کم نہیں اے دُردِ حنا
کفِ رنگین بتاں ہے دہن سُرخ ترا

یوہیں اے کشتہ جو آیا تو صفِ محشر میں
آگ دیوے گا لگا واں کفن سُرخ ترا

تو اگر ناقہ آہو ہے تو عقدہ زلف
ہے وہ رخسارہ رنگیں ختن سُرخ ترا

اُسکے موباف سے بھی شانہ نے شب پوچھا تھا
دام شب رنگ ہے کیوں اے رسن سُرخ ترا

ہر پری چہرہ ہے پوشیدہ لباس گلگوں
میں تو دیوانہ ہوں اے انجمن سُرخ ترا

مصحفیؔ زخم ہے تیشہ کا ترے ہر مُو پر
نام ہم کیوں نہ رکھیں کوہکن سُرخ ترا

  • -*-*-*-*


رنگ پان سے جو ہوا گل دہن سُرخ ترا
مر گئی دیکھ کے بلبل دہن سُرخ ترا

پان کھا کر جو مسی زیب کئے تو نے دو لب
بن گیا مزرع سنبل دہن سُرخ ترا

سُرخ تو تھا ہی ولے اور ہوا گلناری
پی گئے اے گل قدح مُل دہن سُرخ ترا

تب ہو عاشق کی شب وصل تسلی اے گُل
مصرفِ بوسہ ہو جب گل دہن سُرخ ترا

غنچہ ساں وا نہ ہوا عالمِ مے نوشی میں
سُن کے شیشہ کی بھی قلقل دہن سُرخ ترا

شانہ کرتے جو سرِ جعد تو دانتوں میں رکھے
ہو نہ خونخوارہ کاکل دہن سُرخ ترا

تیغ مریخ پہ چھٹتی ہے ہوائی اب تک
کہیں دیکھا تھا سرِ پل دہن سُرخ ترا

مصحفیؔ تو نے زبس گل کے لئے ہیں بوسے
رشک سے دیکھے ہے بلبل دہنِ سُرخ ترا

  • -*-*-*-*-*-*-*


جو گستاخانہ کچھ اس سے میں بولا
تو بس ابرو نے تیغا دو ہیں تولا

چُنے عاشق نہ کیوں اُسکے ممولے
کہ چشم شوخ ہے اس کی ممولا

جزاک اللہ بنایا تو نے صیّاد
قفس میں ازپئے بلبل ہنڈولا

نہ مارے دست و پا تا اس کا بسمل
آلہی مار جاوے اس کو جھولا

لب اس گل کے ہیں جام بادہ لعل
مسی نے اُن میں آ کر زہر گھولا

یہ وہ گلشن ہے جس میں غم کے مارے
تبسّم سے کلی نے مجھ نہ کھولا

مری پتلی نے اشک خیرہ سر کو
بنایا ہے ہتھیلی کا پھپھولا

کہیں ملتے ہیں ایسے مصحفیؔ یار
نہ آوے دل کے مرنے کا ممولا​

آتش کی غزل کو بھی دیکھنا۔

نگاہِ لطف کے کرتے ہی رنگ انجمن بگڑا
محبت میں تری ہم سے ہر اک اہل وطن بگڑا​

کچھ اسکی وضع بگڑی کچھ ہے وہ پیمان شکن بگڑا
یہ سج دھج ہے تو دیکھو کے زمانہ کا چلن بگڑا

خدا کہتا تھا روزِ محشر میں تجھ سے سمجھ لوں گو
ترے تیشہ سے گر شیریں کا نقش اے کوہکن بگڑا

میں سمجھا گریہ سے تاثیر اُس دم سمع مجلس کی
یہ موتی اشک کا جاتے ہوئے جب تا لگن بگڑا

جو چنگ نالہ کو ہن نے اُڑایا ہجر کی شب میں
کہیں گے سب کہ تیرا کھیل اب چرخ کہن بگڑا

جسے سب بانکے اور ٹیڑھے کریں تھے دور سے مُجرا
وہی رستہ میں آخر ہم سے کر کے بانکپن بگڑا

تری مژگاں کی راوت چڑھ گئی جب انپہ لڑنے کو
پڑی پونہ کے اندر کھلبلی سارا دکن بگڑا

بُری صورت سے رہنا ننگ ہے دنیا میں انساں کو
وہ گڑ جاتا ہے خود جیتا جو کوڑھی کا بدن بگڑا

ہمیشہ شعر کہنا کام تھا والا نژادوں کا
سفیہوں نے دیا ہے دخل جب سے بس یہ فن بگڑا

مکان تنگ میں پائی نہ جا کلکِ تخیل نے
بنا سب خال و خط مانی سے اسکا پر دہن بگڑا

نہیں تقصیر کچھ درزی کی اس میں مصحفیؔ ہر گز
ہماری نادرستی سے بدن کی پیرہن بگڑا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*


دُعا دینے سے میرے شب وہ ترکِ تیغ زن بگڑا
سپاہی زادوں کا بھی دیکھوں ہوں میں کچھ چلن بگڑا

سخن سیدھی طرح اور وضع سادی بے مسی دانداں
بھلا کتنا لگے ہے مجھ کو اسکا سادہ پن بگڑا

کیا تاراج یوں پیری نے حُسن نوجوانی کو
بوقتِ صبح آرائش کا ہووے جوں چمن بگڑا

سوئی جس کو لگائی زید کی معشوقہ نے اپنی
سبھی سنوری وہی مجنوں کا بس اک پیرہن بگڑا

کمال حسن خالق نے دیا ہے اس پریزد کو
نہ چتون کج ہوئی اسکی نہ گاتے میں دہن بگڑا

یہ تصویر میں عجب نواب نے کوٹھی میں بنوائیں
کسی کی ہے پھری ٹھوڑی کسی کا ہے دہن بگڑا

نہ مارے حق کسی کو کر کے مفلس وائے رسوائی
جہاں کو تہ ہوا کپڑا کفن کا وہ کفن بگڑا

رواج اُس نے نہ پایا بسکہ عہدِ زلف مشکیں میں
دھرا نافہ میں جو برسوں رہا مشک ختن بگڑا

عجائب اور غرائب باتیں اب سننے میں آئی ہیں
خم نیلی ترا شاید کہ اے چرخِ کہن بگڑا

خلل انداز جو لکنت ہوئی اسکی فصاحت میں
زباں پر اس بُتِ الکن کی آیا جو سخن بگڑا

ہمیں تکلیف نظم شعر کی دینے سے کیا حاصل
زمانہ ہم سے ان رعزوں ہے یاران وطن بگڑا

بہ ہمت جس سے شکلِ کافر شیریں بنائی تھی
اُسی تیشہ سے پھر آخر کو کار کوہکن بگڑا

رہی اے مصحفیؔ تا صبح اسکی اُس پہ جھنجھلاہٹ
بنانے میں جو مشاطہ سے شب حال ذقن بگڑا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


نہ گیا کوئی عدم کو دلِ شاداں لے کر
یاں سے کیا کیا نہ گئے حسرت و ارماں لیکر

جی ہی جی بیج بہت شاد ہوا کرتی ہیں
تیری عارض کی بلائیں تیری مژگاں لیکر

کیا خطا مجھ سے ہوئی رات کہ اس کافر کا
میں نے خود چھوڑ دیا ہاتھ میں داماں لیکر

باغ وہ دشتِ جنوں تھا کہ کبھی جس میں سے
لالہ و گل گئے ثابت نہ گریباں لیکر

طُرفہ سوجھی یہ جنوں کو ترے دیوانے کی
راہ میں پھینک دیئے خار مغیلاں لیکر

زلف و رخسار کا عالم ہے غضب ہے اسکے
شاد ہو کیوں نہ دل گبرو مسلماں لیکر

پردہ خاک میں سُو سُو رہے جا کر افسوس
پردہ رخسار پہ کیا کیا مہ تاباں لیکر

ابر کی طرح سے کر دیویں گے عالم کو نہال
ہم جدھر جاویں گے یہ دیدہ گریاں لیکر

پھر گئی سوئے اسیرانِ قفس بادِ صبا
خبر آمدِ ایّام بہاراں لے کر

دوستی تھی مجھے ہر اک سے گئے تا در قبر
دوش پر نعش مری گبرو مسلماں لیکر

رنج پہ رنج جو دینے کی ہے خو قاتل کو
ساتھ آیا ہے بہم تیغ و نمکداں لیکر

مصحفیؔ گوشہ عزلت کو سمجھ تخت شہی
کیا کرے گا تو عبث ملک سلیماں لیکر

یار بن باغ سے ہم آتے ہیں دُکھ پائے ہوئے
اشک آنکھوں میں بھرے ہاتھ میں گل کھائے ہوئے

آنکھ سیدھی نہیں کرتا کہ مقابل ہو نگاہ
آرسی ناز سے وہ دیکھے ہے شرمائے ہوئے

کس کے آنے کی خبر ہے جو چمن میں گلچیں
جوں صبا چار طرف پھرتے ہیں گھبرائے ہوئے

ہم تو ترسے ہیں صنم اک نگہِ دُور کو بھی
بخت انکے ہیں جو ہر دم تیرے ہمسائے ہوئے

حُسن خجلت زدہ کیا ر نگ دکھاتا ہے نئے
آرسی بھی اسے اب دیکھے ہے للچائے ہوئے

اس کے کوچہ سے جو اُٹھ آتے ہیں ہم دیوانے
پھر انھیں پاؤں چلے جاتے ہیں بورائے ہوئے

مصحفیؔ کیونکہ عناں گیر ہو اس کا جوں برق
تو سنِ ناز کو جب جائے وہ چمکائے ہوئے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


خامش ہیں ارسطو و فلاطوں مرے آگے
دعویٰ نہیں کرتا کوئی موزوں مرے آگے

دانش پہ گھمنڈ اپنی جو کرتا ہے بشدّت
واللہ کہ وہ شخص ہے مجنوں مرے آگے

لاتا نہیں خاطر میں سخن بیہودہ گو کا
اعجاز مسیحا بھی ہے افسوں مرے آگے

دشوار ہے رتبہ کو پیمبر کے پہنچنا
ہے موسیٰ عمران بھی ہاروں مرے آگے

باندھے ہوئے ہاتھوں کو بامید اجابت
رہتے ہیں کھڑے سیکڑوں مضموں مرے آگے

جب موج پہ آ جائے ہے دریائے طبیعت
قطرے سے بھی کم ٹھہرے ہے جیجوں مرے آگے

بدبینی پہ آؤں تو سبھی اہل صفا کے
ہو جاویں شبہ سب درِ مکنوں مرے آگے

اُستاد ہوں میں مصحفیؔ حکمت کے بھی فن میں
ہے کودکِ نو درس فلاطوں مرے آگے

  • -*-*-*-*


ہے جام طرب ساغرِ پُرخوں مرے آگے
ساقی تو دلانا سے گلگوں مرے آگے

ٹک لب کے ہلا دینے میں حسان عجم کا
ہو جاوے ہے احوال وگرگوں مرے آگے

سمجھوں ہوں اسے مہرہ بازیچہ طفلاں
کس کام کا ہے گنبد گردوں مرے آگے

جب تیزی پہ آتا ہے مرا تو سنِ خامہ
بنجاویں ہیں تب کوہ بھی ہاموں مرے آگے

میں گوز سمجھتا ہوں سدا اسکی صدا کو
گو بول اُٹھے ادھی کی چوں چوں مرے آگے

سب خوشہ ربا ہیں مرے خرمن کے جہاں میں
کیا شعر پڑھے گا کوئی موزوں مرے آگے

قدرت ہے خدا کی کہ ہوئے آج وہ شاعر
طفلی میں جو کل کرتے تھے غاں غوں مرے آگے

موسیٰ کا عصا مصحفیؔ ہے کامہ مرا بھی
گو خصم بنے اسودِ افیوں مرے آگے