آب حیات/تیسرا دور/خاتمہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

رات آخر ہو گئی مگر جلسہ جما ہوا ہے اور وہ سماں بندھ رہا ہے کہ دل سے صدا آتی ہے :

یا الہٰی تا قیامت برنیاید آفتاب​

اس مشاعرہ کے شعراء کا کچھ شمار نہیں، خدا جانے یہ کتنے ہیں، اور آسماں پر تارے کتنے ہیں۔ سننے والے ایسے مشتاق کہ شمع پر شمع پانی ہوتی ہے، مگر ان کے شوق کا شعلہ دھیما نہیں ہوتا۔ یہی آواز چلی آتی ہے :

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ

جب تلک بس چل سکے ساغر چلے​

آزاد بھولتے ہو؟ دلوں کی نبض کس نے پائی ہے؟ جانتے نہیں کہ دفعتہً اکتا جاتے ہیں۔ پھر ایسے گھبرا جاتے ہیں کہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں۔ بس اب باقی داستان فردا شب۔ اے لو صبح ہو گئی، طول کلام ملتوی کرو۔

عزیزو مست سخن ہوو یا کہ سوتے ہو

اُٹھو اُٹھو کہ بس اب سر پہ آفتاب آیا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-***********-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*