آب حیات/میر محمد تقی میر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

میر تخلص محمد تقی نام خلف میر عبد اللہ شرفائے اکبر آباد سے تھے۔ سراج الدین علی خاں آرزو، زبان فارسی کے معتبر مصنف اور مسلم الثبوت محقق ہندوستان میں تھے۔ گلزار ابراہیمی میں لکھا ہے کہ "میر صاحب کا ان سے دور کا رشتہ تھا اور تربیت کی نظر پائی تھی۔ عوام میں ان کے بھانجے مشہور ہیں۔ درحقیقت بیٹے میر عبد اللہ کے تھے۔ مگر ان کی پہلی بیوی سے تھے۔ وہ مر گئیں تو خان آرزو کی ہمشیرہ سے شادی کی تھی۔ اس لئے سوتیلے بھانجے ہوئے۔ میر صاحب کو ابتدا سے شعر کا شوق تھا، باپ کے مرنے کے بعد دلی میں آئے اور خان آرزو کے پاس انھوں نے اور ان کی شاعری نے پرورش پائی۔ مگر خان صاحب حنفی مذہب تھے اور میر صاحب شیعہ، اس پر نازک مزاجی غضب کی۔ غرض کسی مسئلہ پر بگڑ کر الگ ہو گئے۔ بدنظر زمانہ کا دستور ہے کہ جب کسی نیک نام کے دامن شہرت کو ہوا میں اڑتے دیکھتا ہے تو ایک داغ لگا دیتا ہے۔ چنانچہ تذکرہ شورش میں لکھا ہے کہ خطاب سیادت انھیں شاعری کی درگاہ سے عطا ہوا ہے۔ کہن سال بزرگوں سے یہ بھی سُنا ہے کہ جب انھوں نے میر تخلص کیا تو ان کے والد نے منع کیا کہ ایسا نہ کرو۔ ایک دن خواہ مخواہ سید ہو جاؤ گے۔ اس وقت انھوں نے خیال نہ کیا۔ رفتہ رفتہ ہو ہی گئے۔ سوداؔ کا ایک قطعہ بھی سن رسیدہ لوگوں سے سُنا ہے۔ مگر کلیات میں نہیں۔ شاید اس میں بھی یہی اشارہ ہو :

بیٹھے تنور طبع کو جب گرم کر کے میرؔ

کچھ شیر مال سامنے کچھ نان کچھ پنیر​

اخیر میں کہتے ہیں :

میری کے ابتو سارے مصالح ہیں مستور

بٹیا تو گندنا بنے اور آپ کو تھ میرؔ​

پھر بھی اتنا کہنا واجب سمجھتا ہوں کہ ان کی مسکینی و غربت اور صبر و قناعت تقوی و طہارت محضر بنا کر ادائے شہادت کرتے ہیں کہ سیادت میں شبہ نہ کرنا چاہیے۔ اور زمانہ کا کیا ہے۔ کس کس کو کیا نہیں کہتا۔ اگر وہ سید نہ ہوتے تو خود کیوں کہتے :

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں

اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی​

غرض ہر چند کہ تخلص ان کا میر تھا۔ مگر گنجفہ سخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ قدردانی نے ان کے کلام کو جوہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور ناک کو پھولوں کی مہک بنا کر اڑایا۔ ہندوستان میں یہ بات انہی کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافر غزلوں کو تحفہ کے طور پر شہر سے شہر کے جاتے تھے۔

یہ بھی ظاہر ہے کہ نحوست اور فلاکت قدیم سے ابن کمال کے سر پر سایہ کئے ہیں۔ ساتھ اس کے میر صاحب کی بلند نظری اس غضب کی تھی کہ دُنیا کی کوئی بڑائی اور کسی کا کمال یا بزرگی انھیں بڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس قباحت نے نازک مزاج بنا کر ہمیشہ دنیا کی راحت اور فارض البالی سے محروم رکھا، اور وہ وضعداری اور قناعت کے دھوکے میں اسے فخر سمجھتے رہے۔ یہ الفاظ گستاخانہ جو زبان سے نکلے ہیں، راقم رُو سیاہ ان کی روح پاک سے عفو قصور چاہتا ہے، لیکن خدا گواہ ہے کہ جو کچھ لکھا گیا فقط اس لئے ہے کہ جن لوگوں کو دنیا میں گذارہ کرنا ہے وہ دیکھیں کہ ایک صاحب جوہر کا جوہر یہ باتیں کیوں کر خاک میں ملا دیتی ہیں، چنانچہ انہی کے حالات و مقالات اس بیان کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ دلی میں شاہ عالم کا دربار اور امراء و شرفاء کی محفلوں میں ادب ہر وقت ان کے لئے جگہ خالی کرتا تھا، اور ان کے جوہر کمال اور نیکی اطوار و اعمال کے سبب سے سب عظمت کرتے تھے۔ مگر خالی آدابوں سے خاندان تو نہیں پل سکتے، اور وہاں تو خود خزانہ سلطنت خالی پڑا تھا۔ اس لئے ۱۱۹۰ء میں دلی چھوڑنی پڑی۔

جب لکھنؤ چلے تو ساری گاڑی کا کرایہ بھی پاس نہ تھا۔ ناچار ایک شخص کے ساتھ شریک ہو گئے تو دلی کو خدا حافظ کہا، تھوڑی دور آگے چل کر اس شخص نے کچھ بات کی، یہ اس کی طرف سے منھ پھیر کر ہو بیٹھے، کچھ دیر کے بعد پھر اس نے بات کی، میر صاحب چیں بہ چیں ہو کر بولے کہ صاحب قبلہ آپ نے کرایہ دیا ہے، بیشک گاڑی میں بیٹھے، مگر باتوں سے کیا تعلق؟ اس نے کہا، حضرت کیا مضائقہ ہے، راہ کا شغل ہے باتوں میں ذرا جی بہلتا ہے۔ میر صاحب بگڑ کر بولے۔ کہ خیر آپ کا شغل ہے، میری زبان خراب ہوتی ہے۔

لکھنؤ میں پہنچ کر جیسا مسافروں کا دستور ہے ایک سرا میں اترے۔ معلوم ہوا کہ آج یہاں ایک جگہ مشاعرہ ہے۔ رہ نہ سکے، اسی وقت غزل لکھی اور مشاعرہ میں جا کر شامل ہوئے۔ ان کی وضع قدیمانہ، کھڑکی دار پگڑی، پچاس گز کے گھیر کا پاجامہ، ایک پورا تھان پستولئے کا کمر سے بندھا، ایک رومال پڑی دار تہ کیا ہوا، اس میں آویزاں، مشروع کا پاجامہ جس کی عرض کے پائیچے، ناگ پھنی کی انی دار جوتی، جس کی ڈیڑھ بالشت اونچی نوک، کمر میں ایک طرف سیف یعنی سیدھی تلوار، دوسری طرف کٹار ہاتھ میں جریب، غرض جب داخل محفل ہوئے تو وہ شہر لکھنؤ نئے انداز نئی تراشیں، بانکے ٹیڑھے جوان جمع۔ انھیں دیکھ کے سب ہنسنے لگے۔ میر صاحب بیچارے غریب الوطن، زمانہ کے ہاتھ سے پہلے ہی دل شکستہ تھے۔ اور بھی دل تنگ ہوئے اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ شمع ان کے سامنے آئی تو پھر سب کی نظر پڑی اور بعض اشخاص نے پوچھا کہ حضور کا وطن کہا ہے، میر صاحب نے یہ قطعہ فی البدیہہ کہہ غزل طرحی میں داخل یا :

کیا بودو باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو

ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے​


دلی جو ایک شہر تھا عالم انتخاب

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے


جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اُسی اجڑے دیار کے​

سب کو حال معلوم ہوا۔ بہت معذرت کی اور میر صاحب سے عفو تقصیر چاہی۔ کمال کے طالب تھے۔ صبح ہوتے ہوتے شہر میں مشہور ہو گیا کہ میر صاحب تشریف لائے۔ رفتہ رفتہ نواب آصف الدولہ مرحوم نے سنا اور دو سو روپیہ مہینہ مقرر کر دیا۔

عظمت و اعزاز جو ہر کمال کے خادم ہیں۔ اگرچہ انھوں نے لکھنؤ میں بھی میر صاحب کا ساتھ نہیں چھوڑا، مگر انھوں نے بددماغی اور نازک مزاجی کو جو ان کے ذاتی مصاحت تھے اپنے دم کے ساتھ ہی رکھا۔ چنانچہ کبھی کبھی نواب کی ملازمت میں جاتے تھے۔

ایک دن نواب مرحوم نے غزل کی فرمائش کی۔ دوسرے تیسرے دن جو پھر گئے تو پوچھا کہ میر صاحب! ہماری غزل لائے؟ میر صاحب نے تیوری بدل کر کہا۔ جناب عالی! مضمون غلام می جیب میں تو بھرے ہیں نہیں کہ کل آپ نے فرمائش کی، آج غزل حاضر کر دے۔اس فرشتہ خصال نے کہا، خیر میر صاحب جب طبیعت حاضر ہو گی کہہ دیجیئے گا۔

ایک دن نواب نے بُلا بھیجا۔ جب پہنچے تو دیکھا کہ نواب حوض کے کنارے کھڑے ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ پانی میں لال سبز مچھلیاں تیرتی پھرتی ہیں۔ آپ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ میر صاحب کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میر صاحب کچھ فرمائیے۔ میر صاحب نے غزل سنانی شروع کی نواب صاحب سنتے جاتے تھے اور چھڑی کے ساتھ مچھلیوں سے بھی کھیلتے جاتے تھے۔ میر صاحب چیں بہ چیں ہوتے اور ہر شعر پر ٹھہر جاتے تھے، نواب صاحب کہے جاتے تھے کہ ہاں پڑھیئے، آخر چار شعر پڑھ کر میر صاحب ٹھہر گئے اور بولے کہ پڑھوں کیا، آپ مچھلیوں سے کھیلتے ہیں، متوجہ ہوں تو پڑھوں۔ نواب صاحب نے کہا جو شعر ہو گا، آپ متوجہ کر لے گا۔ میر صاحب کو یہ بات زیادہ ناگوار گزری، غزل جیب میں ڈال کر گھر کو چلے آئے اور پھر جانا چھوڑ دیا۔ چند روز کے بعد ایک دن بازار میں چلے جاتے تھے، نواب کی سواری سامنے سے آ گئی۔ دیکھتے ہی نہایت محبت سے بولے کہ میر صاحب آپ نے بالکل ہی ہمیں چھوڑ دیا، کبھی تشریف بھی نہیں لاتے۔ میر صاحب نے کہا، بازار میں باتیں کرنا آداب شرفاء نہیں۔ یہ کیا گفتگو کا موقع ہے۔ غرض بدستور اپنے گھر میں بیٹھے اور فقر و فاقہ میں گذارتے رہے۔ آخر ۱۳۲۵ھ میں فوت ہوئے اور سو برس کی عمر پائی۔ ناسخؔ نے تاریخ کہی کہ :

واویلا مرشہ شاعراں​

تصنیفات کی تفصیل یہ ہے کہ چھ دیوان غزلوں کے ہیں، چند صفحے ہیں جن میں فارسی کے عمدہ متفرق شعروں پر اردو مصرع لگا کر مثلثؔ اور مربعؔ کیا ہے اور یہ ایجاد ان کا ہے۔ رباعیاں، مشتزاد، چند صفحے ۴ قصیدے منقبت میں اور ایک نواب آصف الدولہ کی تعریف میں، چند مخمس اور ترجیع بند مناقب میں، چند مخمس شکایت زمانہ میں جن سے بعض اشخاص کی ہجو مطلوب ہے۔ دو واسوکت، ایک ہفت بند ملا حسن کاشی کی طرف پر حضرت شاہِ ولایت کی شان میں ہے۔ بہت سی مثنویاں جنکی تفصیل عنقریب واضح ہوتی ہے۔ تذکرہ نکات الشعراء شاعران اردو کے حال کا کہ اب بہت کمیاب ہے۔ ایک رسالہ مسمٰے فیض میر مصحفیؔ اپنے تذکرہ فارسی میں لکھتے ہیں "دعوےٰ شعر فارسی نہ دارد، مگر فارسیش ہم کم از ریختہ نیست مے گفت کہ سالے ریختہ موقوف کردہ بودم، درآں حال دو ہزار شعر گرفتہ تدوین کردم۔

معلوم ہوتا ہے کہ میر صاحب کو تاریخ گوئی کا شوق نہ تھا۔ علیٰ ہذالقیاس مرثیہ بھی دیوان میں نہیں۔ غزلوں کے دیوان اگرچہ رطب ویابس سے بھرے ہوئے ہیں، مگر جو ان میں انتخاب ہیں وہ فصاحت کے عالم میں انتخاب ہیں۔ اُردو زبان کے جوہری قدیم سے کہتے آئے ہیں کہ ستر (۷۰) اور دو بہتر (۷۲) نشتر باقی میر صاحب کا تبرک ہے، لیکن یہ بہتر (۷۲) کی رقم فرضی ہے۔ کیوں کہ جب کوئی تڑپتا ہوا شعر پڑھا جاتا ہے تو ہر سخن شناس سے مبالغہ تعریف میں یہی سُنا جاتا ہے کہ دیکھئے یہ انھیں بہتر نشتروں میں ہے۔ انھوں نے زبان اور خیالات میں جس قدر فصاحت اور صفائی پیدا کی ہے۔ اتنا ہی بلاغت کو کم کیا ہے، یہی سبب ہے کہ غزل اُصول غزلیت کے لحاظ سے سوداؔ سے بہتر ہے۔ ان کا صناف اور سلجھا ہوا کلام اپنی سادگی میں ایک انداز دکھاتا ہے اور فکر کو بجائے کاہش کے لذت بخشتا ہے۔ اسی واسطے خواص میں معزز اور عوام میں ہر دل عزیز ہے۔ ھقیقت میں یہ انداز میر سوز سے لیا۔ مگر اُن کے ہاں فقط باتیں ہی باتیں تھیں۔ انھوں نے اس میں مضمون داخل کیا، اور گھریلو زبان کو متانت کا رنگ دے کر محفل کے قابل کیا۔

چونکہ مطالب کی دقت مجامین کی بلند پردازی، الفاظ کی شان و شکوہ بندش کی چُستی، لازمہ قصائد کا ہے، وہ طبیعت کی شگفتگی اور جوش و خروش کا ثمر ہوتا ہے۔ اسی واسطے میر صاحب کے قصیدے کم ہیں۔ اور اسی قدر درجہ میں میں بھی کم ہیں۔ انھوں نے طالبِ سخن پر روشن کر دیا ہے کہ قسیدہ اور غزل کے دو میدانوں میں دن اور رات کا فرق ہے۔ اور اسی منزل میں آ کر سوداؔ اور میرؔ کے کلام کا حال کُھلتا ہے۔

امراء کی تعریف میں قصیدہ نہ کہنے کا یہ بھی سبب تھا کہ توکل اور قناعت انھیں بندہ کی خوشامد کی اجازت نہ دیتے تھے یا خود پسندی اور خود بینی جو انہیں اپنے میں آپ غرق کئے دیتی تھی، وہ زبان سے کسی کی تعریف نکلنے نہ دیتی تھی، چنانچہ کہتے ہیں اور کیا خوب کہتے ہیں:

مجھ کو دماغِ وصف گل و یاسمن نہیں

میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں

کل جا کے ہم نے میرؔ کے در پر سُنا جواب

مُدت ہوئی کہ یاں وہ غریب الوطن نہیں​

چند مخمس شکایت زمانہ میں بطور آشوب کے کہے ہیں، اور ان میں بعض اشخاص کے نام بھی لئے ہیں۔ مگر ایسے کمزور کہے ہیں کہ گویا کچھ نہیں ہیں۔ یہ سمجھ لو کہ قسامِ ازل نے ان کے دسترخوان سے مدح اور قدح کے دو پیالے اٹھا کر سودا کے ہاں دھر دیئے ہیں۔

واسوخت دو ہیں اور کچھ شک نہیں کہ لاجواب ہیں۔ اہل تحقیق نے فغانی یا وحشی کو فارسی میں اور اردو میں انھیں واسوخت کا موجد تسلیم کیا ہے۔ سینکڑوں شاعروں نے واسوخت کہے لیکن خاص خاص محاورں سے قطع نظر کریں تو آج تک اس کوچہ میں میر صاحب کے خیالات و انداز بیان کا جواب نہیں۔

مناقب میں جو مخمس اور ترجیع بند وغیرہ کہے ہیں، حقیقت میں حُسنِ اعتقاد کا حق ادا کر دیا ہے، وہ ان کے صدق دل کی گواہی دیتے ہیں۔

مثنویاں مختلف بحروں میں ہیں، اصول مثنوی کے ہیں، وہ میر صاحب کا قدرتی انداز واقع ہوا ہے۔ اس لئے بعض بعض لطف سے خالی نہیں۔ ان میں شعلہ عشق اور دریائے عشق نے اپنی کوبی کا انعام شہرت کے خزانہ سے پایا۔ مگر افسوس یہ کہ میر حسن مرحوم کی مثنوی سے دونوں پیچھے رہیں۔

جوشِ عشق میں لطافت و نزاکت کا جوش ہے۔ مگر مشہور نہ ہوئی۔ اعجاز عشق و خواب و خیال مختصر ہیں۔ اور اس رتبہ پر نہیں پہنچیں۔ معاملات عشق ان سے بڑی ہے، مگر رتبہ میں گھٹی ہوئی ہے۔

مثنوی شکار نامہ نواب آصف الدولہ کے شکار کا اور اس سفر کا مفصل حال لکھا ہے۔ اس میں جو متفرق غزلیں جا بجا لگائی ہیں وہ عجیب لطف دیتی ہیں۔

ساقی نامہ بہاریہ لکھا ہے۔ مگر اصلی درجہ لطافت و فصاحت پر ہے۔

اس کے علاوہ بہت سی مختصر مختصر مثنویاں ہیں۔ ایک مثنوی اپنے مرغے کے مرثیہ میں لکھی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میرا پیارا مرغا تھا، بڑا اصیل تھا، بہت خوب تھا۔ اس پر بلی نے حملہ کیا، مرغے نے بڑی دلاوری سے مقابلہ کیا اور اخیر کو مارا گیا۔ مثنوی تو جیسی ہے ویسی ہے، مگر ایک شعر اس کے وقت آخر کا نہیں بھولتا۔

جھکا بسوئے قدم سر خروس بیجاں کا

زمین پہ تاج گِرا ہُد ہُد سلیماں کا​

ایک مثنوی میں کہتے ہیں کہ میری ایک بلّی بھی، بڑی وفادار تھی۔ بڑی قانع تھی، اس کے بچے نہ جیتے تھے، ایک دفعہ ۵ بچے ہوئے۔ پانچوں جئے، تین بچے لوگ لے گئے۔ دو رہے، وہ دونوں مادہ تھے، ایک کا نام مونی رکھا، دوسرے کا نام مانی، مونی میرے ایک دوست کو پسند آئی، وہ لے گئے۔ مانی کے مزاج میں مسکینی اور غربت بہت تھی، اس لئے فقیر کی رفاقت نہ چھوڑی۔ اس کے بیان اور اور حالات کو بہت طور دیا ہے۔

ایک کتّا اور ایک بِلّا پالا تھا۔ اس کی ایک مثنوی لکھی ہے۔

ایک امیر کے ساتھ سفر میں میرٹھ تک گئے تھے۔ اس میں برسات کی تکلیف اور رستہ کی مصیبت بہت بیان کی ہے۔ اس سے یہ بھی قیاس کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہم وطن ہمیشہ سے سفر کو کیسی آفت سمجھتے ہیں۔

ایک بکری پالی۔ اس کے چار تھن تھے۔ بچہ ہوا تو دودھ ایک ہی تھن میں اُترا۔ وہ بھی اتنا تھا کہ بچہ کی پوری نہ پڑتی تھی۔ بازار کا دودھ پلا پلا کر پالا، پھر بچہ کی سرزدری اور سرشوری کی شکایت ہے۔

ایک مصنوی آصف الدولہ مرحوم کی آرائش کتخدائی میں کہی ہے۔ ایک مختصر مثنوی جھوٹ کی طرف سے خطاب کر کے لکھی ہے اور اس کی بحر مثنوی کے معمولی بحروں سے علیٰحدہ ہے۔

مثنوی اژدر نامہ کہ اس کا حال آگے آتا ہے، یا اجگر نامہ۔

ایک مثنوی مختصر برسات کی شکایت میں لکھی ہے، گھر کا گرنا اور مینھ برستے میں گھر والوں کا نکلنا عجب طور سے بیان کیا ہے۔ اگر خیال کرو تو شاعر کی شورش طبع کے لیے یہ بھی موقع خوب تھا۔ مگر طبیعت مکان سے بھی پہلے گری ہوئی تھی۔ وہ یہاں بھی نہیں اُبھری، سودا ہوتے طوفان اٹھاتے۔

مثنوی تنبیہ الخیال اس میں فن شعر کی عزت و توقیر کو بہت سا طول دیکر کہا ہے۔ اس فن شریف کو شرفا اختیار کرتے تھے۔ اب پواج اور ارزال بھی شاعر ہو گئے۔ اس میں ایک بزاز لونڈے کو بہت خراب کیا ہے۔ اس کے علاوہ ککئی اور چھوٹی مثنویاں کہ چنداں ذکر کے قابل نہیں۔

نکات الشعراء شاعر کے لئے بہت مفید ہے۔ اس میں شعرائے اردو کی بہت سی باتیں اس زمانہ کے لوگوں کے دیکھنے کے قابل ہیں مگر وہاں بھی اپنا انداز قائم ہے۔ دیباچہ میں فرماتے ہیں کہ یہ اردو کا پہلا تذکرہ ہے (یہ بھی میر صاحب کا دعویٰ ہے ورنہ اس سے پہلے تذکرے مرتب ہو چکے ہیں)۔ اس میں ایک ہزار شاعروں کا حال لکھوں گا۔ مگر ان کو نہ لوں گا، جن کے کلام سے دماغ پریشان ہو۔ ان ہزار میں ایک بے چارہ بھی طعنوں اور ملامتوں سے نہیں بچا۔ ولی کہ بنی نوع شعراء کا آدم ہے۔ اس کے حق میں فرماتے ہیں۔

وے شاعر بست از شیطان مشہور تر میر خاں کمترین (کمترین تخلص میر خاں نام تھا۔ تخلص میں یہ نکتہ رکھا تھا کہ قوم کے افغان تھے۔ ترین فرقہ کا نام تھا، کمترین تخلص کیا تھا۔ بہت سن رسیدہ تھے۔ شاہ آبرو اور ناجی کے دیکھنے والوں میں تھے، مگر چوتھے طبقہ کے شاعروں میں موجود ہوتے تھے، پرانے سپاہی تھے، کچھ بہت علم بھی نہ تھا، طبقہ اول کے رنگ میں ایہام کے شعر کہتے تھے۔ خوش مزاج بھی تھے اور غصیل بھی تھے اور وقت پر جو سوجھ جاتی تھی اس میں چوکتے نہ تھے، صاف کہہ بیٹھتے تھے۔ کوئی ان کی زبان سے بچا نہیں مگر وہ زمانہ بھی ایسا تھا کہ علماء شرفاء سب ہنستے تھے اور ہنس ہنس کر برداشت کرتے تھے۔ وضع بھی دنیا سے نرالی رکھتے تھے۔ ایک بڑی سی گھیر دار پگڑی سر پر باندھتے تھے، لمبا سا دوپٹہ بل دیکر کمر پر لپیٹتے تھے، ایک بلّم ہاتھ میں رکھتے تھے۔ ان دنوں ہر جمعہ کو سعد اللہ خاں کے چوک پر گدری لگتی تھی، وہاں جا کر کھڑے ہوتے تھے۔ لڑکے اور شوقین مزاج خاطر خواہ دام دیتے تھے اور ایک ایک پرچہ خوشی خوشی لے جاتے تھے۔) اسی زمانہ میں ایک قدیمی شاعر دلّی کے تھے۔ انھیں اس فقرہ پر بڑا غصہ آیا۔ ایک نظم یں اول بہت کچھ کہا۔ آخر میں آ کر کہتے ہیں :

مصرعہ : ولی پر جو سخن لائے اسے شیطان کہتے ہیں​

یہ تھی مختصر کیفیت میر صاحب کی تصنیفات کی۔ میر صاحب کی زبان شستہ کلام صاف بیان ایسا پاکیزہ جیسے باتیں کرتے ہیں۔ دل کے خیالات کو جو کہ سب کی طبیعتوں کے مطابق ہیں۔ محاورے کا رنگ دے کر باتوں باتوں میں ادا کر دیتے ہیں اور زبان میں خدا نے ایسی تاثیر دی ہے کہ وہی باتیں ایک مضمون بن جاتی ہیں۔ اسی واسطے ان میں بہ نسبت اور شعرا کے اصلیت کچھ زیادہ قائم رہتی ہے۔ بلکہ اکثر جگہ یہی معلوم ہوتا ہے، گویا نیچر کی تصویر کھینچ رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دلوں پر بھی اثر زیادہ کرتی ہیں۔ وہ گویا اردو کے سعدی ہیں، ہمارے عاشق مزاج شعرا کی رنگینیاں اور خیالات کی بلند پردازیاں، ان کے مبالغوں کے جوش و خروش سب مو معلوم ہیں، مگر اسے قسمت کا لکھا سمجھو کہ ان میں سے بھی میر صاحب کو شگفتگی یا بہار عیش و نشاط یا کامیابی وصال کا لطف کبھی نصیب نہ ہوا۔ وہی مصیبت اور قسمت کا غم جو ساتھ لائے تھے، اس کا دُکھڑا سناتے چلے گئے۔ جو آج تک دلوں میں اثر اور سینوں میں درد پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ ایسے مضامین اور شعراء کے لئے خیالی تھے، ان کے حالی تھے، عاشقانہ خیال بھی ناکامی زار حالی، حسرت، مایوسی، ہجر کے لباس میں خرچ ہوئے۔ ان کا کلام صاف کہے دیتا ہے کہ جس دل سے نکل کر آیا ہوں، وہ غم و درد کا پتلا نہیں حسرت و اندوہ کا جنازہ تھا۔ ہمیشہ وہی خیالات بسے رہتے تھے۔ بس جو دل پر گذرتے تھے، وہی زبان سے کہہ دیتے تھے کہ سننے والوں کے لئے نشتر کا کام کر جاتے تھے۔

ان کی غزلیں ہر بحر میں کہیں شربت اور کہیں شیر و شکر ہیں، مگر چھوٹی چھوٹی بحروں میں فقط آب حیات بہاتے ہیں۔ جو لفظ منہ سے نکلتا ہے، تاثیر میں ڈوبا ہوا نکلتا ہے۔مگر یہ بھی بزرگوں سے معلوم ہوا کہ مشاعرہ یا فرمائش کی غزلیں ایسی نہ ہوتی تھیں جیسی کہ اپنی طبع داد طرح میں ہوتی تھیں۔ میر صاحب نے اکثر فارسی کی ترکیبوں کو ان کے ترجموں کو اردو کی بنیاد میں ڈول کر ریختہ کیا، دیکھو صفحہ ۶۰ – ۶۱ اور اکثر کو جوں کا توں رکھا۔ بہت ان میں سے پسند عام کے دربار میں رجسٹری ہوئیں اور بعض نامنظور معاصرین نے کہیں برتا، مگر بہت کم، چنانچہ فرماتے ہیں :

ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبُور تھا

پیدا ہر ایک نالہ سے شورِ نشور تھا


یہ چشم شوق طرفہ جگہ ہے دکھاؤ کی

ٹھہرو بقدر یک مژہ تم اس مکان میں


کیا کہئے حسن عشق کے آپ ہی طرف ہوا

دل نام قطرہ خون یہ ناحق تلف ہوا


دل کہ یک قطرہ خون نہیں ہے بیش

ایک عالم کے سَر بَلا لایا


ہر دم طرف ہے دل سے مزاج کرخت کا

ٹکڑا مرا جگر ہے کہو سنگ سخت (*) کا


(*) فارسی کا محاورہ ہے تو گوئی جگرم پارہ سنگ سخت است


اس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا

اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا


اپنے ہی دل کو نہ ہو واشد تو کیا حاصل نسیم

گو چمن میں غنچہ پژمردہ تجھ سے کھل گیا


خواہے پیالہ خواہ سبو کر ہمیں کلال

ہم اپنی خاک پر تجھے مختار کر چلے


یادِ ایام کہ یاں ترک شکیبائی تھا

ہر گلی کوچہ مجھے کوچہ رسوائی تھا


اے تو کہ یہاں سے عاقبت کار جائیگا

یہ قافلہ رہے گا نہ زنہار جائیگا​

اس کے علاوہ فارسی کے بعض محاوروں اور اس کی خاص خاص رسموں کا اشارہ بھی کر جاتے تھے کہ انھیں بھی پھر کسی نے پسند نہیں کیا۔ چنانچہ دیوانہ کو پُھول کی چھڑیاں مارنے کا ٹوٹکا انھوں نے بھی کیا ہے اور داغِ جنوں بھی دیا ہے (دیکھو صفحہ ۵۹)۔

جاتی ہے نظر حُسن پہ گہ چشم پریدن

یاں ہم نے پرکاہ بھی بیکار نہ دیکھا​

بعض جگہ قادر الکلامی کے تصرف کر کے اپنے زور زبان کا جوہر دکھایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :

ہر چند ناتواں ہوں پر آ گیا جو دل میں

دیں گے ملازمیں سے تیرا فلک قلابا (*)

(*) اصل قلابہ ہے۔

داغ ہے تاباں علیہ الرحمۃ کا چھاتی پہ میر

ہو نجات اس کی بچارا ہم سے بھی تھا آشنا

(بیچارہ کا مخفف ہے اور ہم سے آشنا تھا۔ بعینہ ترجمہ کا محاورہ ہے کہ بابا ہم آشنا بود، اردو میں ہمارا کہتے ہیں)

ہزار شانہ و مسواک و غسل شیخ کرے

ہمارے عندیہ میں تو ہے وہ پلیت و خبیث​

ردیف تاءسثناۃ فوقانی کی غزل میں یہ شعر واقع ہوا ہے۔ ایسے تصرفوں سے نہیں کہہ سکتے کہ انھیں اس لفظ کی صحت کی خبر نہ تھی۔ سمجھنا چاہیے کہ زبان کے مالک تھے اور محاورہ کو اصلیت پر مقدم سمجھتے تھے۔

اے خوشا حال اس کا جس کو وہ

حال عمداً تباہ کرتے تھے


ہے تہ دل بتوں کو کیا معلوم

نکلے پردہ سے کیا، خدا معلوم


میں بیقرار خاک میں کبتک ملا کروں

کچھ ملنے یا نہ ملنے کا تو بھی قرار کر


رہوں جا کے مر حضرت یار میں

یہی قصد ہے بندہ درگاہ کا


کُھلا نشے میں جو پگڑی کا پیچ اسکی میرؔ

سمند ناز کو اک اور تازیانہ ہوا


آواز ہماری سے نہ رک ہم ہیں دُعا یار

آوے گی بہت ہم سے فقیروں کی صدا یاد


سب غلطی رہی بازی طفلانہ کی یک سُو

وہ یاد فراموش تھے ہم کو نہ کیا یاد


جُز و مرتبہ کل کو حاصل کرے ہے آخر

اک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا


ابر اٹھا تھا کعبہ سے اور جھوم پڑا میخانہ پر

بادہ کشوں کا جھرمٹ ہیگا شیشہ اور پیمانہ پر​

کسی شخص نے کہا کہ حضرت، اصل محاورہ فارسی کا ہے، اہل زبان نے ابر قبلہ کہا ہے۔ ابر کعبہ نہیں کہا، میر صاحب نے کہا کہ ہاں قبلہ کا لفظ بھی آ سکتا ہے مگر کعبہ سے ذرا مصرعہ کی ترکیب گرم ہو جاتی ہے۔ اور یہ سچ فرمایا جنھیں زبان کا مزا ہے، وہی اس لطف کو سمجھتے ہیں۔ خیال کے لفظ میں جو تصرف میر صاحب نے فرمایا ہے، عنقریب واضح ہو گا۔ اکثر الفاظ ہیں جو کہ مؤنث ہیں۔ میر صاحب نے انھیں مذکر باندھا ہے۔

ملائے خاک میں کس کس طرح کے عالم یاں

نِکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا


کل جس کی جان کنی پہ سارا جہان ٹوٹا

آج اُس مریض غم کی ہچکی میں جان ٹوٹا


احوال خوش انھوں کا ہم بزم ہیں جو تیرے

افسوس ہے کہ ہم نے واں کا نہ بار پایا​


بعض جگہ مذکرّ کو مؤنث بھی کہہ جاتے ہیں۔


کیا ظلم ہے اس خوبی عالم کی گلی میں

جب ہم گئے دو چار نئی دیکھیں مزاریں


مثنوی شعلہ عشق میں کہتے ہیں۔


خلق یک جا ہوئی کنارے پر

حشر برپا ہوئی کنارے پر​

(ان کے علاوہ دیکھو صفحہ ۲۱۲)

میر صاحب میانہ قد، لاغر اندام، گندمی رنگ تھے، ہر کام متانت اور آہستگی کے ساتھ، بات بہت کم، وہ بھی آہستہ آواز میں، نرمی اور ملائمت، ضعیفی نے ان سب صفتوں کو اور بھی قوی کیا تھا، کیونکہ سو برس کی عمر آخر ایک اثر رکھتی ہے۔ مرزا قتیلؔ مشاعرے سے آ کر کسی دوست کو خط تحریر کرتے ہیں۔ اس میں جلسہ کے حالات بھی لکھتے ہیں۔ "حنجرہ میر صاحب باوصف خوش گوئی بدستور بودہ، تمام جسم مبارک ایشان رعشہ داشت، آواز ہم کس نمے شنید، مگر من و خدا کہ غزلہا خوب گفتہ بودند" عادات و اطوار نہایت سنجیدہ اور متین اور صلاحیت اور پرہیز گاری نے اسے عظمت دی تھی۔ ساتھ اس کے قناعت اور غیرت حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اطاعت تو درکنار نوکری کے نام کی برداشت نہ رکھتے تھے۔ لیکن زمانہ جسکی حکومت سے کوئی سر نہیں اکسا سکتا، اس کا قانون اس کے بالکل برخلاف ہے۔ نتیجہ یہ کہ فاقے کرتے تھے۔ دکھ بھرتے تھے اور اپنی بددماغی کے سائے میں دنیا اور اہل دُنیا سے بیزار گھر میں بیٹھے رہتے تھے۔ ان شکایتوں کے جو لوگوں میں چرچے تھے۔ وہ خود بھی اس سے واقف تھے، چنانچہ ایک مخمس شہر آشوب کے مقطع میں کہتے ہیں۔

حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ

دل سوزش دردنی سے جلتا ہے جوں چراغ

سینہ تمام چاک ہے سارا جگر ہے داغ

ہے نام مجلسوں میں میرا میرؔ بے دماغ

از بسکہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار​

باوجود اس کے اپنے سرمایہ فصاحت کو دولت لازوال سمجھ کر امیر غریب کسی کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ بلکہ فقر کو دین کی نعمت تصور کرتے تھے اور اسی عالم میں معرفت الٰہی پر دل لگاتے تھے۔ چنانچہ ان کی اس ثابت قدمی کا وصف کسی زبان سے نہیں ادا ہو سکتا کہ اپنی بے نیازی اور بے پروائی کے ساتھ دنیائے فانی کی مصیبتیں جھیلیں، اور جو اپنی آن بان تھی اُسے لئے دنیا سے چلے گئے۔ اور جس گردن کو خدا نے بلند کیا تھا سیدھا خدا کے ہاں لے گئے۔ چند روز عیش کے لالچ سے یا مفلسی کے دکھ سے اسے دنیا کے نااہلوں کے سامنے ہرگز نہ جھکایا۔ ان کا کلام کہے دیتا ہے کہ دل کی کلی اور تیوری کی گرہ کبھی کھلی نہیں، باوجود اسکے اپنے ملک خیال کے ایک بلند نظر بادشاہ تھے اور جتنی دنیا کی سختی زیادہ ہوتی اسی قدر بلند نظری دماغ زیادہ بلند ہوتا تھا، سب تذکرے نالاں ہیں کہ اگر یہ غرور اور بے دماغی فقط امراء کے ساتھ ہوتی تو معیوب نہ تھی، افسوس یہ ہے کہ اوروں کے کمال بھی انھیں دکھائی نہ دیتے تھے۔ اور یہ امر ایسے شخص کے دامن پر نہایت بدنما دھبہ ہے، جو کمال کے ساتھ صلاحیت اور نیکو کاری کا غلعت پہنے ہو۔ بزرگوں کی تحریری روائتیں اور تقریری حکائتیں ثابت کرتی ہیں کہ کواجہ حافظ شیرازی اور شیخ سعدی کی غزل پڑھی جائے تو وہ سر ہلانا گناہ سمجھتے تھے۔ کسی اور کی کیا حقیقت ہے۔ جو اشخاص اس زمانہ میں قدردانی کے خزانچی تھے، ان کے خیالات عالی اور حوصلے بڑے تھے۔ اس لئے یہ بے دماغیاں ان کے جوہر کمال پر زیور معلوم ہوتی تھیں۔ خوش نصیب تھے کہ آج کا زمانہ نہ دیکھا۔ میر قمر الدین مِنت (دیکھو تذکرہ حکیم قدرت اللہ) دلی میں ایک شاعر گذرے ہیں، کہ علوم رسمی کی قابلیت سے عمائد دربار شاہی میں تھے، وہ میر صاحب کے زمانہ میں مبتدی تھے، شعر کا شوق بہت تھا۔ اصلاح کے لئے اردو کی غزل لے گئے۔ میر صاحب نے وطن پوچھا۔ انھوں نے سونی پت علاقہ پانی پت بتلایا۔ آپ نے فرمایا کہ سید صاحب اردوئے معلٰے خاص دلّی کی زبان ہے۔ آپ اس میں تکلیف نہ کیجیے۔ اپنی فارسی وارسی کہہ لیا کیجیے۔

سعادت یار خاں رنگینؔ نواب طہاسپ بیگ خاں قلعدار شاہی کے بیٹے تھے۔ ۱۴، ۱۵ برس کی عمر تھی۔ بڑی شان و شوکت سے گئے اور غزل اصلاح کے لئے پیش کی۔ سن کر کہا کہ صاحبزادے! آپ خود امیر ہیں اور امیر زادے ہیں، نیزہ بازی، تیر اندازی کی کسرت کیجیے، شہسواری کی مشق فرمائیے۔ شاعری دل کراشی و جگر سوزی کا کام ہے۔ آپ اس کے درپے نہ ہوں۔ جب انھوں نے بہت اصرار کیا تو فرمایا کہ آپ کی طبیعت اس فن کے مناسب نہیں۔ یہ آپ کو نہیں آنے کا۔ خواہ مخواہ میری اور اپنی اوقات ضائع کرنی کیا ضرور ہے۔ یہی معاملہ شیخ ناسخ کے ساتھ گذرا۔ (میر نظام الدین ممنوں ان کے بیٹے بڑے صاحب کمال اور نامور شاعر تھے، دیکھو صفحہ ۳۰۴)۔

دلی میں میر صاحب نے ایک مثنوی کہی۔ اپنے تئیں اژدہا قرار دیا اور شعرائے عصر میں سے کسی کو چوہا، کسی کو سانپ، کسی کو بچھو، کسی کو کنکھجورا وغیرہ وغیرہ ٹھہرایا۔ ساتھ اس کے ایک حکایت لکھی کہ دامن کوہ میں ایک خونخوار اژدہا رہتا تھا۔ جنگل کے حشرات الارض جمع ہو کر اس سے لڑنے گئے۔ جب سامنا ہوا تو اژدھے نے ایک ایسا دم بھرا کہ سب فنا ہو گئے۔ اس قصیدے کا نام اجگر نامہ قرار دیا اور مشاعرہ میں لا کر پڑھا۔ محمد امان نثار (سعادت اللہ معمار کے بیٹے اور میاں استاد معمار کی اولاد میں تھے جنھوں نے دہلی کی جامع مسجد بنائی تھی۔ نثارؔ کے بزرگ اور وہ خود عمارت میں کمال رکھتے تھے۔ نثارؔ شعر بھی خوب کہتے تھے۔ چنانچہ زمین سخن میں ریختہ کا دیوان ضخیم یادگار چھوڑا ہے۔ دلّی آباد تھی، تو امرائے شہر کے مکانات اپنے کمال سے مضبوط کرتے تھے اور عزت سے گزران کرتے تھے۔ دلّی تباہ ہوئی تو یہ بھی لکھنؤ چلے گئے۔ وہاں بھی فن آبائی سے عزت پائی اور ہمیشہ امراء روساء کی مصاحبت میں زندگی بسر کی۔ شاہ حاتم کے نامی شاگردوں میں تھے۔ میاں رنگین نے بھی مجالس رنگین میں ان کا ذکر کیا ہے۔ صاحب دیوان ہیں۔ مگر اب دیوان کمیاب ہے۔ میر صاحب اور ان کی اکثر چھیڑ چھاڑ رہتی تھی۔) شاہ حاتم کے شاگردوں میں ایک مشاق موزوں طبع تھے۔ انھوں نے وہیں ایک گوشہ میں بیٹھ کر چند شعر کا قطعہ لکھا اور اسی وقت سرمشاعرہ پڑھا۔ چونکہ میر صاحب کی یہ بات کسی کو پسند نہ آئی تھی، اس لئے اس قطعہ پر خوب قہقہے اڑے اور بڑی واہ واہ ہوئی اور میر صاحب پر جو گذرتی تھی سو گزری، چنانچہ مقطع قطعہ مذکور کا یہ ہے۔

حیدر کرار نے وہ زور بخشا ہے نثارؔ

ایک دم میں دو کروں اژدر کے کلے چیر کر​

لکھنؤ میں کسی نے پوچھا کیوں حضرت آج کل شاعر کون ہے؟ کہا ایک تو سوداؔ دوسرا یہ خاکسار ہے اور تامل کر کے کہا، آدھے خواجہ میر دردؔ۔ کوئی شخص بولا کہ حضرت اور میر سوزؔ صاحب؟ چیں بچیں ہو کر کہا کہ میر سوزؔ صاحب بھی شاعر ہیں؟ انھوں نے کہا کہ آخر استاد نواب آصف الدولہ کے ہیں۔ کہا کہ خیر یہ ہے تو پونے تین سہی، مگر شرفاء میں ایسے تخلص ہم نے کبھی نہیں سُنے۔ میر صاحب کے سامنے مجال کس کی تھی جو کہے کہ ان بچارے نے میر تخلص کیا تھا وہ آپ نے چھین لیا۔ ناچار اب انھوں نے ایسا تخلص اختیار کیا کہ نہ آپ کو پسند آئے نہ آپ اسے چھینیں۔ دیکھو صفحہ ۲۴۲۔

لکھنؤ کے چند عمائد و اراکین جمع ہو کر ایک دن آئے کہ میر صاحب سے ملاقات کریں۔ اور اشعار سنیں۔ دروازہ پر آ کر آواز دی۔لونڈی یا ماما نکلی، حال پوچھ کر اندر گئی۔ ایک بوریا لا کر ڈیوڑھی میں بچھایا، انھیں بٹھایا اور ایک پرانا سا حقہ تازہ کر کے سامنے رکھ گئی۔ میر صاحب اندر سے تشریف لائے۔ مزاج پُرسی وغیرہ کے بعد انھوں نے فرمائش اشعار کی، میر صاحب نے اَوّل کچھ ٹالا، پھر صاف جواب دیا کہ صاحب قبلہ میرے اشعار آپ کی سمجھ میں نہیں آنے کے۔ اگرچہ ناگوار ہوا مگر بنظر آداب و اخلاق انھوں نے اپنی نارسائی طبع کا اقرار کیا۔ اور پھر درخواست کی۔ انھوں نے پھر انکار کیا، آخر ان لوگوں نے گراں خاطر ہو کر کہا، حضرت انوری و خاقانی کا کلام سمجھتے ہیں، آپ کا ارشاد کیوں نہ سمجھیں گے، میر صاحب نے کہا کہ یہ درست ہے۔ مگر ان کی شرحیں مصطلحات اور فرہنگیں موجود ہیں۔ اور میرے کلام کے لئے فقط محاورہ اہل اردو ہے، یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اور اس سے آپ محروم، یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا :

عشق بُرے ہی خیال پڑا ہے چین گیا آرام گیا

دِل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا​

اور کہا آپ بموجب اپنی کتابوں کے کہیں گے کہ خیال کی ی کو ظاہر کرو پھر کہیں گے کہ ی تقطیع میں گرتی ہے۔ مگر یہاں اس کے سوا جواب نہیں کہ محاورہ یہی ہے۔

جب نواب آصف الدولہ مر گئے، سعادت خاں کا دور ہوا تو یہ دربار جانا چھوڑ چکے تھے۔ وہاں کسی نے طلب نہ کیا۔ ایک دن نواب کی سواری جاتی تھی۔ یہ تحسین کی مسجد پر سرراہ بیٹھے تھے۔ سواری سامنے آئی۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے، میر صاحب اسی طرح بیٹھے رہے، سید انشاء خواص میں تھے۔ نواب نے پوچھا کہ انشاء یہ کون شخص ہے؟ جس کی تمکنت نے اُسے اٹھنے بھی نہ دیا۔ عرض کی جناب عالی یہ وہی گدائے متکبر جس کا ذکر حضور میں اکثر آیا ہے۔ گزارے کا وہ حال اور مزاج کا یہ عالم، آج بھی فاقہ ہی سے ہو گا۔ سعادت علی خاں نے آ کر خلعت بحالی اور ایک ہزار روپیہ دعوت کا بھجوایا۔ جب چوبدار لے کر گیا، میر صاحب نے واپس کر دیا اور کہا کہ مسجد میں بھجوائیے۔ یہ گنہگار اتنا محتاج نہیں۔ سعادت علی خاں جواب سن کر متعجب ہوئے۔ مصاحبوں نے پھر سمجھایا۔ غرض نواب کے حکم سے سید انشاء خلعت لے کر گئے اور اپنے طرز پر سمجھایا کہ نہ اپنے حال پر بلکہ عیال پر رحم کیجیے۔ اور بادشاہ وقت کا ہدیہ ہے اسے قبول فرمائیے۔ میر صاحب نے کہا کہ صاحب! وہ اپنے ملک کے بادشاہ ہیں، میں اپنے ملک کا بادشاہ ہوں، کوئی ناواقف اس طرح پیش آتا، تو مجھے شکایت نہ تھی۔ وہ مجھ سے واقف، میرے حال سے واقف، اس پر اتنے دنوں کے بعد ایک دس روپے کے خدمت گار کے ہاتھ خلعت بھیجا۔ مجھے اپنا فقر و فاقہ قبول ہے، مگر یہ ذلت نہیں اٹھائی جاتی۔ سید انشاء کی لسانی اور لفاظی کے سامنے کس کی پیش جا سکتی۔ میر صاحب نے قبول فرمایا، اور دربار میں بھی کبھی کبھی جانے لگے۔ نواب سعادت علی خاں مرحوم ان کی ایسی خاطر کرتے تھے کہ اپنے سامنے بیٹھنے کی اجازت دیتے تھے اور اپنا پیچوان پینے کو عنایت فرماتے تھے۔

میر صاحب کو بہت تکلیف میں دیکھ کر لکھنؤ کے ایک نواب انھیں مع عیال اپنے گھر لے گئے اور محل سرا کے پاس ایک معقول مکان رہنے کو دیا کہ نشست کے مکان میں کھڑکیاں باغ کی طرف تھیں۔ مطلب اس سے یہی تھی کہ ہر طرح ان کی طبیعت خوش اور شگفتہ رہے۔ یہ جس دن وہاں آ کر رہے، کھڑکیاں بند پڑی تھیں، کئی برس گذر گئے۔ اسی طرح بند پڑی رہیں۔ کبھی کھول کر باغ کی طرف نہ دیکھا۔ ایک دن کوئی دوست آئے، انھوں نے کہا کہ ادھر باغ ہے۔ آپ کھڑکیاں کھول کر کیوں نہیں بیٹھتے۔ میر صاحب بولے، کیا ادھر باغ بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسی لئے نواب آپ کو یہاں لائے ہیں کہ جی بہلتا رہے۔ اور دل شگفتہ ہو۔ میر صاحب کے پھےی پرانے مسودے غزلوں کے پڑے تھے، ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ میں تو اس باغ کی فکر میں ایسا لگا ہوں کہ اس باغ کی خبر بھی نہیں۔ یہ کہہ کر چپکے ہو رہے۔

کیا محویت ہے! کئی برس گذر جائیں، پہلو میں باغ ہو اور کھڑکی تک نہ کھولیں۔ خیر ثمرہ اس کا یہ ہوا کہ انھوں نے دنیا کے باغ کی طرف نہ دیکھا خدا نے ان کے کلام کو وہ بہار دی کہ سالہا سال گزر گئے۔ آج تک لوگ ورقے الٹتے ہیں اور گلزار سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔

استاد مرحوم ایک دیرینہ سال شخص کی زبانی بیان کرتے تھے کہ ایک دن میر صاحب کے پاس گئے۔ نکلتے جاڑے تھے۔ بہار کی آمد تھی۔ دیکھا کہ ٹہل رہے ہیں۔ چہرہ پر افسردگی کا عالم ہے۔ اور وہ رہ رہ کر یہ مصرع پڑہتے تھے۔

ع : اب کی بھی دن بہار کے یوں ہی گذر گئے​

یہ سلام کر کے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد اٹھے اور سلام کر کے چلے آئے۔ میر صاحب کو خبر بھی نہ ہوئی۔ خدا جانے دوسرے مصرع کے فکر میں تھے، یا اس مصرعہ کی کیفیت میں تھے۔

گورنر جنرل اور اکثر صاحبان عالیشان جب لکھنؤ میں جاتے تو اپنی قدردانی سے یا اس سبب سے کہ ان کے میر منشی اپنے علو حوصلہ سے ایک صاحب کمال کی تقریب واجب سمجھتے تھے۔ میر صاحب کو ملاقات کے لئے بلاتے مگر یہ پہلوتہی کرتے اور کہتے کہ مجھ سے جو کوئی ملتا ہے تو یا مجھ فقیر کے خاندان کے خیال سے یا میرے کلام کے سبب سے ملتا ہے۔ صاحب کو خاندان سے غرض نہیں۔ میرا کلام سمجھتے نہیں۔ البتہ انعام دیں گے۔ ایسی ملاقات سے ذلّت کے سوا کیا حاصل!

محلہ کے بازار میں عطار کی دکان تھی، آپ بھی کبھی اس کی دوکان پر جا بیٹھتے تھے۔ اس کا نوجوان لڑکا بہت بناؤ سنگار کرتا رہتا تھا، میر صاحب کو بُرا معلوم ہوتا تھا۔ اس پر فرماتے ہیں۔

کیفیتیں عطار کی لونڈے میں بہت ہیں

اس نسخہ کی کوئی نہ رہی ہم کو دوا یاد


کسی وقت طبیعت شگفتہ ہو گئی تو فرماتے ہیں۔


میرؔ کیا سادے ہیں بیمار ہوئے جسکے سبب

اُسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں​


اِسی عہد میں بقا اللہ خاں بقا (دیکھو بقا کا حال صفحہ ۱۸۹ میں) نے دو شعر کہے۔


ان آنکھوں کا نتِ گریہ دستور ہے

دوآبہ جہاں میں یہ مشہور ہے


سیلاب سے آنکھوں کے رہتے ہیں خرابے میں

ٹکڑے جو میرے دل کے بستے ہیں دوآبے میں​


میر صاحب نے خدا جانے سن کر کہا یا توارد ہوا۔

دے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں

سُوکھا پڑا ہے اب تو مدت سے یہ دوآبہ​


اس پر بقا نے بگڑ کر یہ قطعہ کہا۔


میر نے گر ترا مضمون دوآبے کا لیا

اے بقا تو بھی دعا دے جو دعا دینی ہو


یا خدا میر کی آنکھوں کو دوآبہ کر دے

اور بینی کا یہ عالم ہو کہ تربینی ہو​


لیکن میر صاحب نے اسی کوچہ میں ایک مضمون اور نکالا ہے۔ وہ سب سے الگ ہے۔


میں راہِ عشق میں تو آگے ہی دو دِلا تھا

پُر پیچ پیش آیا قسمت سے یہ دوراہا​


بقا نے اور مضامین بھی میر صاحب کے باب میں صرف کئے ہیں۔


ان میں سے ایک قطعہ ہے۔


میر صاحب پھر اس سے کیا بہتر

اس میں ہووے جو نام شاعر کا


لے کے دیوان پکارتے پھرئیے

ہر گلی کوچہ کام شاعر کا​


توبہ زاہد کی توبہ تلی ہے

چلے بیٹھے تو شیخ چلی ہے


پگڑی اپنی سنبھالئے گا میرؔ

اور بستی نہیں یہ دِلی ہے​


کسی استاد کا شعر فارسی ہے۔


بہ گرد تر تم امشب ہجوم بلبل بود

مگر چراغ مزارم ز روغنِ گل بود​


میر صاحب کے شعر میں بھی اس رنگ کا مضمون ہے مگر خوب بندھا ہے۔


ہمائے روغن دیا کرے ہے عشق

خونِ بلبل چراغ میں گل کے​


شیخ سعدیؔ کا شعر ہے۔

دوستاں منع کندم کر چرا دل بتو دادم

باید اوّل بہ تو گفتن کہ چنیں خوب چرائی

(سعدی)


چاہنے کا ہم پہ یہ خوباں جو دھرتے ہیں گناہ

اُن سے بھی پوچھو کوئی تم اتنے کیوں پیارے ہوئے

(میر)


دست خواہم زد بدامانِ سکندر روزِ حشر

شوخِ لیلٰی زا دہ ام را رشکر مجنوں کردہ است

(ناصر علی)


دیکھ آئینہ کو یار ہوا محو ناز کا

خانہ خراب ہو جیو آئینہ ساز کا

(میر)


زندگی بر گردنم افتاد بیدل چارہ نیست

شاد با ید زیستن ناشاد باید زیستن

(بیدل)


گوشہ گیری اپنے بس میں ہی نہ ہے آوارگی

کیا کریں اے میر صاحب بندگی بیچارگی

(میر)​


محمد امان نثارؔ میر صاحب کے شعروں پر ہمیشہ شعر کہا کرتے تھے (دیکھو صفحہ ۲۷۰)۔ ان کا شعر ہے۔

بھووں (*) تئیں تم جس دن سج نکلے تھے ایک چیرا

اس دن ہی تمھیں دیکھے ماتھا مرا ٹھنکا تھا

(میر)

  • یعنی جس دن تم بھوؤں تک جھکا ہوا بانکا چیرا باندھ کر نکلے تھے، اُسی دن ہم سمجھ گئے کہ اب دلوں کی خیر نہیں۔​

اکثر اشعار میں میر اور مرزا کے مضمون لڑ گئے ہیں۔ اس رتبہ کے شاعروں کو کون کہہ سکتا ہے کہ سرقی کیا، دوسرے ایک عہد تھا، ایک شہر تھا، اسی وقت غل مچتا۔ دیکھو صفحہ ۲۵۱ – ۲۵۲، ان دونوں بزرگوں کے کلام میں چشمکیں ہوتی تھیں۔ چنانچہ مرزا فرماتے ہیں۔

نہ پڑھیو یہ غزل سودا تو ہر گز میر کے آگے

وہ ان طرزوں سے کیا واقف وہ یہ انداز کیا جانے


سودا تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ

ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف​


میر صاحب فرماتے ہیں۔


طرف ہونا مرا مشکل ہے میرؔ اس شعر کے فن میں

یونہی سودا کبھی ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے​

مرزا رفیع سودا، خواجہ میر دردؔ، مرزا جانجاناں مظہرؔ قائم، یقین وغیرہ ان کے ہم عصر تھے۔ اور مصحفیؔ، جراءتؔ، اور میر انشاء اللہ خاں نے آخر عہد میں ظٖہور کیا۔

میر صاحب کے بیٹے لکھنؤ میں ملے تھے۔ باپ کے برابر نہ تھے۔ مگر بدنصیبی میں فرزندِ خلف تھے۔ ایک پیر مرد بے پروا مستغنی المزاج تھے۔ میر عسکریؔ نام میر کلو مشہور تھے۔ عرشؔ تخلص تھا۔ خود شاعر صاحب دیوان تھے اور چند شاگرد بھی تھے۔ ایک شعر ان کی غزل کا لکھنؤ میں زبان زد خاص و عام ہے :

آسیا کہتی ہے ہر صبح بآواز بلند

رزق سے بھرتا ہے رزاق دہن پتھر کا​

میر صاحب کی غزلیں

برقع کو اٹھا چہرہ سے وہ بُت اگر آوے
اللہ کی قدرت کا تماشہ نظر آوے

اے ناقہ لیلٰے دو قدم راہ غلط کر
مجنوں ز خود رفتہ کبھو راہ پر آوے

ٹک بعد مرے میرے طرفداروں کنے تو
بھیجو کوئی ظالم کہ تسلی تو کر آوے

کیا ظرف ہے گردون تنک حوصلہ کا جو
آشوبِ فغاں کے مرے عہدے سے بر آوے

ممکن نہیں آرام دے بیتابی جگر کی
جب تک نہ پلک پر کوئی ٹکڑا نظر آوے

مت ممتحن باغ ہواے غیرتِ گلزار
گل کیاکہ جسے آگے ترے بات کر آوے

کھلنے میں ترے منھ کی کلی پھاڑے گریباں
ہلنے میں ترے ہونٹوں کے گلبرگ تر آوے

ہم آپ سے جاتے رہے ہیں ذوق خبر میں
اے جانِ بلب آمدہ رہ تا خبر آوے

کہتے ہیں ترے کوچہ سے میر آنے کہے ہے
جب جانئے وہ خانہ خراب اپنے گھر آوے

ہے جی میں غزل در غزل اے طبع یہ کہیے
شاید کہ نظیری کے بھی عہدے سے بر آوے

جب نام ترا لیجئے تب چشم بھر آوے
اِس زندگی کرنے کوکہاں سے جگر آوے

تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم
یہ تو ہو کوئی گورِ غریباں میں در آوے

مے خانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ
دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے

کیا جانیں وہ مرغان گرفتار چمن کو
جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے

تو صبح قدم رنگہ کرے ٹک تو ہے ورنہ
کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے

ہر سو تسلیم رکھے صید حرم میں
وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر (*) آوے

  • امیر خسرو کا شعر ہے :

ہمہ آہواں صحرا سر خود نہادہ برکف
بامیدایں کہ روزے بہ شکار خواہی آمد

دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت
اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے

واعظ نہیں کیفیتِ مے خانہ سے آگاہ
یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے

صناع ہیں سب خوا رازانجملہ ہوں میں بھی
ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے

اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سرِ راہ پہ زنہار
کہیو جو کبھو میرؔ بلاکش ادھر آوے

مت دشتِ مھبت میں قدم رکھ کہ خضر کو
ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


کوفت سے جان لب پہ آئی ہے
ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے

لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر
شوق نے بات کیا بڑھائی ہے

آرزو اس بلند و بالا کی
کیا بلا میرے سر پہ لائی ہے

دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

ہے تصنع کہ لعل ہیں وہ لب
یعنی اک بات سی بنائی ہے

دل سے نزدیک اور اتنا دُور
کسے اس کو کچھ آسنائی ہے

بے ستون کیا ہے کوہ کن کیسا
عشق کی زور آزمائی ہے

جس مرض میں کہ جان جاتی ہے
دلبروں ہی کی وہ جدائی ہے

یاں ہوئے خاک سے برابر ہم
واں وہی ناز خود نمائی ہے

ایسا ہوتا ہے زندہ جاوید
رفتہ یار تھا جب آئی ہے

مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میرؔ
کیا دوانے نے موت پائی ہے

کعبے میں جاں بلب تھے ہم دوری بتاں سے
آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے یاں سے

تصویر کے سے طائر خاموش رہتے ہیں ہم
جی کچھ اچٹ گیا ہے اب نالہ و فغاں سے

جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں
رکھتی ہے چھیڑ میری خاشاک آشیاں سے

کیا خوبی اسکے منہ کی اے غنچے نقل کرئیے
تُو تُو نہ بول ظالم بو آتی ہے وہاں سے

آنکھوں ہی میں رہے ہو دل سے نہیں گئے ہو
حیران ہوں یہ شوخی آئی تمھیں کہاں سے

سبزانِ باغ سارے دیکھے ہوئے ہیں اپنے
دلچسپ کاہے کو ہیں اس بیوفا جواں سے

کی شِست و شو بدن کی جسدن بہت سی انے
دھوئے ہیں ہاتھ میں نے اسدن سے اپنی جاں سے

خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب
ہر اک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے

اتنی بھی بدمزاجی ہر لحظہ میرؔ تم کو
الجھاؤ ہے زمیں سے جھگڑا ہے آسماں سے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


اے نوکیلے یہ تھی کہاں کی ادا
کھب گئی جی میں تیری بانکی ادا

جادو کرتے ہیں اک نگاہ کے بیچ
ہائے رے چشم دلبراں کی ادا

بات کہنے میں گالیاں دے ہے
سنتے ہو میرے بدزباں کی ادا

دل چلے جائے ہیں خرام کے ساتھ
دیکھی چلنے میں ان بتاں کی ادا

خاک میں مل کے میر ہم سمجھے
بے ادائی تھی آسماں کی ادا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​


میر سوزؔ مرحوم نے بھی یہ مضمون خوب باندھا ہے۔

دعوی کیا تھا گل نے اس رخ سے رنگ و بو کا
ماریں صبا نے دھو لیں شبنم نے منہ پہ تھوکا​

سخن مشتاق ہے عالم ہمارا
بہت عالم کرے گا غم ہمارا

پڑھیں گے شعر رو رو لوگ بیٹھے
رہے گا دیر تک ماتم ہمارا

نہیں ہے مرجعِ آدم اگر خاک
کدھر جاتا ہے قد خم ہمارا

زمین و آسماں زیر و زبر ہیں
نہیں کم حشر سے اودھم ہمارا

کسو کے بال و پر ہم دیکھتے میرؔ
ہوا ہے کام دل برہم ہمارا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


جان (*) اپنا جو ہم نے مارا تھا
کچھ ہمارا اسی میں وارا تھا

  • اس زمانے میں اکثر استاد جان کو مذکر باندھتے تھے۔


کون لیتا تھا نام مجنوں کا
جب کہ عہد جنوں ہمارا تھا

کوہ و فرہاد سے کہیں آگے
سر مرا اور سنگ خارا تھا

ہم تو تھے محو دوستی اُس کے
گو کہ دشمن جہاں ہمارا تھا

لطف سے پوچھتا تھا ہر کوئی
جب تلک لطف کچھ ہمارا تھا

آستاں کی کسو کے خاک ہوا
آسماں کا بھی کیا ستارا تھا

پاؤں چھاتی پہ میرے رکھ چلنا
یاں کبھی اس کا یوں گذرا تھا

موسم گل میں ہم نہ چھوٹے حیف
گشت تھا دید تھا نظارا تھا

اس کے ابرو جو ٹک جھکے اِیدھر
قتل کا تیغ سے اشارا تھا

عشق بازی میں کیا موئے ہیں میرؔ
آگے ہی جی انھوں نے مارا تھا

آیا ہے ابر جب کا قبلہ سے تیرا تیرا
مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت سی خیرا

خبلت سے ان لبوں کی پانی ہو یہ چلے ہیں
قند و نبات کا بھی نکلا ہے خوب شیرا

مجنوں نے حوسلے سے دیوانگی نہیں کی
جاگہ سے اپنی جانا اپنا نہیں وطیرا

اس راہزن سے ملکر دل کیونکہ کھو نہ بیٹھیں
انداز و ناز اُچکے غمزہ اٹھائی گیرا

کیا کم ہے ہولناکی صحرائے عاشقی کی
شعروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعریرا

آئینہ کو بھی دیکھو پر ٹک ادھر بھی دیکھو
حیران چشم عاشق دمکے ہے جیسے ہیرا

نیت پہ سب بنا ہے یا مسجد اک پڑی تھی
پیر مغاں موا سو اس کا بنا خطیرا

ہمراہ خوں تلک ہو ٹک پاؤں کے چھوئے سے
ایسا گناہ مجھ سے وہ کیا ہوا کبیرا

غیرت سے میر صاحب سب جذب ہو گئے تھے
نکلا نہ بوند لوہو سینہ جو ان کا چیرا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


مت صبح و شام تو پئے ایذائے میر ہو
ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو

ہو کوئی بادشاہ، کوئی یاں وزیر ہو
اپنی بلا سے بیٹھ رہے جب فقیر ہو

جنت کی منٹ انکے دماغوں سے کب اٹھے
خاک راہ اس کی جن کے کفن کا عبیر ہو

کیا (*) لو آب و تاب سے ہو بیٹھیں کار عشق
سُوکھے جگر کا خوں تو رواں جوئے شیر ہو

  • یہ اور کئی شعر مندرجہ ان کے دیوانوں میں دیکھے اس طرح لکھے تھے اس لیے حرف بحرف لکھے گئے۔


چھاتی قفس میں داغ سے ہو کیوں نہ رشک باغ
جوش بہار تھا کہ ہم آئے اسیر ہو

یاں برگ گل اڑاتے ہیں پرکالہ جگر
جا عندلیب تو نہ مری ہمصفیر ہو

اس کے خیال خط میں کسے یاں دماغ حرف
کرتی ہے بے مزہ جو قلم کی ضریر ہو

زنہار اپنی آنکھ میں آتا نہیں وہ صید
پھوٹا دو سار جس کے جگر کا نہ تیر ہو

ہوتے ہیں میکدے کے جواں شیخ جی بُرے
پھر درگذر یہ کرتے نہیں گو کہ پیر ہو

کس طرح آہ خاکِ مذلت سے میں اُٹھوں
افتادہ تر جو مجھ سے مرا دستگیر ہو

حد سے زیادہ جور و ستم خوش نما نہیں
ایسا سلوک کر کہ تدارک پذیر ہو

دم بھر نہ ٹھہرے دل میں نہ آنکھوں میں ایک پل
اتنے سے قد پہ تم بھی قیامت شریر ہو

ایسا ہی اس کے گھر کو بھی آباد دیکھیو
جس خانماں خراب کا یہ دل مشیر ہو

تسکین دل کیواسطے ہم کم ب۔۔۔ کے پاس
انصاف کرئیے کب تئیں مخلص حقیر ہو

اک وقت خاص حق میں مرے کچھ دعا کرو
تم بھی تو میر صاحب قبلہ فقیر ہو

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


دلِ پُر خوں کی اک گلابی سے
عمر بھر ہم رہے شرابی سے

جی ڈھہا جائے ہے سحر سے آج
رات گزرے گی کس خرابی سے

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

برقع اٹھتے ہی چاند سے نکلا
داغ ہوں اس کی بے حجابی سے

کام تھے عشق میں بہت پر میرؔ
ہم ہی فارغ ہوئے شتابی سے

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


دل عجب شہر تھا خیالوں کا
لوٹا مارا ہے حسن والوں کا

جی کو جنجال دل کو ہے الجھاؤ
یار کے حلقہ حلقہ بالوں کا

موئے دلبر سے مشک بو ہے نسیم
حال خوش اس کے خستہ حالوں کا

نہ کہا کچھ نہ آ پھر نہ ملا (اس مصرعے میں کچھ گڑبڑ لگتی ہے)
کیاجواب ان مرے سوالوں کا

دم نہ لے اس کی زلفوں کا مارا
میرؔ کاٹا جئے نہ کالوں کا

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


ہے غزل میرؔ یہ شفائی کی
ہم نے بھی طبع آزمائی کی

اُس کے ایفائے عہد تک نہ جئے
عمر نے ہم سے بے وفائی کی

وصل کے دن کی آرزو ہی رہی
شب نہ آخر ہوئی جدائی کی

اسی تقریب اس گلی میں رہے
منتیں ہیں شکستہ پائی کی

دل میں اس شوخ کے نہ کی تاثیر
آہ نے آہ نارسائی کی

کاسئہ چشم لے کے جوں نرگس (*)
ہم نے دیدار کی گدائی کی


  • آتش نے بھی خوب کہا ہے :


آنکھیں نہیں ہیں چہرہ پہ تیرے فقیر کے
دو ٹھیکرے ہیں بھیک کے دیدار کے لئے



زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میرؔ
کس بھروسے پہ آشنائی کی

  • -*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*


ہو گئی شہر شہر رسوائی
اے مری موت تو بھلی آئی

یک بیاباں برنگ صورت جرس
مجھ پہ ہے بے کسی و تنہائی

نہ کھنچے تجھ سے ایک جانقاش
اس کی تصویر وہ ہے ہرجائی

سر رکھوں اس کے پاؤں پر لیکن
دستِ قدرت یہ میں کہاں پائی

میرؔ جب سے گیا ہے دل تب سے
میں تو کچھ ہو گیا ہوں سودائی​

اہلی شیرازی کے شعر پر مصرع لگا کر مثلث کا ایجاد اپنی زبان میں دکھاتے ہیں :

کل تک تو فرینبدہ ملاقات تھی پہلی​

امروز یقیں شد کہ نداری سراہلی
بیچارہ زلفِ تو بدل داشت گمای

کیا کہوں میں عاشق و معشوق کا راز و نیاز

ناقہ را میرا ند لیلٰے سوئے خلوت گاہ ناز
سارباں درد رہ حدی میخواند و مجنوں میگریست​

ایک مثلث سید انشاء کا یاد آ گیا۔ کیا خوب مصرع لگایا ہے۔

اگرچہ سینکڑوں اس جا پہ تھے کھڑے زن و مرد

نشد قتیل ولیکن کہ یک کس از سر درد
سرے بہ نعش من خستہ جاں بجنببا ند​

مربع پانچویں دیوان سے

جوائے قاصد وہ پوچھے میرؔ بھی ایدھر کو چلتا تھا
تو کہیو جب چلا تھا میں تب اسکا دم نکلتا تھا

سماں افسوس بیتابی سے تھا کل قتل میں میرے
تڑپتا تھا ادھر میں یار اودھر ہاتھ ملتا تھا​

مربع فارسی پر

سکندر ہے نہ دارا ہے نہ کسرا ہے نہ قیصر ہے
یہ بیت المال ملک بیوفا بے وارثا گھر ہے

نہ در جانم، ہوا باقی نہ اندر دل ہوس ماندہ
بیا ساقی کہ ایں ویرانہ از بسیار کس ماندہ