یہ کیا خبر ہے کہ وہ بے خبر نہیں آتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ کیا خبر ہے کہ وہ بے خبر نہیں آتا  (1927) 
by عاشق حسین بزم آفندی

یہ کیا خبر ہے کہ وہ بے خبر نہیں آتا
ہمیں تو ہوش ہی دودو پہر نہیں آتا

تمہاری چال کے فتنے بھی ہیں قیامت کے
کہ جن کے خوف سے محشر ادھر نہیں آتا

تمام عمر اگر آب اشک سے سینچیں
امید کے تو شجر میں ثمر نہیں آتا

وہ پان کھا کے رقیبوں کو دے رہی ہیں اگال
الٰہی کیوں مرے منہ کو جگر نہیں آتا

زکات حسن نکالو اٹھاؤ لطف شباب
یہ وقت جا کے تو پھر عمر بھر نہیں آتا

دیا مریض محبت کو نسخۂ تپ دق
تجھے علاج بھی اے چارہ گر نہیں آتا

بھلا میں اور خوشامد کروں رقیبوں کی
وہی بتاتے ہو جو کام کر نہیں آتا

وہ بے نقاب ہیں استادہ غیر کے آگے
اور آفتاب سوا نیزے پر نہیں آتا

یہ کیا محبت و الفت کہ بعد مرنے کے
کوئی مزار میں لینے خبر نہیں آتا

حرم میں زاہدو کیا دل بہلنے کی صورت
لگاؤ لاکھ میں اس راہ پر نہیں آتا

کہا تھا غیر سے کیا مجھ کو دیکھ کر تم نے
اور اس پہ کہتے ہو مجھ کو تو شر نہیں آتا

نوالہ منہ کا نہیں فن شاعری اے بزمؔ
یہ کام وہ ہے کہ جو عمر بھر نہیں آتا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DB%8C%DB%81_%DA%A9%DB%8C%D8%A7_%D8%AE%D8%A8%D8%B1_%DB%81%DB%92_%DA%A9%DB%81_%D9%88%DB%81_%D8%A8%DB%92_%D8%AE%D8%A8%D8%B1_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA_%D8%A2%D8%AA%D8%A7