یہ جس نے جان دی ہے نان دے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ جس نے جان دی ہے نان دے گا  (1893) 
by مرزا مسیتابیگ منتہی

یہ جس نے جان دی ہے نان دے گا
دیا ہے جس نے سر سامان دے گا

مژہ سے اس کماں ابرو کی بچنا
وہ ناوک ہے کلیجہ چھان دے گا

مشقت سے وہ دے یا بے مشقت
بہ ہر صورت بہ ہر عنوان دے گا

وہ بوسہ دے کے دل لے کر یہ بولے
عوض احساں کا کیا انسان دے گا

ملے گا قدر دان عشق ہم کو
خدا معشوق با ایمان دے گا

سنیں گے تب بتان ہند اپنی
اجازت جب انہیں شیطان دے گا

فسانہ کوہ کن کا سن کے بولے
جو عاشق ہوگا وہ ہی جان دے گا

نہ تھی امید تجھ سے قاسم بخت
دل پر درد و پر ارمان دے گا

رہ الفت کا ہوں کار آزمودہ
کسی کو دل کوئی انجان دے گا

چلے گا تیر جب اپنی دعا کا
کلیجے دشمنوں کے چھان دے گا

مقدر سے زیادہ ایک لقمہ
گدا کیا لے گا کیا سلطان دے گا

لپٹ جاؤں گا ان سے روز وصلت
اگر مجھ کو خدا اوسان دے گا

نہ پھیلا منتہیؔ دست ہوس کو
وگرنہ یہ تجھے نقصان دے گا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DB%8C%DB%81_%D8%AC%D8%B3_%D9%86%DB%92_%D8%AC%D8%A7%D9%86_%D8%AF%DB%8C_%DB%81%DB%92_%D9%86%D8%A7%D9%86_%D8%AF%DB%92_%DA%AF%D8%A7