یہ بھی نہ پوچھا تم نے انجمؔ جیتا ہے یا مرتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہ بھی نہ پوچھا تم نے انجمؔ جیتا ہے یا مرتا ہے  (1905) 
by مرزا آسمان جاہ انجم

یہ بھی نہ پوچھا تم نے انجمؔ جیتا ہے یا مرتا ہے
واہ جی وا عاشق سے کوئی ایسی غفلت کرتا ہے

نئی جوانی نئے نویلے نادان الڑھ اور البیلے
سچ پوچھو تو تم کو صاحب دل دیتے جی ڈرتا ہے

پوچھتے کیا ہو حال ہمارا جینے کا ہے کون سہارا
رو لیتے ہیں جی بھر بھر کر جب غم سے جی بھرتا ہے

ان سے نہیں کچھ شکوہ ہم کو ان سے نہیں کچھ رنج و ملال
کس سے اے دل عشق کیا کس سے چاہ کو برتا ہے

روتے روتے ہجر میں کیوں کر جینے سے دل سیر نہ ہو
کہتے ہیں تالاب بھی صاحب پھیون پھیون بھرتا ہے

مجھ کو تو دل دینے میں کچھ عذر نہیں اے جان جہاں
سچ تو یہ ہے دل ہی خود کچھ آگا پیچھا کرتا ہے

سیل سرشک غم سے انجمؔ خانۂ دل برباد نہ ہو
دیکھو دیکھو کعبہ کی بنیاد میں پانی مرتا ہے


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DB%8C%DB%81_%D8%A8%DA%BE%DB%8C_%D9%86%DB%81_%D9%BE%D9%88%DA%86%DA%BE%D8%A7_%D8%AA%D9%85_%D9%86%DB%92_%D8%A7%D9%86%D8%AC%D9%85%D8%94_%D8%AC%DB%8C%D8%AA%D8%A7_%DB%81%DB%92_%DB%8C%D8%A7_%D9%85%D8%B1%D8%AA%D8%A7_%DB%81%DB%92