یہی ہیں برق کی جولانیاں تو آشیاں کب تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یہی ہیں برق کی جولانیاں تو آشیاں کب تک
by منیر بھوپالی

یہی ہیں برق کی جولانیاں تو آشیاں کب تک
اٹھے گا خاک پروانہ سے محفل میں دھواں کب تک

غم صیاد خوف برق فکر آشیاں کب تک
اٹھائے گی یہ صدمے ایک جان ناتواں کب تک

یہی ہے درد روز افزوں یہی بیتابیٔ پیہم
تو یہ راز محبت راز کب تک رازداں کب تک

تری نظروں کو بھی جھکنا پڑے گا خود بخود اک دن
مرے دکھتے ہوئے دل کی دعائیں رائیگاں کب تک

ضیائے حسن ہر ذرہ کو اک دن جگمگا دے گی
ترے جلوؤں کو روکیں گے حدود لا مکاں کب تک

خبر بھی ہے تجھے بیتابیٔ دل بڑھتی جاتی ہے
خدا جانے رہے گی میرے قابو میں زباں کب تک

ذرا اپنے تغافل کی نہایت بھی بتا دیجے
رہے گا مورد الزام مجبور فغاں کب تک

یہ محرومی نہ جانے کس کے قدموں پر گرا دے گی
نگاہ شوق ڈھونڈے گی کسی کا آستاں کب تک

وہ جلوے پھر وہ جلوے ہیں وہ نظریں پھر وہ نظریں ہیں
دل ناداں یقین ہستیٔ تاب و تواں کب تک

بساط دل ہے کیا نقشہ بدل جائے گا دنیا کا
یہ آنکھیں ہیں یہ نظریں ہیں تو تنظیم جہاں کب تک

محبت خود بخود اک دن ہر اک پردہ اٹھا دے گی
منیرؔ اس دل سے وہ بد ظن دل ان سے بد گماں کب تک

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse