یوں گھر سے محبت کے کیا بھاگ چلے جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں گھر سے محبت کے کیا بھاگ چلے جانا
by ولی اللہ محب

یوں گھر سے محبت کے کیا بھاگ چلے جانا
کچھ اس میں سمجھتا ہے دے آگ چلے جانا

تا شہر عدم ہم کو مشکل نظر آتا ہے
آلائش ہستی سے بے لاگ چلے جانا

کوچے سے ترے گاہے گھر شب کو جو آتا ہوں
پھر صبح ہوئے سوتے اٹھ جاگ چلے جانا

اس زلف کے افعی نے مارا ہے جسے اس کے
اشک آنکھ سے اور منہ سے ہیں جھاگ چلے جانا

جاتے تو ہو مے خانے مسجد میں بھی یک ساعت
واعظ کا محب سنتے کھڑاگ چلے جانا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse