یوں نہیں چین تو غفلت کا ستم اور سہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یوں نہیں چین تو غفلت کا ستم اور سہی  (1902) 
by میر محمد سلطان عاقل

یوں نہیں چین تو غفلت کا ستم اور سہی
ہم یہ سمجھیں گے کہ افزائش غم اور سہی

تم نہ آؤ گے تو کیا جان نہ جائے گی مری
آمد و رفت نفس کی کوئی دم اور سہی

کہتے ہیں ظلم کے بعد آہ کرو گے تو کیا
لشکر جور و جفا میں یہ علم اور سہی

جھک کے ملنے سے تمہارے مجھے خوف آتا ہے
گو یہ خم اور سہی تیغ کا خم اور سہی

اصل میں جلوہ یہ کس کا ہے تو ہی کہہ واعظ
تیرا رب اور سہی میرا صنم اور سہی

وعدۂ وصل کی تکرار پہ کہتے ہیں کہ جھوٹ
انہیں عہدوں میں ترے سر کی قسم اور سہی

جشن جمشید میسر ہے کہ دل رکھتے ہیں
جام یہ اور سہی ساغر جم اور سہی

خوب ہے تم میں جفا کی نہ رہے گی عادت
میرے بدلے بھی رقیبوں پہ کرم اور سہی


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DB%8C%D9%88%DA%BA_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA_%DA%86%DB%8C%D9%86_%D8%AA%D9%88_%D8%BA%D9%81%D9%84%D8%AA_%DA%A9%D8%A7_%D8%B3%D8%AA%D9%85_%D8%A7%D9%88%D8%B1_%D8%B3%DB%81%DB%8C