یوں تو میں نہیں ہوں ترے فرمان سے باہر
یوں تو میں نہیں ہوں ترے فرمان سے باہر
چاہوں جو نہ تجھ کو یہ ہے امکان سے باہر
اس روئے کتابی پہ پسینہ ہے نہ غازہ
شاید ہے تر و خشک اسی قرآن سے باہر
مر کر بھی میں وحشت ہی کے قابو میں رہوں گا
خاک اڑ کے نہ جائے گی بیابان سے باہر
ہے قبضۂ قدرت میں غم عشق حقیقی
اب چرخ یہ کھانا ہے ترے خوان سے باہر
ڈیوڑھی میں محل کی ہمیں جو چاہے سنا لے
سمجھیں گے کسی دن ترے دربان سے باہر
گوش دل و جاں میں ہیں امانت تری باتیں
موتی کبھی نکلیں گے نہ اس کان سے باہر
گھر بیٹھے ہو کس طرح ترے حسن کا شہرا
یوسف کو ملا مرتبہ کنعان سے باہر
پھر نکلیں مہ و مہر چمک کر تو میں جانوں
بے پردہ اگر آؤ تم ایوان سے باہر
وہ بستۂ زنجیر خموشی ہوں کہ تا حشر
نکلے مرے نالے بھی نہ زندان سے باہر
چاروں طرف اک دم میں نئی چاندنی چھٹکی
شب کو نکل آئے جو وہ دالان سے باہر
نشہ میں انہیں کے مجھے درکار ہیں بوسے
جو پستۂ خنداں ہیں گزک دان سے باہر
سجدہ تمہیں کر بیٹھیں گے کفار و مسلماں
اب کے بھی اگر آؤ گے اس شان سے باہر
اب ہاتھ مگر گردن نازک میں پڑا ہے
ہوگا نہ گلہ ان کا گریبان سے باہر
ثابت قدم معرکہ آ پہنچے اب اے عشق
سر دے کے بھی جائیں گے نہ میدان سے باہر
غیروں کے تصور میں رسائی ہوئی کیوں کر
کس وقت گئے آپ مرے دھیان سے باہر
اوصاف قد یار بھی موزوں کرو اے بزمؔ
کیوں نور کا مصرع رہے دیوان سے باہر
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |