Jump to content

یوں تو میں نہیں ہوں ترے فرمان سے باہر

From Wikisource
یوں تو میں نہیں ہوں ترے فرمان سے باہر (1927)
by عاشق حسین بزم آفندی
324765یوں تو میں نہیں ہوں ترے فرمان سے باہر1927عاشق حسین بزم آفندی

یوں تو میں نہیں ہوں ترے فرمان سے باہر
چاہوں جو نہ تجھ کو یہ ہے امکان سے باہر

اس روئے کتابی پہ پسینہ ہے نہ غازہ
شاید ہے تر و خشک اسی قرآن سے باہر

مر کر بھی میں وحشت ہی کے قابو میں رہوں گا
خاک اڑ کے نہ جائے گی بیابان سے باہر

ہے قبضۂ قدرت میں غم عشق حقیقی
اب چرخ یہ کھانا ہے ترے خوان سے باہر

ڈیوڑھی میں محل کی ہمیں جو چاہے سنا لے
سمجھیں گے کسی دن ترے دربان سے باہر

گوش دل و جاں میں ہیں امانت تری باتیں
موتی کبھی نکلیں گے نہ اس کان سے باہر

گھر بیٹھے ہو کس طرح ترے حسن کا شہرا
یوسف کو ملا مرتبہ کنعان سے باہر

پھر نکلیں مہ و مہر چمک کر تو میں جانوں
بے پردہ اگر آؤ تم ایوان سے باہر

وہ بستۂ زنجیر خموشی ہوں کہ تا حشر
نکلے مرے نالے بھی نہ زندان سے باہر

چاروں طرف اک دم میں نئی چاندنی چھٹکی
شب کو نکل آئے جو وہ دالان سے باہر

نشہ میں انہیں کے مجھے درکار ہیں بوسے
جو پستۂ خنداں ہیں گزک دان سے باہر

سجدہ تمہیں کر بیٹھیں گے کفار و مسلماں
اب کے بھی اگر آؤ گے اس شان سے باہر

اب ہاتھ مگر گردن نازک میں پڑا ہے
ہوگا نہ گلہ ان کا گریبان سے باہر

ثابت قدم معرکہ آ پہنچے اب اے عشق
سر دے کے بھی جائیں گے نہ میدان سے باہر

غیروں کے تصور میں رسائی ہوئی کیوں کر
کس وقت گئے آپ مرے دھیان سے باہر

اوصاف قد یار بھی موزوں کرو اے بزمؔ
کیوں نور کا مصرع رہے دیوان سے باہر


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DB%8C%D9%88%DA%BA_%D8%AA%D9%88_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA_%DB%81%D9%88%DA%BA_%D8%AA%D8%B1%DB%92_%D9%81%D8%B1%D9%85%D8%A7%D9%86_%D8%B3%DB%92_%D8%A8%D8%A7%DB%81%D8%B1