یار نے اس دل ناچیز کو بہتر جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یار نے اس دل ناچیز کو بہتر جانا
by لالہ مادھو رام جوہر

یار نے اس دل ناچیز کو بہتر جانا
داغ کو پھول تو قطرے کو سمندر جانا

کٹ گئے دیکھتے ہی ہم تو تری چشم غضب
جنبش ابروئے خم دار کو خنجر جانا

سچ ہے یکساں ہے عدم اور وجود دنیا
ایسے ہونے کو نہ ہونے کے برابر جانا

آنکھ ہم بادہ کشوں سے نہ ملا اے جمشید
اپنے چلو کو ترے جام سے بڑھ کر جانا

کب زمانے میں ہے محتاج مکاں خانہ خراب
ہو گئی دل میں کسی کے جو جگہ گھر جانا

سمجھے جوہرؔ کو برا اس کی شکایت کیا ہے
وہی اچھا ہے جسے آپ نے بہتر جانا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse