یاد آتی ہے مجھے جب خوش بیانی آپ کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
یاد آتی ہے مجھے جب خوش بیانی آپ کی  (1933) 
by ناصری لکھنوی

یاد آتی ہے مجھے جب خوش بیانی آپ کی
کچھ نئے لفظوں میں کہتا ہوں کہانی آپ کی

آپ نے پروا نہ کی میں قید ہستی سے چھٹا
مہربانی ہو گئی نا مہربانی آپ کی

قتل کی ضد ہے نزاکت سے نہیں اٹھتی ہے تیغ
دیدنی ہے آج تو شان جوانی آپ کی

جاننے والوں سے پردہ اس قدر بیکار ہے
حسن ظاہر سب پہ اور یہ لن ترانی آپ کی

مرنے والے کر کے آنکھیں بند قبروں میں گئے
واہ وا کس شان سے آئی جوانی آپ کی

داغ الفت اس لیے سینے میں رکھا ہے نہاں
کوئی میرے پاس کیوں دیکھے نشانی آپ کی

This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse