ہے مرے پہلو میں اور مجھ کو نظر آتا نہیں
Appearance
ہے مرے پہلو میں اور مجھ کو نظر آتا نہیں
اس پری کا سحر یارو کچھ کہا جاتا نہیں
اشک کی بارش میں دل سے غم نکل آتا نہیں
گھر سے باہر مینہ برسنے میں کوئی جاتا نہیں
چاک جیب اپنے کو میں بھی جوں گریبان سحر
ناصحا تا دامن محشر تو سلواتا نہیں
شمع ساں رشتے پر الفت کے لگا دیتے ہیں سر
عاشق اور معشوق سا بھی دوسرا ناتا نہیں
بسکہ تیرے ہجر میں ہے نا گوارا اکل و شرب
دل بجز خون جگر اے جان کچھ کھاتا نہیں
میں ہی تم سب کا بنا تیر ملامت کا نشاں
اس بت سرکش کو یارو کوئی سمجھاتا نہیں
وائے یہ غفلت کہ دریا بیچ قطرے کی طرح
آپ ہی میں آپ کو ڈھونڈوں ہوں اور پاتا نہیں
ترک عشق اس سرو بالا کا کیا ہے جب سے دل
عالم بالا سے بالائی خبر لاتا نہیں
بسکہ ہے ہم رنگ واشد سے محبؔ اس باغ میں
دل کو غیر از غنچۂ تصویر کچھ بھاتا نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |