ہو جس قدر کہ تجھ سے اے پر جفا جفا کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہو جس قدر کہ تجھ سے اے پر جفا جفا کر
by ولی اللہ محب

ہو جس قدر کہ تجھ سے اے پر جفا جفا کر
کہتا ہوں میں بھی تجھ سے اے با وفا وفا کر

بیت الصنم میں جا کر ہمدم بہ رب کعبہ
لایا ہوں اس صنم کو گھر تک خدا خدا کر

گوہر جو اشک کے ہیں کچھ چشم کے صدف میں
غلطاں نہ خاک میں کر آنسو بہا بہا کر

مرتے ہیں ہم تو لیکن سن تیری آمد آمد
امید نے رکھا ہے اب تک جلا جلا کر

تجھ کو پتنگ اڑاتے دیکھا جو عاشقوں نے
کٹ مر کے بیٹھے اکثر گھر ور لٹا لٹا کر

صد چاک دل کا ہونا ہر صبح دم ہمارا
گل سے تو کہہ رہی ہے بلبل ہنسا ہنسا کر

آتا ہے وہ شرابی کھانے کباب دل کا
کہتا ہے جھوٹی باتیں کیا کیا چبا چبا کر

ساقی معاف رکھو گستاخیاں ہماری
بے خود کیا نشے میں تو نے پلا پلا کر

بوسے کا لکھ کے نسخہ یاقوتیٔ لبوں سے
بیمار عشق تیرا ہے بے دوا دوا کر

ہر صبح چاک ہو ہے ناصح مرا گریباں
ہر شام تو رکھے ہے ناحق سلا سلا کر

اور اک غزل محبؔ کہہ برقول میرؔ صاحب
اوروں سے دے اشارے ہم سے چھپا چھپا کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse