ہوں دفن مر کے کوچۂ جاناں کے سامنے
ہوں دفن مر کے کوچۂ جاناں کے سامنے
بلبل کا آشیاں ہو گلستاں کے سامنے
شرمائے اشک خوں سے گل تر بہار میں
رنگ چمن اڑا مرے داماں کے سامنے
قمری کو پا بہ گل نظر آتا ہے شرم سے
شمشاد میرے سرو خراماں کے سامنے
گر خط سبز لب پہ ترے خضر دیکھ پائے
پھر منہ کرے نہ چشمۂ حیواں کے سامنے
نظروں میں جوہری کے خذف ریزے بن گئے
لعل جگر ترے لب و دنداں کے سامنے
دیکھے جو اس پری سے مجھے گرم اختلاط
بلقیس منہ کرے نہ سلیماں کے سامنے
موسیٰ نہیں جو آنکھ جھپک جائے گی مری
آئیں حضور دیدۂ حیراں کے سامنے
روتے ہیں ہم ادھر وہ ادھر سنتے ہیں کھڑے
بجلی چمک رہی ہے یہ باراں کے سامنے
صدقے وہ سر کے ہوگا ابھی کیسی ہمسری
کھولو تو بال سنبل پیچاں کے سامنے
گھنڈی پہ ہو قبا کے نثار اختر فلک
سجدے کرے ہلال گریباں کے سامنے
آگے مرے رقیب کو دیتے ہو گالیاں
فقرے یہ کیجئے کسی ناداں کے سامنے
اے گل چمن میں بات کی بلبل کو کیا مجال
غنچے نہ کھولیں منہ لب خنداں کے سامنے
موسیٰ کی طرح تم کو بھی آئے نہ غش کہیں
وہبیؔ نہ جاؤ عارض تاباں کے سامنے
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |