ہوتے خدا کے اس بت کافر کی چاہ کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہوتے خدا کے اس بت کافر کی چاہ کی
by لالہ مادھو رام جوہر

ہوتے خدا کے اس بت کافر کی چاہ کی
اتنی تو بات مجھ سے ہوئی ہے گناہ کی

سوز دروں کیا جو مرا شمع نے بیاں
جل کر زبان کاٹ لی میرے گواہ کی

بھرتا ہے آج خوب طرارے سمند ناز
قمچی ہے ان کے ہاتھ میں زلف سیاہ کی

دیکھا حضور کو جو مکدر تو مر گئے
ہم مٹ گئے جو آپ نے میلی نگاہ کی

فرقت میں یاد آئے جو لطف شب و صال
اک آہ بھر کے جانب گردوں نگاہ کی

سنسان کر دیا مرے پہلو کو لے کے دل
ظالم نے لوٹ کر مری بستی تباہ کی

وہ مجھ سے کہہ رہے ہیں اشاروں میں دیکھنا
سب تاڑ جائیں گے سر محفل جو آہ کی

ہم وہ تھے دل ہی دل میں کیا ضبط راز عشق
صدمے اٹھا کے مر گئے منہ سے نہ آہ کی

افسوس ہے کہ میں تو پھروں در بدر خراب
تم کو خبر نہ ہو مرے حال تباہ کی

جوہرؔ خدا کے فضل سے ایسی غزل کہی
شہرت مشاعرہ میں ہوئی واہ واہ کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse