ہر مصیبت بھی شادمانی تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر مصیبت بھی شادمانی تھی
by منیر بھوپالی

ہر مصیبت بھی شادمانی تھی
اک بلا تھی کہ نوجوانی تھی

الفت اک کاوش نہانی تھی
کسی صورت سے موت آنی تھی

جستجو نے ملا دیا تجھ سے
راز جوئی بھی راز دانی تھی

وہ تھے اور خواب عیش کی لذت
ہم تھے اور درد کی کہانی تھی

جس سے تسکین ہو گئی دل کی
نامہ بر کی غلط بیانی تھی

روح پرور تھا درد دل اپنا
میہمانی بھی میزبانی تھی

ہم بھی رہتے تھے ان کی نظروں میں
کبھی ہم پر بھی مہربانی تھی

کس نے کھویا ہمیں زمانہ سے
کیا کہیں کس کی مہربانی تھی

اس کے ہاتھوں منیرؔ مرنا تھا
پھر تو یہ موت زندگانی تھی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse