ہر ایک کو ہر مرتبہ حاصل نہیں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر ایک کو ہر مرتبہ حاصل نہیں ہوتا  (1923) 
by عبد الہادی وفا

ہر ایک کو ہر مرتبہ حاصل نہیں ہوتا
آئینہ سکندر کے مقابل نہیں ہوتا

بے لطف ہے وہ کام مصیبت نہیں جس میں
بے قدر ہے وہ عقدہ جو مشکل نہیں ہوتا

تم وصل میں دیوانگئ شوق سے ڈرنا
میں کشمکش ناز سے بیدل نہیں ہوتا

کس کام کا اے قیس ترا چاک گریباں
لیلیٰ کا اگر پردۂ محمل نہیں ہوتا

میں خرمن امید ہوں تو برق غضب ہے
تجھ سے بجز افسوس کے حاصل نہیں ہوتا

کیا ظلم ہے بے پردہ اسے غیر نے دیکھا
کیوں پردہ مری آنکھ کا حائل نہیں ہوتا

نالے سے نہ کیوں درد جگر اور بھی بڑھتا
دشنے سے سوا زخم کے حاصل نہیں ہوتا

ہوں مثل حباب اور کہیں قطرہ ہوں کہیں موج
میں ذوق فنا سے کبھی غافل نہیں ہوتا

کہتے ہیں مرے زخم یہ ہنس ہنس کے مزہ میں
ایسا نمکیں خندۂ قاتل نہیں ہوتا

ہاں غیر بھی کیا دعویٔ الفت میں ہے جھوٹا
کہتے ہو کسی پر کوئی مائل نہیں ہوتا

کھویا تمہیں عشاق کی بے حوصلگی نے
محشر میں تمہارا کوئی سائل نہیں ہوتا

جادہ پہ چلے جاتے ہیں جو راست قدم ہیں
یہ خضر جدا تا سر منزل نہیں ہوتا

اندازہ ہمت سے کوئی شے نہیں بڑھتی
یعنی خط ساغر خط ساحل نہیں ہوتا

ہر خال سیہ داغ جگر بن نہیں سکتا
ہر قطرۂ خوناب کبھی دل نہیں ہوتا

تجھ کو ہی مگر آگ لگانی نہیں آتی
کیا طور سے اچھا بھی کوئی دل نہیں ہوتا

دنیا سے وفاؔ سرد یہاں تک ہے مرا دل
میں سوز جہنم کا بھی قائل نہیں ہوتا


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%DB%81%D8%B1_%D8%A7%DB%8C%DA%A9_%DA%A9%D9%88_%DB%81%D8%B1_%D9%85%D8%B1%D8%AA%D8%A8%DB%81_%D8%AD%D8%A7%D8%B5%D9%84_%D9%86%DB%81%DB%8C%DA%BA_%DB%81%D9%88%D8%AA%D8%A7