ہر آن یاس بڑھنی ہر دم امید گھٹنی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر آن یاس بڑھنی ہر دم امید گھٹنی
by ولی اللہ محب

ہر آن یاس بڑھنی ہر دم امید گھٹنی
دن حشر کا ہے اب تو فرقت کی رات کٹنی

پو پھاٹنا نہیں یہ مجھ سینہ چاک کے ہے
ہر صبح بار غم سے چھاتی فلک کی پھٹنی

کوچے میں اس کے باقی مجھ خاکسار پر اب
یا آسماں ہے گرنا یا ہے زمین پھٹنی

مژگاں کی برچھیوں نے دل کو تو چھان مارا
اب بوٹیاں ہیں باقی ان پر جگر کی بٹنی

خط کی سیاہی نے آ گھیری صباحت حسن
اس روم سے ہے مشکل یہ فوج زنگ ہٹنی

زلف سیہ میں اے دل بکھرا نہ مایۂ جاں
یہ جنس تیرہ شب میں مشکل ہے پھر سمٹنی

خون جگر کا کھانا دل پر نہیں گوارا
ان ترش ابروؤں کی جب تک نہ ہوئے چٹنی

آئینہ کہہ رہا ہے خوبوں کے صاف منہ پر
ہیں ایک دن یہ شکلیں سب خاک بیچ اٹنی

رنگیں ہے یوں بتوں کی کیف نگہ کی گردش
جوں برج کی پھرے ہے ہولی میں مست جٹنی

کیا پست فطرتوں کو بخشے ہے سر بلندی
دنیا کے شعبدے سے تعلیم ہوئے نٹنی

تو نے محبؔ بٹھائے یہ قافیے وگرنہ
پائے قلم کو یکسر ہے یہ زمیں رپٹنی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse