گئے سب بھول شکوے دیکھ روئے یار کیا کہیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گئے سب بھول شکوے دیکھ روئے یار کیا کہیے
by انعام اللہ خاں یقین

گئے سب بھول شکوے دیکھ روئے یار کیا کہیے
زباں حیرت سے میری ہو گئی بے کار کیا کہیے

تبسم میں جو اس کا منہ کھلا دل بندھ گیا ووہیں
مرا دل لے گیا ہنستے ہی ہنستے یار کیا کہیے

اگر اس کی جگہ پہلو میں ہوتا خار بہتر تھا
بہت دیتا ہے میرا دل مجھے آزار کیا کہیے

جلا کر آشیاں اس فصل گل میں باغباں میرا
جہنم تو نے مجھ پر کر دیا گلزار کیا کہیے

یقیںؔ کے واقعے کی سن خبر وہ بد گماں بولا
یہ دیوانہ تو کچھ ایسا نہ تھا بیمار کیا کہیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse