کیسا ہی دوست ہو نہ کہے راز دل کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
کیسا ہی دوست ہو نہ کہے راز دل کوئی
by لالہ مادھو رام جوہر

کیسا ہی دوست ہو نہ کہے راز دل کوئی
نکلی جو بات منہ سے تو پھیلی جہان میں

سچ سچ کہو یہ بات بنانا نہیں پسند
کیا کہہ رہے تھے غیر ابھی چپکے سے کان میں

پوچھا ہے حال زار تو سن لو خطا معاف
کچھ بات میرے ہونٹوں میں ہے کچھ زبان میں

عاشق سے پوچھیے نہ سر بزم حال دل
پردے کی بات سنتے ہیں چپکے سے کان میں

فرقت میں کیا بتاؤں کہ دن ہے کہ رات ہے
آنکھوں کو سوجھتا نہیں رونے کے دھیان میں

قصر جہاں ہے تیرے فقیروں کا جھونپڑا
محلوں سے بڑھ کے چین ہے اپنے مکان میں

دو دن کی زندگی میں جو چاہے کوئی کرے
رہ جاتی ہے بھلائی برائی جہان میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse